• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گیارہ مئی کو کچھ لوگوں نے الیکشن جیتا کچھ لوگوں نے دل جیتے۔ کچھ امیدوار جیت کے ہار گئے کچھ ہار کر جیت گئے۔ گیارہ مئی سے قبل ا س خاکسار نے بار بار عرض کیا تھا کہ الیکشن2013ء میں کوئی کلین سویپ نہیں ہوگا۔ کوئی انقلاب نہیں آئے گا، الیکشن کا بروقت انعقاد کسی ایک جماعت یا ا دارے کی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی جیت ہوگی اور نوجوان اپنی اپنی پسند کی سیاسی جماعتوں کی ہار جیت کو زندگی موت کا مسئلہ نہ بنائیں۔ ہم سب جانتے تھے کہ گیارہ مئی کو پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں بھرپور الیکشن ہوگا لیکن بلوچستان میں کم ٹرن آؤٹ کے ساتھ ساتھ دھاندلی کاخدشہ تھا۔ ہمارے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں بھی دھاندلی کا شور اٹھے گا کیونکہ پہلی دفعہ ایک آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن کی نگرانی میں الیکشن ہورہے تھے۔ گیارہ مئی کی صبح ساڑھے دس بجے کے قریب میں جیو ٹی وی کے کراچی میں قائم کئے گئے الیکشن ہیڈ کوارٹر سے براہ راست نشریات میں مصروف تھا کہ کراچی کے حلقہ این اے250سے خبریں آنے لگیں کہ کئی پولنگ سٹیشنوں پر ووٹر تو موجود ہیں لیکن پولنگ کا عملہ موجود نہیں۔ کچھ ہی دیر میں گڑ بڑ اور مار دھاڑ کے واقعات بھی شروع ہوگئے۔ دوپہر بارہ بجے ایم کیو ایم نے پریس کانفرنس کردی اور این اے250میں پولنگ عملے کے غائب ہونے کی تصدیق کردی۔ دو بجے دوپہر جماعت اسلامی نے کراچی اور حیدر آباد میں مبینہ دھاندلی کے خلاف بائیکاٹ کردیا۔ کچھ ہی دیر میں پیپلز پارٹی نے بھی پریس کانفرنس کردی۔
پنجگور، آواران، خضدار اور ڈیرہ بگٹی والوں کی کسی نے نہیں سنی کیونکہ وہاں کسی ٹی وی چینل کا کیمرہ موجود نہ تھا۔ ان علاقوں کے کئی پولنگ سٹیشنوں پر الیکشن کمیشن کا عملہ تمام دن غائب رہا لیکن شام کو ان پولنگ سٹیشنوں سے سینکڑوں ووٹ نکل آئے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ گیارہ مئی کو تحریک طالبان پاکستان الیکشن2013ء میں کوئی بڑی گڑ بڑ نہ کرسکی لیکن الیکشن کمیشن کی نااہلی اور غفلت نے اس الیکشن کی ساکھ کو بری طرح مجروح کیا۔ الیکشن کے مجموعی نتائج غیر متوقع نہیں ہیں۔ اکثر تجزیہ نگاروں اور مبصرین کو صاف نظر آرہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اکثریت حاصل کریگی البتہ پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے توقعات سے کچھ کم نشستیں حاصل کیں۔ انتخابی مہم میں اصل مقابلہ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے درمیان نظر آرہا تھا لیکن انتخابی نتائج کے بعد مسلم لیگ (ن) پہلے، پیپلز پارٹی دوسرے اور تحریک انصاف تیسرے نمبر پر نظر آرہی ہے۔ مسلم لیگ(ن)کو پنجاب، پیپلز پارٹی کو سندھ اور تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا میں اکثریت ملی ہے۔ بلوچستان میں پشتو نخوا ملی عوامی پارٹی نے اکثریت حاصل کی ہے جسے مسلم لیگ (ن) کی حمایت حاصل تھی۔ کچھ بلوچ قوم پرست بھی لڑتے مرتے صوبائی اسمبلی میں پہنچ گئے ہیں اور انہیں قومی دھارے میں شامل رکھنا مسلم لیگ(ن) کی ذمہ داری ہے۔ بلوچستان میں مسلم لیگ(ن) نے اندازوں سے زیادہ اور خیبر پختونخوا میں اندازوں سے بہت کم نشستیں حاصل کیں لیکن قومی اسمبلی میں اس کی نشستیں اکثر اندازوں کے آس پاس ہیں۔ ان اندازوں کو سامنے رکھا جائے تو الیکشن2013ء میں بہت زیادہ دھاندلی نظر نہیں آتی۔ عمران خان نے بھی قومی اسمبلی کی25نشستوں پر دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کی جماعت کراچی کی تمام نشستوں پر دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کررہی ہے لیکن یہ بہت مشکل ہوگا البتہ این اے250میں دوبارہ الیکشن کے لئے ایم کیو ایم اور تحریک انصاف دونوں متفق ہیں اس لئے الیکشن کمیشن کو پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ کرانی چاہئے۔
