• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مراکش کیلئے مغربی صحارا کا مسئلہ، پاکستان کے مسئلہ کشمیر کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ تنازع کئی دہائیوں سے پائیدار حل کامنتظر ہے۔ گزشتہ دنوں ایک بڑی پیشرفت میں امریکہ نے مراکش کے جنوب مغربی صوبے صحارا پر مراکش کی خود مختاری تسلیم کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ امریکہ مغربی صحارا پر مراکش کی خود مختاری نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ تنازع کے منصفانہ اور پائیدار حل کیلئے علاقے پر مراکش کی خود مختاری کا حامی ہے۔

امریکہ کی جانب سے مغربی صحارا پر مراکش کی خود مختاری تسلیم کئے جانے کے بعد مراکش میں جشن کا سماں ہے اور قوم خوشی سے سرشار ہے۔ حالیہ پیشرفت کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ’’مراکش نے امریکہ کو 1777میں تسلیم کیا تھا اور آج امریکہ، مغربی صحارا پر مراکش کی خود مختاری تسلیم کررہا ہے‘‘۔ ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ ’’آج ہمارے دو عظیم دوست اسرائیل اور مراکش مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے پر رضامند ہو گئے ہیں جو مشرق وسطیٰ میں قیام امن کیلئے بڑی پیشرفت ہے‘‘۔ بعد ازاں مراکش کے دارالحکومت رباط میں منعقدہ ایک تقریب میں امریکی سفیر ڈیوڈ فشر نے مراکش کے نئے نقشے پر دستخط کرتے ہوئے اُسے منظور کیا جس میں جنوب مغربی صوبے صحارا کو مراکش کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ ’’معاہدے کے تحت امریکہ، مراکش کے جنوب مغربی صوبے صحارا میں اپنا ایک قونصل خانہ کھولے گا جبکہ صوبے کی ترقی کیلئے معاشی اور سوشل ڈویلپمنٹ میں مراکش کی مدد بھی کرے گا‘‘۔

مسئلہ مغربی صحارا اور مسئلہ کشمیر میں کافی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ 2لاکھ 66ہزار کلومیٹر رقبے پر محیط مغربی صحارا جسے مراکش 1957سے اپنا علاقہ قرار دیتا آرہا ہے، 1975تک اسپین کے زیر تسلط تھا۔ اس علاقے کو اقوام متحدہ نے 1974میں ایک قرارداد میں ’’نان گورننگ ٹریٹری‘‘ کا درجہ دیتے ہوئے اسپین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ مغربی صحارا میں ریفرنڈم کروائے اور علاقے سے دستبردار ہوجائے۔ نتیجتاً اسپین نے 1975میں مغربی صحارا پر دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے علاقے کا مشترکہ انتظامی کنٹرول مراکش اور ماریطانیہ کو سونپ دیا۔ مغربی صحارا پر اسپین کا انتظامی کنٹرول ختم ہوتے ہی وہاں مراکش اور ماریطانیہ کی افواج داخل ہوگئیں اور 80فیصد علاقے پر مراکش جبکہ 20فیصد علاقے پر ماریطانیہ نے کنٹرول حاصل کرلیا تاہم 1979میں ماریطانیہ مغربی صحارا سے دستبردار ہوگیا لیکن الجزائر کی حمایت یافتہ پولیساریو فرنٹ نے مغربی صحارا کے حصول کیلئے جھڑپیں جاری رکھیں۔ ایسی صورتحال میں اقوامِ متحدہ نے مغربی صحارا میں ’’مینورو‘‘ کے نام سے اپنا ’’امن مشن‘‘ قائم کیا اور علاقے میں ’’امن افواج‘‘ تعینات کردی جس کی قیادت آج کل پاک فوج کے میجر جنرل ضیاء الرحمٰن کررہے ہیں۔ 1991میں اقوام متحدہ کی ثالثی اور کوششوں سے مراکش اور پولیساریو کے مابین جنگ بندی سمجھوتے کے تحت ایک برس کے اندر مغربی صحارا میں ریفرنڈم کا انعقاد قرار پایا لیکن ریفرنڈم نہ ہونے کی وجہ سے مراکش اور پولیساریو فرنٹ کے درمیان مذاکرات طویل عرصے تک تعطل کا شکار رہے۔ ایک موقع پر مراکش نے یہ منصوبہ بھی پیش کیا کہ معروضی حالات میں مغربی صحارا کو زیادہ سے زیادہ ایسا نیم خود مختار صوبہ بنایا جاسکتا ہے جس کے دفاع، خارجہ اور تجارت کا انتظام مراکش کے ہاتھ میں ہو لیکن پولیساریو فرنٹ نے یہ تجویز مسترد کردی تاہم مغربی صحارا کے حوالے سے امریکی اعلان اور حالیہ پیشرفت کو پولیساریو فرنٹ اور اس کے حامی الجزائر کیلئے ایک دھچکا تصور کیا جارہا ہے۔

مغربی صحارا پر مراکش کی خود مختاری تسلیم کئے جانے کے امریکی فیصلے کے بعد مراکش سے مجھے بے شمار ٹیلیفون کالز موصول ہوئیں۔ میں نے جب اس بڑی کامیابی کے بعد مبارکباد کیلئے پاکستان میں مراکش کے سفیر محمد کرمون کو فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس کا کریڈٹ مراکش کے بادشاہ محمد ششم کی قیادت کو جاتا ہے جن کی بدولت ایک دیرینہ تنازع پر مثبت پیشرفت ہوئی جس کے بعد مراکش کے بادشاہ نے امریکی صدر سے ٹیلیفون پر گفتگو میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ اس طرح مراکش وہ چوتھا عرب ملک بن گیا جس نے اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے قبل متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان بھی اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ بعد ازاں مراکش کے بادشاہ محمد ششم نے فلسطینی صدر محمود عباس کو فون کرکے یقین دلایا کہ مراکش کے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے سے فلسطینیوں کے حق خود ارادیت اور حمایت میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔

سیاست اپنے مفادات کے حصول کا نام ہے۔ اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ مراکش نے اسرائیل سے تعلقات بحال کرکے اپنے دیرینہ تنازع کے حل میں امریکہ کی حمایت حاصل کی اور اپنے مفادات حاصل کئے تو یہ میرے نزدیک گھاٹے کا سودا نہیں اور ایک کامیاب سفارتکاری ہے۔ کاش کہ وزیراعظم عمران خان بھی اسرائیل سے تعلقات فلسطینی ریاست کے قیام سے مشروط کرنے کے بجائے سیاسی تدبر اور بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے موجودہ صورتحال سے فائدہ اٹھاتے تو آج مراکش کے مغربی صحارا کی طرح امریکی حمایت سے مسئلہ کشمیر پر بھی پیشرفت ہو سکتی تھی۔

تازہ ترین