• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2022: ملکی سیاست، معیشت اور عوام کیلئے غیر معمولی ہنگامہ خیزی کا سال رہا

ماسوائے درمیان کے چند مختصر عرصوں کے، ویسے تو گزشتہ 76برسوں سے ہی پاکستان کی سیاست اور ریاست کو مستقل عدم استحکام اور افراتفری کا شکار رکھا گیا ہے، تاہم سال 2022 ملکی سیاست، معیشت اور کمرتوڑ مہنگائی کی صورت میں عوام کے لیے خاص طور پر غیرمعمولی ہنگامہ خیزی کا شکار رہا۔

اس غیرمعمولی سیاسی ہنگامہ خیزی کا سلسلہ ملک میں 2018میں ہونے والے عام انتخابات سے جا ملتا ہے۔

2018میں ہونے والے عام انتخابات کا انعقاد حالانکہ نسبتاً پرامن ماحول میں ہوا، جس کے نتیجے میں عمران خان کی سربراہی میں پاکستان تحریک انصاف، اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر وفاق، پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں حکومتیں بنانے میں کامیاب رہی، تاہم ان انتخابات پر شدید قسم کی ’’قبل از انتخابات دھاندلی‘‘ کے الزامات لگے، جب کہ انتخابی نتائج اکٹھے کرنے کے کمپیوٹر پر مبنی رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (RTS)کے نتائج اکٹھا کرنے کے عمل کے دوران حیران کن اور غیرمتوقع طور پر بیٹھ جانے نے ان انتخابات کی شفافیت پر مزید سوال اُٹھادیے تھے۔

سول۔ملٹری ہائبرڈ سیٹ۔اَپ زیادہ عرصہ ’’ایک صفحہ‘‘ پر نہ ٹھہر سکا اور اس میں گزشتہ سال اس وقت دراڑیں پڑنا شروع ہوئیں جب اکتوبر میں اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے تبادلے کے معاملے پرڈیڈلاک پیدا ہوگیا۔ملٹری اس تبادلے کی کئی ہفتے پہلے منظوری دے چکی تھی جب کہ عمران خان اس سمری پر دستخط کرنے کو تیار نہیں تھے، جو کئی دن قبل پرائم منسٹر آفس کو موصول ہوچکی تھی۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی ایک ایسی بیساکھی تھے، جس کے بغیر عمران خان ایک قدم بھی نہیں چلتے تھے۔ 

حزبِ اختلاف کو دَبا کر رکھنا ہو، یا میڈیا کو کنٹرول کرنا، یا پھر اتحادیوں کو حکومت کی حمایت جاری رکھنے پر راضی کرنا، عمران خان کے لیے یہ سارے کام سابق ڈی جی آئی ایس آئی ہی انجام دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ، آئندہ انتخابات کے وقت بھی خان انھیں اپنے قریب رکھنا اور شاید جنرل قمرجاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد انھیں نیا چیف آف آرمی اسٹاف بنانا چاہتے تھے(حالاں کہ خان نے اپنے حالیہ بیانات میں اس بات سے انکار کیا ہے)۔

اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہوتے ہی (خان حکومت سے اپنی حمایت واپس لیتے ہی) گزشتہ تین ، ساڑھے تین سال سے ہچکولے لیتی حزِب اختلاف کی سیاست میں جان پڑگئی اور ملک کے سیاسی منظرنامے پر حزبِ اختلاف کی سیاست کے لیے گنجائش پیدا ہوتی نظر آئی۔ حزبِ اختلاف نے بھی صورتِ حال کو بھانپتے ہوئے، خان انتظامیہ کی خراب طرزِ حکمرانی اور عوام پر ڈالے جانے والے کمرتوڑ مہنگائی کے بوجھ کو جواز بناتے ہوئے حکومت مخالف تحریک کو تیز کردیا۔ ملٹری کے نیوٹرل ہوتے ہی پاکستان تحریک انصاف کی دو اتحادی جماعتوں نے بھی حکومت سے علیحدگی کا اعلان کردیا، جن کے اعتماد سے ہی خان حکومت قائم تھی۔

2022کی پہلی سہ ماہی میں سیاسی افراتفری عروج پرپہنچ چکی تھی۔ آٹھ مارچ کو حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے عمران خان حکومت کے خلاف قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک جمع کروائی۔

آٹھ مارچ کو قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع ہونے سے لے کر 10-9 اپریل کی شب اس تحریک پر ووٹنگ ہونے تک (جب 342نشستوں کے ایوانِ زیریں میں 174اراکین نے عمران خان کے خلاف ووٹ دے کر ان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا) کے بیچ کے ہفتے سیاسی ڈرامے، ذاتی مفادات کی جنگ، آئین کی پامالی، تجسس، اور انتہائی غیرمعمولی افراتفری سے بھرپور تھے۔ایک مضبوط سوشل میڈیا اسٹریٹجی (جس میں فیک نیوز کا بھی کثیر استعمال کیا جاتا ہے)کے بل بوتے پر سیاسی بیانیہ تشکیل دینے میں پی ٹی آئی کا دور تک کوئی ثانی نہیں۔ 

