• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے چند ہفتوں میں کئی بار پاکستان کے طول و عرض سے لے کر بھارت تک زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے۔ کسی جانی، مالی نقصان کی اطلاع نہیں مگر اتنی کم مدت میں تواتر سے اتنے شدید زلزلے یقینا تشویش کی بات ہے۔ 16اپریل کا دن بھی عجیب تھا۔ امریکہ کاشہر بوسٹن دھماکوں کی زد میں تھا اور برصغیر، مشرق وسطیٰ زلزلے کی لپیٹ میں بلوچستان کے شہر ماشکیل میں موت محو ِ رقص تھی۔ قیامت کے مناظر چل رہے تھے۔ چین میں بھی جھٹکے محسوس ہوئے مگر جانی ومالی نقصان پاکستان اور ایران میں ہوا۔ پاکستان کا شہر ماشکیل صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ ایران کے 20کے قریب دیہات تباہ ہو گئے۔ جانی نقصان کا تادم تحریر اندازہ لگایا جارہا ہے۔ پاکستان فرنٹیئر کور کی رہائش گاہوں کو شدید نقصان پہنچامگر ایف سی کے نوجوان اپنے نقصان کو پس پشت ڈال کر امدادی سامان کے ساتھ ماشکیل پہنچ گئے۔ زلزلے کا مرکز ایرانی صوبہ سیستان کا علاقہ خاش تھا جو پاکستانی بارڈر سے زیادہ دور نہیں۔ ایرانی ذرائع کے مطابق پچھلے چالیس سال میں یہ سب سے زیادہ شدت کا زلزلہ تھا مگر سیستان میں آبادی کم ہے لہٰذا جانی نقصان بہت زیادہ نہیں۔ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کی شدت 7.8تھی جس سے بڑی تباہی کے امکانات ہوتے ہیں مگر زلزلے کا منبع کافی گہرائی میں تھا۔ بدیں وجہ جانی اورمالی نقصان کم ہوا۔ 2003میں ایران کے گنجان آباد ی کے شہربام میں 6.6 شدت کا زلزلہ آیا جو 26000 انسانوں کو نگل گیا۔ 1990 میں تقریباً 30000 ایرانی زلزلے سے زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔2005 میں پاکستان میں بدترین زلزلہ آیا جس کی لپیٹ میں پورا ملک تھا مگر آزاد کشمیر کا شہر مظفر آباد مکمل تباہ ہوگیا۔ اسلام آباد سے بالا کوٹ تک زلزلے کی شدت شدید ترین تھی جانی نقصان لاکھوں میں ہوا جس نے پوری دنیا کی توجہ حاصل کی۔ ابھی تک تباہ شدہ علاقوں میں Re construction کاعمل جاری ہے۔ 2012میں ایران کے شہر بشرہ میں زلزلے سے 30اموات ہوئیں مگر ایرانی نیوکلیئر پاور پلانٹ محفوظ رہا۔ حالیہ زلزلے سے پاکستان اورایران میں 100 کے قریب اموات کی تصدیق ہوچکی ہے مگر غالب رائے یہی ہے کہ دور دراز علاقوں کی وجہ سے تاحال صحیح اندازہ نہیں لگایا جاسکا۔
بوسٹن سے میرے ایک دوست حیدر جاوید وڑائچ نے ای میل کے ذریعے مجھے بوسٹن دھماکوں کے متعلق آگاہ کیا۔ موصوف کالمسٹ ہیں اور اسی موضوع پر نیویارک ٹائمز میں ان کا کالم بھی چھپ چکا ہے۔ وڑائچ صاحب لکھتے ہیں وہ بوسٹن میں ایک چائنیز فوڈ کورٹ میں اپنی بیوی او ر دوستوں کے ساتھ کھانے کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ اچانک زوردار دھماکہ ہوا اور ہمارے ہاتھوں سے پلاسٹک کے گلاسوں سے پانی چھلک گیا۔ ایک آواز آئی ”جراسک پارک سین۔“ سب ہنسنے لگے اور ساتھ ہی دوسرے دھماکے کی آواز آئی کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ بھاگم بھاگ قیامت کا سماں تھا۔ کان پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی۔ کچھ لوگ جائے وقوعہ سے بھاگ رہے تھے اور کچھ لوگوں کی مدد کے لئے جائے وقوعہ کی طرف بھاگ رہے تھے۔ فوڈ کورٹ کے فرش پر کھانا چھری کانٹے بکھرے پڑے تھے اور جس کے جس طرف سینگ سما رہے تھے بھاگا جارہا تھا۔ میں بیوی کو لے کر ہوٹل کی سیڑھیاں چڑھتا ٹیرس پر چلا گیا۔ سیاہ سڑک خون سے سرخ نظر آ رہی تھی، انسانی اعضا اِدھر اُدھر بکھرے پڑے تھے۔ پولیس اور امدادی ٹیمیں پہنچ چکی تھیں جو زخمیوں کو ہسپتال پہنچا رہی تھیں۔ امدادی سرگرمیوں میں شریک ہونے کے لئے میرا بھی دل چاہ رہا تھا مگر میں بنگلہ دیشی یا انڈین نہیں پاکستانی ہوں ہر ایونٹ کاپہلامشکوک۔ خوف کی وجہ سے امدادی سرگرمیوں میں شامل نہ ہوسکا اور مناسب وقت بھانپ کر بیوی کو لے کر دکھی دل کے ساتھ گھر کی راہ لی۔ دوسرے دن اپنے ایک بنگالی دوست سے ملا جو بنگلہ دیشیوں کی خیر خبر کے لئے ہسپتال سے ہو کر آیا تھا ۔ پاکستانی زخمیوں کے متعلق استفسار کرنے پر بتایا کافی زخمی ہیں بعض کے اعضا بھی کٹ چکے ہیں، کچھ ICU میں بھی ہیں، زخموں کے درد اور مشکوک ہونے کے خوف میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ ایجنسیوں کے خصوصی فوکس میں ہیں۔
صدر اوبامہ نے دورہ بوسٹن پر اپنے بیانات کے الفاظ انتہائی احتیاط سے منتخب کئے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کسی ایک پاگل کے کئے کی سزا پوری قوم کو ملے۔ مگر سب صدر اوبامہ کی طرح ذمہ دارہیں نہ مہربان زیادہ ایسے ہیں جو دوسروں کے دکھ درد کو نہیں سمجھتے البتہ اپنے د کھ کے اظہار میں خاصے وسیع القلب ہیں اور منہ پھٹ بھی۔ دھماکوں کے ساتھ ہی اسلام، مسلمان ممالک خصوصاً پاکستان کی طرف اشارے کئے جانے لگے۔ 17اپریل تک چہ میگوئیاں ہوتی رہیں۔ ایجنسیاں ٹامک ٹوئیاں مارتی رہیں اور تفتیش کے لئے مختلف رسیوں کے سرے ڈھونڈتی رہیں مگر کوئی سرا ہاتھ نہیں آ رہا تھا۔ اچانک 18اپریل کو بوسٹن کے نواحی قصبے واٹر ٹاؤن میں ایک نوجوان نے پولیس پر حملہ کرکے ایک پولیس آفیسر کو ہلاک دوسرے کو زخمی کر دیا۔ پولیس مقابلے میں حملہ آور نوجوان بھی مارا گیا۔ حملہ آور کی شناخت چیچن فیملی کے ایک فرد کے طور پر ہوئی جس کا نام تیمور لنک ہے۔ تیمور کے والدین سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ آ کر آباد ہوگئے۔ دوسرا بیٹا سرانوف جس کی عمر 19 سال ہے امریکہ میں پیدا ہوا۔ امریکی ایجنسیوں نے تیمور کی فیملی سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا سرانوف بھی 16اپریل سے لاپتہ ہے۔ پولیس نے تلاش کی تو سرانوف زخمی حالت میں واٹرٹاؤن میں ایک کشتی سے ملا۔ بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے حالت غیر تھی۔ پولیس نے ہسپتال پہنچایا جہاں اس کی حالت اب خطرے سے باہر ہے۔
