• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بڑے خان صاحب جب سے خانِ اعظم بنے ہیں ایک نئی سوچ، نظریے اور فکر کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔ وہ کسی مخالف سے ڈرتے ورتے بالکل نہیں۔ ہروقت اُنہیں تہس نہس کرنے کے لئے کسی بھی حد سے گزرنے کو تیار رہتے ہیں۔

خانِ اعظم کے دائیں بائیں، اوپر نیچے جو کچھ ہو رہا ہے اُنہیں جو اندرونی و بیرونی خفیہ رپورٹیں ملتی ہیں، جس دباؤ کو وہ محسوس کرتے ہیں، جن پر دباؤ بڑھتا دیکھتے ہیں کسی نہ کسی انداز میں دو ٹوک کہے دیتے ہیں۔

کبھی کبھی تو ایسے لگتا ہے کہ خانِ اعظم چوکے چھکے لگا کر اِس پانچ سالہ میچ کو پانچ دن میں آر پار لگانا چاہتے ہیں تو کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی سیانے کے مشورے پر انضمام الحق کی طرح سست رفتار بیٹنگ سے دباؤ کی شکار نیچے لگی اپنی ٹیم کو نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

دبنگ خانِ اعظم کا یہی انداز تو اُنہیں مقبولِ عام بنائے رکھتا ہے۔ اب آپ ہی دیکھئے نا کہ ہمارے خانِ اعظم نے پی ڈی ایم تحریک کے دباؤ میں آکر نجی ٹی وی چینلز پر جو عمران سیریز شروع کی ہے اُن میں وہ جو کچھ کہہ اور سنا رہے ہیں.

جن اداروں کو مخالفین کی طرف سے دباؤ میں لانے کی کوششوں کا وہ تذکرہ کرتے ہیں اور اداروں میں پائی جانے والی شدید ناراضی کا اظہار کئے جارہے ہیں، یہ اندر کی باتیں ماضی کی اُلٹ پلٹ ہونے والی حکومتوں کے زوال میں چھوٹے موٹے سیاسی اہلکار، کل پرزے بڑے بڑے ایوانوں میں ہونے والی مختصر مگر سازشی ملاقاتوں کے بعد میڈیا تک لاتے تھے جو بعد میں اخبارات میں شہ سرخیوں کے طور پر شائع کی جاتی تھیں۔

پھر ایسا پنڈورا باکس کھلتا تھا جسے بند کرنے کے لئے کسی نہ کسی کو قربانی کا بکرا بنا کر نظام چلانے، بچانے کے نام پر بطور صدقہ دینا پڑتا تھا۔ اب یہ کام بھی اگر خانِ اعظم نے اپنے ذمے لے لیا ہے تو فکر مندی بڑھتی ہی جارہی ہے کہ جن اداروں کی طاقت ور ترین شخصیات خانِ اعظم کے اوپر نہیں نیچے بیٹھی ہیں، اُن کے تحفظ کی تدبیر کون کرے گا؟ پی ڈی ایم الیون جب سے میچ میں اِن ہوئی ہے ہمارے خانِ اعظم مسلسل عمران سیریز میں قومی سلامتی کے اداروں میں پائی جانے والی بےچینی کا ذکر کرکے اِس کشیدگی کو کم کرنے کی بجائے پی ڈی ایم الیون کی حوصلہ افزائی ہی تو کررہے ہیں کہ وہ مقتدر حلقوں کو اپنی جارحانہ حکمت عملی کے تحت مزید دباؤ کا شکار کرے۔ خانِ اعظم کا بار بار یہ کہنا کہ پی ڈی ایم اداروں کے اندر (محتاط الفاظ میں) غلط فہمیاں پیدا کر رہی ہے اور اُنہیں اکسا رہی ہے۔

عمران سیریز کے تازہ نشر ہونے والے ناول کا اگر بغور تجزیہ کیا جائے تو بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں کہ خانِ اعظم نے قومی سلامتی کے ذمے دار ترین سربراہوں کے نام سے جو اظہار خیال کیا ہے جس طرح ان اداروں میں پائے جانے والی بےچینی اور پی ڈی ایم کے طرز کلام پر اُن کی ناراضی ظاہر کی گئی ہے جن موضوعات کو دانستہ چھیڑا گیا ہے اگر یہی موضوعات کسی اپوزیشن لیڈر یا سیاسی تجزیہ نگار نے زیر بحث لائے ہوتے تو قابلِ گرفت قرار پاتے۔