یورپی یونین کے الیکشن مبصرین نے90فیصد انتخابی حلقوں میں پولنگ پر اطمینان ظاہر کیا ہے۔ جن10فیصد حلقوں میں دھاندلی کے خدشات کا اظہار کیا گیا ہے ان کا تعلق کراچی، بلوچستان اور پشاور سے ہے جبکہ لاہور کے کچھ حلقوں میں بدانتظامی کی شکایات سنی گئیں۔ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کا الزام لگانے والوں کو چاہئے کہ ٹھوس ثبوت سامنے لائیں۔ تحریک انصاف کی سیکرٹری اطلاعات ڈاکٹر شیریں مزاری نے مجھے لاہور کے حلقہ این اے125کے ایک پولنگ سٹیشن کی ویڈیو فراہم کی۔ ویڈیو میں رینجرز کا ایک جوان عورتوں کے پولنگ بوتھ میں نظر آرہا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کا دعویٰ تھا کہ رینجرز کا جوان عورتوں کو ووٹ ڈالنے سے منع کررہا تھا۔ ویڈیو میں خاکی وردی میں ملبوس جوان کا چہرہ واضح نہیں۔ اس ویڈیو کے جیو ٹی وی پر نشر ہونے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ پنجاب رینجرز کی وردی خاکی نہیں بلکہ سبز ہے۔ یہ ویڈیو سندھ کے کسی پولنگ سٹیشن کی تھی، تاہم دھاندلی کی شکایت صرف تحریک انصاف نہیں کررہی بلکہ پیپلز پارٹی اور اہل سنت و الجماعت بھی کررہی ہے۔ سندھ میں فنکشنل لیگ، عوامی تحریک اور جماعت اسلامی کو دھاندلی کی شکایت ہے۔ بلوچستان میں نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ کے علاوہ جمہوری وطن پارٹی کو دھاندلی کی شکایات ہیں۔ خیبر پختونخوا میں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے تحریک انصاف کا مینڈیٹ تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے اور مظاہروں کی کال دیدی ہے۔ مولانا صاحب سے گزارش ہے کہ وہ دھاندلی کے ٹھوس ثبوت سامنے لائیں۔ یہ تاثر نہیں ملنا چاہئے کہ وہ خیبر پختونخوا میں حکومت سازی کے لئے کوششوں میں ناکامی کے بعد تحریک انصاف پر دھاندلی کا الزام لگارہے ہیں۔ شاید انہیں معلوم نہیں کہ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک(فافین) کی ایک رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا کے جن حلقوں کے کچھ پولنگ سٹیشنوں پر100فیصد سے زیادہ پولنگ ہوئی ان حلقوں سے تحریک انصاف کے صوبائی سربراہ اسد قیصر اور خود مولانا فضل الرحمان نے بھی کامیابی حاصل کی ہے۔ الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ دھاندلی کی شکایات پر آنکھیں بند نہ کرے جن حلقوں میں بروقت پولنگ شروع نہیں ہوئی یا رجسٹرڈ ووٹوں سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے یا کھلم کھلا دھاندلی ہوئی وہاں کے ذمہ دار افسران کے خلاف فوری کارروائی کرے ورنہ الیکشن کمیشن کے خلاف پائی جانے والی بے چینی انتہائی منفی رخ اختیارکرسکتی ہے۔
الیکشن مہم میں مسلم لیگ(ن)اور تحریک انصاف نے ایک دوسرے کے خلاف بڑی سخت زبان استعمال کی لیکن الیکشن میں کامیابی کے بعد مسلم لیگ (ن)کے سربراہ نواز شریف نے پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شوکت خانم ہاسپٹل جا کر عمران خان کی عیادت کی اور ان سے صلح کرلی۔ نواز شریف نے خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کا مینڈیٹ بھی تسلیم کرلیا ہے۔ وہ بڑی آسانی کے ساتھ مولانا فضل الرحمان کی مدد سے خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کو حکومت سے باہر رکھ سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی کو سخت ناکامی کا سامنا کرنا پڑا لیکن اے این پی نے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔ اے این پی نے ہار کر بھی کئی دل جیت لئے کیونکہ اگر یہ پارٹی طالبان کے حملوں کے بعد الیکشن کا بائیکاٹ کردیتی تو کچھ دیگرجماعتیں بھی بائیکاٹ میں شامل ہوجاتیں اور ایسی صورت میں اس الیکشن کی کوئی اہمیت نہ ہوتی۔ مجھے یہ کہنے دیجئے کہ اے این پی والوں نے تحریک انصاف، جے یو آئی اور جماعت اسلامی کو اپنے زخمی کندھوں پر اٹھا کر اسمبلیوں تک پہنچایا ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنی غلط پالیسیوں کی کلہاڑی اپنے ہی پاؤں پر خوب چلائی۔ جس پارٹی کو جنرل ضیاء اور جنرل مشرف ختم نہ کرسکا اس پارٹی کو اپنوں نے صرف سندھ تک محدود کردیا اور اگر سندھ میں بھی اقتدار ایک مخصوص خاندان کے ہاتھ میں رہا تو یہ پارٹی سندھ سے بھی ختم ہوجائے گی۔ پیپلز پارٹی سندھ میں جیت کر بھی ہاری ہوئی نظر آتی ہے، اگر اس پارٹی نے غلطیوں سے سبق سیکھ کر سندھ میں ایک صاف ستھری حکومت بنا کر عوام کی خدمت کی تو پانچ سال کے بعد یہ پارٹی ایک دفعہ پھر پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں زندہ ہوسکتی ہے۔
تازہ ترین