• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ سالوں کے نوجوان اور آج کے ریٹائرڈ شاعر، وحید احمد اور نجم الثاقب نےپہلے بھی شاعری کی تھی مگر اب سر سے سرکار کا اوندھا توااتر گیا تو شاعری میں اجالا ہوا ہے۔

وحید احمد تو ہے ہی نظم کا شاعر، جیسے مجید امجد تھے یا راشد صاحب تھے۔ مجید امجد نے تو چند غزلیں ہم لوگوں کے اکسانے پر لکھی تھیں۔ مگر وحید نے نظم کا بیانیہ نہ صرف قائم رکھا بلکہ فرصت ملی تو تلمیحات کا وہ اعجاز دکھایا ہے کہ کتاب کا نام، اس منظر نامے کو کشید نہیں کرتا جو اس کی نظموں کے کینوس کا خاصا رہا ہے۔فلسفہ اور خدا کے رازوں کو جب بشر ٹٹولتا ہے تو وہ سوچ میں کسمسا کر بے اختیار کہہ اٹھتا ہے ’’تمہیں زہریلے فتوے داغنے کا اختیار ناروا کس نے دیا ہے؟اور پھرتڑپ کر ان ناہنجاروں سے کہتا ہے کہ ہلاکت ان پر آتی ہے جو اس کے اہل ہوتے ہیں‘‘۔ وہ سب کو اپنے انداز میں کشیدہ کار کہتا ہے کہ کورونا کے زمانے میں لمس کی چاہت بھی تڑپتی ہے اور اسے عراق و شام اور یمن یاد آتا ہے کہ یہ حملہ آور، یوم حشر میں بھی بارود شکموں میں اٹھائے، صلیبی جنگوں کے حاشیہ بردار بنے نظر آئیں گے۔لفظوں کےچنائو میں اسے معصوم اور عشق زدہ مصرعے نہیں نکلتے بلکہ وہ سلگتی نیند میں بھی پھنکار مارتی ناگن کے پھن کو دیکھتا ہے۔ سیاست نے اتنے لوگوں کو مراجعت پر مجبورکیا کہ وہ کھلے آسمان تلے برسوں سے بے گھر ہیں۔

وہ پھر فریاد کرتا ہے اور خدا سے کہتا ہے کہ ہمیں اس تخم ریزی کے شر سے بچا کہ اب تو میرے بدن کی مٹی جھڑتی جاتی ہے ۔

نجم الثاقب ،بارہ برس غیر ممالک میں بخت آوری کر کے واپس لوٹتے ہوئے اور راتوں میں اپنے وطن کا سوچتے ہوئے کہہ اٹھتا ہے ’شاید مسافروں کو اس کی خبر نہیں ہے۔ رستہ ملا نہیں رستہ دیا گیا ہے۔ مجھےلگتا دور دیسوں میں اپنے وطن کے بارے میں طلسمی قصے دن کو سناتا تھا۔ اور رات کو اس کے اندر کا شاعر کہلواتا ہے: کھلی ہے گود، برگد سامنے ہے۔ پرندہ ہوں اترنے جا رہا ہوں، واپس آنے سے پہلے ہی سوچ رہا ہوں کہ وطن جا رہا ہوں مگر وہاں ’’نیا کیا ہے ‘‘۔ دوسری نظم میں اس الجھن کو سمیٹتے ہوئے نظم بناتا ہے۔ ’’میری مٹی، میں تیرا مجرم ہوں ‘‘ کیونکہ فیصلوں کی گھڑی میں نادیدہ قوتیں درمیان میںہوتی ہیں۔ وہ ایسے ملکوں میں سفیر رہا کہ جہاں غربت ہے، کالے گورے کی سیاست ہے، منشیات کا پھیلائو ہے، چاہے وہ کیوبا ہو کہ جنوبی افریقہ کہ برازیل ،سوچتا ہے کہ وہ ملک بھی ہماری طرح نیا قرض لیکر پچھلے قرض چکائیں گے، مگر نظم میں یہ بھی کہتا ہےکہ کیوبا میں کوئی فقیر نظر نہیں آتا۔

نیا مجموعہ سفر’’ دوسری طرف ‘‘میں نظمیں نثری اور بحر میں بھی ہیں اور غزلوں میں زیادہ پرکیف چھوٹی بحرمیں کہی گئی غزلیں، کہیں تو ناصر کاظمی جیسی پرکاری کا عکس معلوم دیتی ہیںتو نثری نظموں میں وہ چے گویرا اور سانتے گودے کو باکو یاد کرتا ہے اور چار سطروں میں ماں کے کھانے اور زندگی سے منہ پھیر لینے کو طویل نظم سے بہتر ان چار سطروں میں بیان کرتا ہے: یہ ہے ’’1جنوری کی صبح ‘‘ دھڑکا تھا ، ماں چلی گئی، اگلا پل ،نہیں ہو گا ،زندہ ہوں اور ایک سال ہو گیا ہے ۔بار بار تشنگی کا حوالہ، شاید اس لئے وطن اور ماں دونوں پردیس میں بہت یاد آتے ہیں۔بہرحال ہسپانوی ثقافت کا عکس تو نظمیں دکھا رہی ہوں،وہ پاکستان کے لئے کیا کام کر کے آئے، وہ جب بتائیں گے تو آپ کی نذر کر دیں گے۔

ان شاعروں سے بالکل مستزاد آپ کو کرامت علی کی یادداشتوں میں جو تحریر ڈاکٹر جعفر احمد کی ہے، کیا خوش سلیقگی ہےکہ ہیں تو انٹر ویوز مگر اس کی ساری جدوجہد اور مزدور یونینوںکے ساتھ ہر دور میں کھڑے رہنے کے مسائل اور واقعات جن میں ذاتی زندگی بھی شامل ہے ،ضبط تحریر میں لائے گئے ہیں کہ ان کا ربط کہیں بھی ٹوٹتا نہیں۔ کرامت کوتو جوانی سے مجاہد بریلوی کی طرح سیاست میں دلچسپی رہی مگر کرامت علی نےخود کو مزدوروں کے ساتھ ایسے منسلک کیا کہ کیا ماہی گیر، کیا لیبر یونیز اور سیاست میں خاص کر انڈیا پاکستان کے تعلقات پر گہری نظر رکھی، باہر پڑھنے کو یاپھر کسی کانفرنس میں گئے تو مزدور کی مشکلات کو علامہ اقبال کی طرح ،ہیں سخت بہت بندہ مزدور کے اوقات ‘‘ علامہ اقبال نے تو 80برس پہلے کہا تھا کہ برصغیر کے معاشرے میں ذات پات کا زہر اب تک رواں ہے۔ ہم تو اب یکم مئی کی چھٹی بھی نہیں کرتے۔ماہی گیروں کے مسائل، مشینی ماہی گیری کے باعث اور زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ گوادر کے ترقیاتی منصوبے میں جال کے ذریعے ماہی گیروں کے مسائل کو واضح نہیں کیا گیا،البتہ ٹرالر والے دندناتے سمندر میں نکلتے ہیں۔ ماہی گیروں کی بستیاں ،کراچی سے ٹھٹھہ اور بدین تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ان کے لئے بھی صادق نے بہت کام کیا تھا۔

دلچسپ بیان وہ بھی ہے کہ انہوں نے ادیبوں اور دانشوروں سے نہ صرف تعلق رکھا، ان کے بارے میں یعنی فیض صاحب ہوں کہ صادقین۔ ڈاکٹر سرور، سبط حسن صاحب کہ فخر الدین ابراہیم، پروفیسر کرار حسین، اور ڈاکٹر اختر حمید خان سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کا احوال تحریر کیا ہےمگر تحریر تو ڈاکٹر جعفر کی ہے،اس وقت موجودہ دانشوروں میں ان کا دم غنیمت ہے۔ و ہ تحقیقی کتابیں لکھ رہے ہیں ،سہ ماہی ارتقا نکال رہے ہیں اور تاریخی اور ثقاقتی تحقیق کےانسٹی ٹیوٹ کو بڑی خوبی سے چلا رہے ہیں ،سلامت رہیں میرے سارے لکھنے والے!

تازہ ترین