• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کئی ہفتوں کے انتخابی شور کے بعد بالآخر عوام نے اپنے من چاہے نتائج حاصل کرلیے ہیں لیکن ہفتوں سے جاری نعروں، تقریروں، تجزیوں اور تبصروں سے کان شائیں شائیں کررہے ہیں۔ کہیں پہ شیر کی دھاڑ تھی تو کہیں بلے کا سونامی۔کہیں پہ تیروں کی یلغار تھی تو کہیں پر ترازو کے تول، کہیں پر پتنگ کی پھڑپھڑاہٹ تھی تو کہیں پہ کتاب کی ورق گردانی، شہروں کے درودیوار دیکھیں تو وہاں پر بھی انتخابی نشان، امیدواروں کی تصویروں، بینرز اور پوسٹرز نے یہ پہچان ختم کردی تھی کہ کونسی دیوار ہے اور کونسا دروازہ، کونسا پل ہے اور کونسا کھمبا۔ ٹی وی چینلز آن کریں تو سارے چینلز پر ایک طرح کے سیاسی اشتہارات ۔ غرضیکہ ہر طرف الیکشن وبا کی طرح پھیلا ہوا تھا، لیکن اسلام آباد کی شاہراہوں پر میں نے کچھ ایسی گاڑیاں بھی دیکھیں جن پر ہیوی ساؤنڈ سسٹم نصب تھے اور ان پر بآواز بلند پارٹی کے نعرے چل رہے ہوتے تھے۔ تیزی سے گزر جانے والی گاڑیوں پر اگر پارٹیوں کے جھنڈے نہ ہوتے تو ساؤنڈ سسٹم کے ذریعے آنے والے آواز سے یہ معلوم کرنا مشکل تھا کہ یہ گاڑی کس سیاسی پارٹی کے حق میں مہم چلا ر ہی ہے۔ یہ سارے عمل تو روٹین کے تھے اور تقریباً جب بھی الیکشن ہوتے ہیں قوم کو اس بے ھنگم مہم سے گزرنا ہی پڑتا ہے، لیکن ان ساری چیزوں میں جو ہم تبدیلی کی بات تقریروں اور نعروں میں سنتے آئے ہیں وہ بڑے مثبت انداز میں نظر آئی ہے۔ اس تبدیلی میں چیف آف آرمی اسٹاف نے نہ صرف گزشتہ پانچ سالوں میں جمہوریت کو پروان چڑھنے میں اپنا کردار ادا کیا بلکہ 11 مئی کو اپنا ووٹ کاسٹ کرکے ایک مرتبہ پھر جمہوریت پر اپنے یقین کی مہر ثبت کی۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنا ووٹ کاسٹ کرکے اورآئین کی بالادستی کی بات کرکے یہ پیغام دیا کہ اب ملک صرف آئین وقانون کے مطابق ہی چلانے والوں کا قوم ساتھ دے گی۔ الیکشن والے دن چھٹیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شہر سے دور پرفضا مقامات پر چلے جانے والے نوجوانوں اور فیملیز نے اس مرتبہ ووٹ کو اہمیت دی۔ صحت، رش، ہجوم اور گرمی کو بہانہ بنا کرگھروں میں محصور رہنے والوں نے بھی لائنوں میں گھنٹوں کھڑے ہو کر ووٹ ڈالے ہیں۔ بزرگوں نے بھی سہاروں پر چل کر اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا ہے۔
میرے ایک دوست جو ایک پرائیویٹ کمپنی چلاتے ہیں نے مجھے بتایا کہ چھٹیوں کے دوران ان کے ادارے میں کام کی نوعیت بڑھ جاتی ہے تو چھٹی کو قربان کرکے ڈیوٹی دینے والے کو نہ صرف ایکسٹرا بونس ملتا ہے بلکہ سال کے آخر میں ایسے ملازمین کو تعریفی اسناد بھی دی جاتی ہیں اس لیے چھٹی والے دن ضرورت سے زیادہ ملازمین اپنی خدمات پیش کرتے نظر آتے ہیں لیکن 11 مئی کو ایک شخص بھی کام کرنے کے لیے تیار نہ تھا سب ووٹ ڈال کر اپنا حق ادا کرنا چاہتے تھے اور تبدیلی یہ بھی ہے کہ اب لوگ پرفارمنس پر ووٹ دینا چاہتے ہیں ۔ ووٹرز نے بڑی بے دردی سے ان امیدواروں کو مسترد کیا ہے جن کی کارکردگی مایوس کن تھی۔ تبدیلی یہ ہے کہ ووٹرز نے ان امیدواروں کو بھی مسترد کیا ہے جنہوں نے ترقیاتی کام تو کروائے ہیں لیکن ان پر کرپشن کے الزامات تھے۔ تبدیلی یہ ہے کہ ایک منتخب حکومت نے پانچ سال مکمل کیے اور اب اقتدار دوسری سیاسی پارٹی کو منتقل ہوجائے گا۔ تبدیلی یہ ہے کہ ووٹرز اور خاص طور پر نوجوان یہ سوچنے لگا ہے کہ کیا صرف نالیاں، سڑکیں اور پل بنے ہیں یا ملک بھی آگے بڑھا ہے۔
یہ درست ہے کہ سارے ووٹرز کی مرضی کے امیدوار کامیاب نہیں ہوئے ہوں لیکن یہ تو سب تسلیم کرتے ہیں جن کو اکثریت نے چاہا انہیں اقتدار دیا جارہا ہے اور اس کے نتیجے میں مسلم لیگ ن پاکستان کی پہلی بڑی اور تحریک انصاف دوسری بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ یہی تبدیلی ہے اور یہی جمہوری عمل ہمارے ملک کو آگے لے کرجائے گا۔ صرف ضرورت اس امرکی ہے کہ اب ہم سب نے محض ایک ووٹر بن کر نہیں بلکہ ایک سچا پاکستانی بن کر سوچنا ہے اور اس ملک کی ترقی کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ اپنے ملک کے پسے ہوئے طبقے کا بھی خیال کرنا ہے اور ملک کے وقار اور جھنڈے کوبھی بلند کرنا ہے۔ یہی ایک سچے پاکستانی کا کردار ہے اور یہی ملک اور جمہوریت کا تقاضا ہے اور یہی تبدیلی ہے۔
تازہ ترین