چند ہفتے قبل خانِ اعظم نے اپوزیشن پر الزام لگایا کہ بیرونی طاقتوں کی سرمایہ کاری سے پی ڈی ایم کی تحریک پروان چڑھائی جارہی ہے اور یہاں تک کہہ دیا گیا کہ لندن میں بیٹھا ایک مفرور پاکستان اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف سازشیں کررہا ہے، بغاوت سے سازش تک کے سنگین الزامات لگا دیے گئے۔

ایسے الفاظ بولے گئے جنہیں مکمل جوڑتے ہوئے بھی ہمیں خوف آتا ہے لیکن خانِ اعظم ہیں کہ اپنی لفاظی سے ہر وقت ماحول گرمائے رکھتے ہیں اور اِس بات کا خیال ہی نہیں کرتے کہ اُن کے بولے ہوئے الفاظ تاریخ کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔

جب خانِ اعظم ہی احتیاط کا دامن چھوڑ دیں گے اور اداروں کے سربراہوں کو سیاست کے میدان میں لے آئیں گے اور اُن کا نام لے لے کر بظاہر اپوزیشن کو ڈرائیں، دھمکائیں گے تو پھر آپ کیا توقع رکھتے ہیں کہ مخالفین چپ ہو کررہ جائیں گے؟ ملکی سیاست میں پاک فوج کی اعلیٰ قیادت کو جب حکومتی سطح پر بار بار زیر بحث لایا جائے گا تو یقیناً ردِعمل یک طرفہ نہیں، دو طرفہ ہی آئے گا۔

اگر ملکی حالات کی خرابی کا تمام تر ملبہ اپوزیشن پر ہی ڈالنا ہے اور اپوزیشن نے بھی بوجھ اپنے کاندھوں سے اُتار کر طاقت ور حلقوں پر منتقل کرنا ہے اور آپ نے خود کو تمام تر مسائل سے بری الذمہ قرار دے کر اِسی حال میں مست رہنا ہے کہ اپوزیشن اور قومی سلامتی کے اداروں کے درمیان ٹکراؤ کی صورت میں آپ سب سے بڑے سیاسی کھلاڑی بن کر ابھریں گے تو یہ سوچ اور نظریہ یقیناً دیرپا نہیں کہ اگر آرٹیکل چھ کا اطلاق حالیہ اپوزیشن پر ہو سکتا ہے

لیکن ماضی کی اپوزیشن (تحریک انصاف) اِس سے مبرا قرار دے دی جائے یہ کیسے ممکن ہے؟ جب انصاف کا پہیہ گھومتا ہے تو پھر آرٹیکل چھ لگانے اور عمل کروانے والے یہ نہیں دیکھتے کہ سامنے کون ہے۔

پھر اِس کا اطلاق لامحدود ہوتا ہے۔ آپ ٹھیک کہتے ہیں کہ غیرملکی قرضوں کے بوجھ تلے دبے ملکوں کی کوئی خارجہ پالیسی نہیں ہوتی لیکن اِس میں توازن رکھنا تو خانِ اعظم کے اختیار میں ہے۔ اگر خارجہ پالیسی ہی آپ کے کنٹرول میں نہیں اور اُس کی ناکامی کی ذمے داری بھی آپ نے قبول نہیں کرنی اور یہ بوجھ بھی نہیں اُٹھانا تو کم از کم احتیاط کا دامن تو ہاتھ سے نہ چھوڑتے۔

سعودی عرب سے پاکستان کے تاریخی اسلامی برادرانہ تعلقات میں موجودہ خرابی کی وجوہات میں ایک بنیادی وجہ بکھری سوچیں ہی تو ہیں جس کا ادراک آپ نے کبھی نہیں کیا اور یہ سارا بوجھ بھی اگر کسی اور کے کندھوں پر ڈالنا ہے اور اِس حوالے سے مزید شکوک شبہات پیدا کرنا ہیں تو یہ روش بھی اچھی نہیں۔ کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی۔

جب آپ ریاست مدینہ کے دو بنیادی اصولوں کی بات کرتے ہیں تو اِن اصولوں پر عمل کرنے کے بجائے آپ چین کو ریاستِ مدینہ کے اصولوں پر چلنے والا ملک قرار دیں تو پھر ہم کیا سوچیں کہ قرضوں کے عوض قرضے لینے اور اتارنے کی قیمت کیا ہوتی ہے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین