• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبردادخان
کورونا وائرس زندہ رہنے کے بنیادی حق سے جڑی وبا ہے اور پاکستان میں اس کا تیزی سے دوبارہ پھیلنا ہر کسی کیلئےباعث تشویش ہے۔ اسی ماحول میں اپوزیشن کے جلسے، جلوس بھی پوری طاقت کے ساتھ جاری ہیں اور سیاسی اشرافیہ کا یہ حصہ اس وبا کو نہ اعدادو شمار کے باوجود تسلیم کرنے کو تیار ہے اور نہ ہی اپنی اجتماعی سیاسی مصروفیات ختم یا کم کرنے کیلئے آمادہ ہے تاکہ وبا تیزی سے نہ پھیل سکے۔ ویسے بھی ہم منظم معاشرہ کی تصویر نہیں ہیں، جہاں بیشتر چیزیں قوانین و ضوابط کے تحت چلتی ہوں ۔اپوزیشن اور حکومت کے درمیان بات چیت کا نہ ہونا اور ملک کو درپیش مشکلات کے پیش نظر اب یہ ضروری ہوچکا ہے کہ اس جمود کو توڑتے ہوئے مستقبل کی حکمرانی کے حوالےسے اہم فیصلے کرلیے جائیں،پاکستان پارلیمانی جمہوریت پر70ء کی دہائی سے چل رہا ہے، درمیان میں فوجی حکومتیں بھی آئیں، سول ملٹری حکمرانی کے ان برسوں میں سامنے آنے والے سیاسی کرداروں کے کئی جانشین موجودہ سیٹ اپ میں بھی موجود ہیں۔ پچھلے 50 برس کی حکومتیں بنانے اور توڑنے میں طاقتورقوتوں کا عمل دخل ایسی حقیقت ہے کہ وہ جو مستفید ہوئے اور وہ جو حالات میں ایڈجسٹ نہ ہوسکے سب ہی اس کردارکے معترف ہیں۔ اپوزیشن کا یہ مطالبہ کہ عمران خان یا خود گھر چلا جائے اور ایک مختلف الیکشن کمیشن کے تحت نئے انتخابات کروا دینا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے اور تمام مسائل مثلاً مہنگائی، بیروزگاری اور ملکی اٹھان کے معاملات خود بخود حل ہوجائیں گے۔ ایک غیر حقیقی کھیل کا منصوبہ ہے اور اس کھیل کے منصوبے کے تحت بات آگے نہیں بڑھ سکتی، جب عمران خان احتجاج اور مسلم لیگ ن کے درمیان مستقبل کا حوالہ سے اتفاق نہیں ہو پا رہا تھا اور اس سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا کہ پی ٹی آئی کے وہ جلسے اور دھرنہ پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا جمہوریت احتجاج تھا تب بھی قومی سطح کے اس جمود کو توڑنے کیلئے بالآخراعلیٰ عدالت کو مداخلت کرنی پڑی تھی۔ آج کے حالات بھی ایسے ہی ایکشن کے متقاضی ہیں، اعلیٰ عدالت ملک کا اعلیٰ ترین انصاف دہندہ ادارہ ہے اور اس کی آئینی حیثیت اسے غیر جانبدار بھی بناتی ہے۔ ملک میں موجود اعلیٰ عدلیہ کو عوام عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے کچھ حصوں کیلئے اعلیٰ عدلیہ کی مداخلت ایک کڑوی گولی ہوگی لیکن مستقبل کیلئے انتخابات سے جڑے معاملات نہایت پیچیدہ ہیں، جن سے ملک کی سیاسی قیادت نمٹنے کی اہل نہیں، اسے اس تیسرے فریق کی مدد کی ضرورت ہے جواعلیٰ عدلیہ سے بہتر کوئی ادارہ نہیں ہوسکتا، نہ ہی نیب اور نہ ہی موجودہ الیکشن کمیشن، حوالہ سے سوالات کے جواب کوئی جرگہ مادر کرسکتا ہے، کیونکہ اس کے پاس آئینی اور اخلاقی جواز موجود نہیں ہوگا اور نہ ہی ایسے کسی جرگہ کی تشکیل پر جلد اتفاق رائے پیدا کیا جاسکتا ہے جو اپوزیشن اور حکومت دونوں کیلئے قابل قبول ہو۔ وکلا طبقہ میں ہر جماعت کی نمائندگی موجود ہے، بالخصوص اعلیٰ وکلا تنظیموں میں جہاں سیاسی دھڑے بندی کی کمی نہیں اور نظم و ضبط کی عدم موجودگی میں عہدیداران ایک دوسرے سے مختلف پوزیشنز اختیار کیے ہوئے ملتے ہیں۔ ایسی کسی تنظیم کو ایسے قومی ایشو جو براہ راست ملک کی حکمرانی سے جڑا ہوا ہے سے نمٹنے کا کہنا ناکامی کو دعوت دینا ہے۔ لہٰذا یہ آپشن نا قابل عمل نہیں، بیک ڈور ڈپلومیسی پر چلتے ہوئے تمام طاقتور ادارے اپوزیشن کو عمران خان کےاستعفیٰ سے پیچھے ہٹاکر ملک کو درپیش دیگر ایشوز پر گفت و شنید کیلئے میز پہ لائیں۔ سیاسی دبائو کے تحت نہ مسلم لیگ ن کی حکومت گئی تھی اور نہ ہی اس وزیراعظم سے استعفیٰ مانگا جائے۔ اگر ن لیگ والوں کو پانچ سال حکومت کرنے کا حق ملا جو درست اپروچ تھی تو اس حکومت کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ بھی پانچ سال مکمل کرے۔ مہنگائی ضرور موجود ہے جس سے حکومت معاشی مشکلات کے باوجود ڈیل کررہی ہے۔ اگر اپوزیشن کے مرکزی اعتراضات اس حکومت کے اقتدار میں آنے سے جڑے سوالات سے جڑے ہیں تب بھی ان معاملات پرمصالحت اور رہنمائی کا موثر پلیٹ فارم اعلی ٰعدلیہ کی رہنمائی میں قائم کردہ کوئی فورم ہی ہوسکتا ہے۔اعلیٰ عدلیہ ملکی مفاد میں ازخود قدم اٹھاکر بھی قوم کو ریلیف دے سکتی ہے۔ بات چیت کے دروازے کھلے رکھنے کا ماحول قائم رکھنے کیلئے حکومت کی ذمہ داری ہے اور حکومت ازخود بھی اعلیٰ عدلیہ کی اس طرف توجہ دلاکر بات چیت کے ماحول کیلئے فضا ہموار کرسکتی ہے۔ اس طرح لوگوں کی بھاری اکثریت حکومت کو معقول اور صلح جو سمجھنے پر مجبور ہوجائے گی اور اپوزیشن کو مصالحتی شرائط کی میز پر آنا پڑے گا۔ جہاں سے مسائل کے حل نکلنے شروع ہوجائیں گے اور سیاسی درجہ حرارت بھی قابل برداشت سطح پرپہنچ جائے گا اور یہی اکثریت عوام کی خواہش ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے علاوہ کوئی حکومتی یا غیر حکومتی ادارہ ملک میں موجود نہیں جو اس کے برابر غیر متنازع اور وسائل کا حامل ہو اور اس معاملہ سے نمٹ سکتا ہو۔ یہ ایک پراعتماد قومی ادارہ ہے، جس میں ملک کے بہترین قانون دان بحیثیت جج (مصنف) موجود ہیں جنہوں نے ملکی مفادات کے تحفظ کے حلف اٹھا رکھے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک غیر حقیقی صورت حال کے گرد چکر کاٹ رہی ہیں اور اس صورت حال سے جلد باہر نکلنا وقت کا تقاضا ہے۔ طاقتور قوتیں حکومت کا تختہ الٹنے میں یقین نہیں رکھتیں ورنہ جس طرح ریاستی رٹ کو چیلنج کیا جارہا ہے، حکومت کو گھر بھیجنے اور قانون شکنی کرنے والوں سے گرفتاریوں کی شکل میں نمٹنےکیلئےبے پناہ مواد موجود ہے۔ موجودہ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ درست انتخابات ہوں، بیلٹ پیپر پر ٹھپے نہ حکمران جماعت لگوائے اور نہ ہی دھونس دھاندلی کو چلنے دیا جائے تاکہ جمہور کی حقیقی آواز اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ جائے اور قوم اپنے آپ کو بہتر کرنے میں مصروف رہے۔ وقت پر اگلے انتخابات کے انعقاد کیلئےسپریم کورٹ کا ایک پینل جس میں چند دیگر قانونی اور انتظامی ماہرین بھی شامل ہوں، روزانہ کی بنیاد پر سنتے ہوئے ایک سال کے اندر ایک قابل عمل لائحہ عمل دیں تاکہ2022ء میں ایسے انتخابات منعقد ہوجائیں جن کے نتائج تمام شریک جماعتیں قبول کرلیں اور قوم کو مستقبل میں تمام ’’میں نہ مانوں‘‘ کی آوازوں سے چھٹکارا مل جائے۔ الیکشن کمیشن کے تحت چلتے نظام اپیل میں بھی تیزی سے آگے بڑھنے کے مواقع موجود ہوں تاکہ اپیل کنندگان کو بروقت انصاف مل سکے۔ یہ تمام تجاویز اسی وقت قابل عمل ہوں گی جب انہیں اعلیٰ عدلیہ اور اعلیٰ انتظامیہ کی بیکنگ حاصل ہوگی اور آج جب موقع بھی ہے، دستور بھی ہے اور رسم دنیا بھی ہے تو اعلیٰ عدلیہ آگے بڑھ کر اس بڑے قومی معاملہ پر روڈ میپ دے کر اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرے۔ 
تازہ ترین