اسلام آباد (حنیف خالد) وزیراعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا ہے کہ پاکستان چینی کی برآمد سے 23ارب روپے کما سکتا ہے۔ اس کیلئے شوگر انڈسٹری میں نئی ٹیکنالوجی لانا ہو گی جو کہ چند ملوں میں آ گئی ہے۔ حکومت کیلئے ضروری ہے کہ وہ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے ساتھ مل بیٹھ کر گنے اور چینی کی پیداوار میں اضافہ کرے۔ اس بارے میں پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین چوہدری ذکاء اشرف سے جب رابطہ قائم کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب بھی حکومت ہمیں تعاون و اشتراک کیلئے کہے گی ہم وطن عزیز اور قوم کیلئے 23ارب روپے سے زیادہ زرمبادلہ کمانے کیلئے چینی کو اسی طرح برآمد کرینگے جس طرح انڈین گورنمنٹ نے امریکہ کو چینی کی برآمد کی اجازت دی ہے۔ چند روز قبل انڈین حکومت نے امریکہ کو ٹیرف ریٹ کوٹہ (TRQ)کے تحت 8ہزار 424ٹن خام چینی برآمد کرنے کی اجازت دی ہے۔ ٹیکنو کوڈکٹس کے مطابق انڈیا یہ خام چینی امریکہ کو برآمد کریگا جس سے کروڑوں ڈالر کا زرمبادلہ کمائے گا۔ خام چینی کی برآمد لو ٹیرف کوٹہ کے تحت 30دسمبر 2021ء تک کی جا سکے گی۔ یہ بات انڈین فارن ٹریڈ کے ڈائریکٹوریٹ جنرل نے کہی۔ انڈیا امریکہ کو 10ہزار ٹن ڈیوٹی فری چینی سالانہ ترجیحی کوٹہ انتظام کے تحت برآمد کر رہا ہے۔ انڈیا میں8شوگر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آسٹریلیا کے شوگر ریسرچ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں اسکے نتیجے میں انڈیا کی فی ایکڑ گنے کی پیداوار جو 1970ء میں 750من تھی آج 1200من فی ایکڑ ہو گئی ہے جبکہ پاکستان کی فی ایکڑ گنے کی پیداوار ساڑھے 7سو فی ایکڑ سے کم ہو کر ساڑھے 4سو من فی ایکڑ رہ گئی ہے۔ پاکستان میں چینی کا ریکوری ریٹ 9فیصد تک ہے جبکہ انڈیا میں ریکوری ریٹ 12فیصد ہے جس کا مطلب ہے کہ 100من گنے سے بھارت میں 12کلو چینی نکالی جاتی ہے اور پاکستان میں ساڑھے 8یا 9فیصد نکالی جاتی ہے۔ آسٹریلیا میں گنے کی فی ایکڑ پیداوار 18سو من فی ایکڑ ہے جبکہ آسٹریلیا میں گنے سے چینی کا ریکوری ریٹ 14سے 15فیصد تک ہے۔ اگر حکومت پاکستان بھی شوگر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آسٹریلیا کے تعاون و اشتراک سے قائم کرے تو پاکستان کم رقبے پر زیادہ گنا پیدا کر کے باقی رقبہ دوسری فصلوں کپاس‘ مکئی‘ چاول وغیرہ کیلئے رکھ سکتا ہے۔ مگر پاکستان نے تاحال ایسی کوئی پالیسی یا پلاننگ نہیں کی۔ ڈاکٹر عشرت حسین کا کہنا ہے کہ گنے کی فی ایکڑ پیداوار بڑھانے اور گنے سے چینی کے ریکوری ریٹ میں اضافہ کرنے کی ازحد ضرورت ہے۔ چینی کے ڈیلروں کی کل پاکستان ایسوسی ایشن کے مطابق حکومت پاکستان نے جو ایک سے ڈیڑھ لاکھ ٹن چینی درآمد کی اس میں انڈیا کی وہ مضر صحت چینی بھی شامل ہے جس میں پانچ فیصد تک گندھک استعمال کی گئی ہے۔