2011میں تیمور اپنا پاسپورٹ Renew کروانے روس گیا تو روسیوں کو اس کی مشکوک سرگرمیوں پر تشویش ہوئی۔ روسی ایجنسی نے FBI سے تیمور کے متعلق رپورٹ مانگی اور اس کی مشکوک سرگرمیوں سے آگاہ کیا۔ ایف بی آئی کو ریکارڈ کی چھان بین سے کسی قسم کی مشکوک سرگرمیوں کی نشاندہی نہ ہوئی۔ 2012 میں تیمور پھر روس گیا اور چیچنیا اور داغستان میں چھ ماہ قیام کیا۔ امریکی ایجنسیوں کو شک ہے اس د وران تیمور نے ریڈیکل مسلمانوں سے رابطے کئے اور دہشت گردی کی تربیت حاصل کی۔ ایجنسیوں کو شک تھا مگر کوئی ثبوت نہ تھا۔ ایف بی آئی تیمور کے والدین سے رابطہ میں تھی تیمور کے روسی دوروں کے متعلق والدین کا موقف ہے چونکہ ابھی اسے امریکی شہریت نہیں ملی لہٰذا وہ اپنا پاسپورٹ Renew کروانے اور عزیزو اقارب کو ملنے گیا تھا۔ تیمو ر اب اس دنیا میں نہیں۔ امریکیوں کو یقین ہے سرانوف ہی دوسرا ملزم ہے جس سے ہمیں میراتھن دھماکوں کے متعلق انفارمیشن مل سکتی ہے۔ امریکی ایجنسیاں سرانوف کی ریکوری کی منتظر ہیں تاکہ اس سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کرسکیں۔ سوالیہ تفتیش سے معلوم ہوسکے گا کہ ان بھائیوں کے اور کن لوگو ں سے تعلقات تھے جو اسلام کے ریڈیکل نظریات سے متاثر ہیں۔ ان میں تربیت یافتہ کتنے ہیں۔ میراتھن دھماکوں میں ان کے ساتھ کون تھا۔ کون کون سے ممالک اور تنظیموں سے رابطے تھے۔ ایجنسیوں کی خواہش اور کوشش ہوگی مستقبل میں اس طرح کے سکیورٹی ایشوز کا سامنا نہ ہو۔ ایجنسیوں کے سوالات روایتی تفتیشی اداروں کے ہیں مگر صدر اوبامہ نے Intelligentia سے جو سوال کیا ہے وہ بہت اہم ہے۔ صدر صاحب کا سوال ہے وہ نوجوان جو ہمارے معاشرے میں پیدا ہوئے ، پلے بڑھے ہمارے اداروں سے تعلیم و تربیت حاصل کی وہ کیوں انتہاپسندوں سے اور ریڈیکل مسلمانوں سے متاثر ہو رہے ہیں۔ بہت اہم سوال ہے اور مغربی سکالرز کو اس سوال کا جواب ڈھونڈنا ہوگا۔ مغربی سکالرز کے ساتھ ساتھ آئینی قانونی ا داروں کو بھی کھوج لگانا ہوگا کہیں وہ دوسروں کی شناخت ، ان کے مذہبی نظریات، ان کی معیشت معاشرت سے جانے انجانے میں نا انصافی تو نہیں کر رہے؟ وسائل کی لوٹ کھسوٹ تو نہیں کر رہے۔ جمہوریت کے راستے میں سپیڈ بریکر کھڑے کرکے دوسرے ممالک کو جمہوریت کی برکات سے محروم تو نہیں کر رہے۔ معاشروں کو منفی بنیادوں پر تقسیم کرکے ان کا استحصال تو نہیں کر رہے ؟وقت آ گیا ہے مغرب کو خود احتسابی کرنا ہوگی اور سوچنا ہوگا چیچن اور داغستانی تو روس کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں پھر تیمور اور سرانوف کا امریکہ پر حملہ کیوں؟ سرانوف ابھی کسی قسم کا بیان دینے کی پوزیشن میں نہیں مگر اس کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے۔ سرانوف ابھی امریکی ایجنسیوں سے فاصلے پر ہے مگر امریکہ میں Maranda rightsکی بحث چھڑ گئی ہے جس کے مطابق ملزم کو حق حاصل ہے وہ جواب دے یا نہ دے۔ نیویارک میں ٹائمزسکوائر حادثے کے وقت بھی یہ سوال اٹھا تھا، سروے بھی ہوئے تھے مگر یہ سوال اپنی جگہ فی الحال تشنہ ہے اگر ملزم کو یہ حق ملا اور وہ خاموش رہا تو تفتیش کیسے آگے بڑھے گی؟ یہی وجہ ہے کہ صدر کے قانونی مشیروں نے ملزم کے خلاف فوجی قوانین کے مطابق مقدمہ چلانے کا مشورہ دیا ہے جہاں ملزم کو Maranda rights کی سہولت حاصل نہیں ہوگی۔ دہشت گردی عالمی جنگ بن چکی ہے اور امریکہ دہشت گردی کے خلاف حالت ِ جنگ میں ہے لہٰذ ا دہشت گردوں کے خلاف مقدمہ فوجی قوانین کے تحت چلایا جاسکتا ہے۔ دیکھئے صدر کون سا مشورہ قبول کرتے ہیں۔
تازہ ترین