اسی حکمتِ عملی کو استعمال کرتے ہوئے خان نے عدم اعتماد کی تحریک اور اپنی حکومت کے خاتمے کے خلاف عوامی رائے عامہ بنانے کے لیے ’’سازشی بیانیہ‘‘ تیار کیا اور اس پوری تحریک کو امریکی سازش اور ملک دشمنی قرار دیا، پی ڈی ایم کے سیٹ۔اَپ کو ’’اِمپورٹڈ حکومت‘‘ کہا، اور ثبوت کے طور پر امریکا سے آنے والے ’’سائفر‘‘ کی ایک نقل عوامی جلسہ میں لہرا دی۔ ہرچندکہ، عمران خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم ہیں، جنھیں عدم اعتماد تحریک کے آئینی راستے سے اس منصب سے الگ کیا گیا لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں کسی بھی وزیراعظم کی اپنی پانچ سال دورانیہ کی آئینی مدت پوری نہ ہونے کی روایت اس بار بھی برقرار رہی۔

معیشت، تباہ حالی کے دہانے پر؟

پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت 2022 میں ہی ’’الیکشن موڈ‘‘ میں آچکی تھی، یہی وجہ ہے کہ عمران خان اپنی معاشی ٹیم تبدیل کرتے ہوئے سابق وزیرِخزانہ شوکت ترین کو بطور وزیرِ خزانہ لے کر آئے۔ نئے وزیرِخزانہ کا ٹاسک ملک کو آئی ایم ایف کے کفایت شعاری اور کم معاشی نمو کے دور سے نکال کر معیشت کو توسیع اور نمو کے راستے پر لے جانا تھا۔ 

اسی دوران، اسٹیبلشمنٹ کی حمایت ختم ہونے اور حزبِ اختلاف کی سیاست کو زور پکڑتا دیکھ کر جب خان حکومت کو لگا کہ ان کے لیے حکومت میں رہنا اب ناممکن ہوگا تو انھوں نے بجلی کی ٹیرف اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑی کمی کا اعلان کردیا، جس کا مقصد عوام میں اپنی نیک نامی بڑھانا اور آنے والی حکومت کے لیے معاشی مسائل کا انبار چھوڑ کر جانا تھا۔

بدقسمتی سے پاکستان کی ہر سیاسی حکومت نے، ملکی معیشت کی بدحالی کی قیمت پر اپنی سیاست چمکائی ہے۔ بالکل یہی کام 2018میں مسلم لیگ ن نے بھی غیرحقیقت پسندانہ بجٹ پیش کرکے کیا تھا جب انھیں معلوم ہوچکا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ آئندہ انتخابات کے ذریعے انھیں حکومت سے باہر کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔

شہباز شریف حکومت کو روزِ اول سے ہی خان کی جارحانہ سیاست کا سامنا ہے ۔ اس دوران، ایک طرف جہاں عوام کا ایک بڑا طبقہ خان کی مؤثر اور جارحانہ سیاسی اور ابلاغی حکمتِ عملی سے غیراختیاری متاثر نظر آیا تو دوسری جانب، خان حکومت کی غلط پالیسیوں کا سارا ملبہ آنے والی پی ڈی ایم حکومت پر منتقل ہوگیا۔ آئی ایم ایف پروگرام بحال کرانے کے لیے پی ڈی ایم حکومت کو ڈالر سے لے کر توانائی کے نرخ تک، سب کی قیمتیں بڑھانا پڑیں، جس کے باعث عوام کو کمرتوڑ مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا۔ ساتھ ہی کئی معاشی معاملات پر حکومت کی مفلوج حکمتِ عملی نے صورتِ حال کو مزید گمبھیر بنادیا ہے۔

پی ڈی ایم حکومت نے معیشت کو بچانا ہے یا آئندہ عام انتخابات کے لیے عوام میں اپنی سیاسی ساکھ کو؟ یہ ایک ایسا معاملہ ہے، جس کے گرد ہی سارے فیصلے کیے جارہے ہیں یا اہم پالیسی فیصلوں کو مؤخر کیا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف کی اگلی قسط کے اجراء میں تاخیر سے پاکستانی روپے پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور اگر آئندہ جائزہ سے قبل اس کی شرائط پوری نہ کی گئیں تو خدشہ ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام عام انتخابات کے بعد تک مؤخر ہوسکتا ہے۔ تاہم موجودہ نازک معاشی صورتِ حال میں آئی ایم ایف پروگرام مؤخر ہونے کے نقصانات انتہائی شدید ہوسکتے ہیں۔ 

معاشی ماہرین کے مطابق، حکومت نے ڈالر کو فی الحال مصنوعی طور پر موجودہ قیمت پر روکا ہوا ہے اور آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر اگر اسے زیادہ عرصہ اسی سطح پر روکا گیا تو آنے والے مہینوں میں ڈالر کی قدر اچانک بے قابو ہوسکتی ہے، جس کے اثرات سے نمٹنا حکومت کے لیے شاید مشکل ہو۔

ملک میں ڈالر کی قلت جہاں ملک میں ڈالر کی آمد میں کمی کے باعث ہے، وہاں ڈالر کی پاکستان سے افغانستان اسمگلنگ اور اوپن مارکیٹ اور حوالہ/ہنڈی ریٹ میں بڑا فرق بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔

ادائیگیوں کے توازن کو قابلِ برداشت حد میں رکھنا حکومت کے لیے ایک اور بڑا چیلنج ہے۔9دسمبر 2022کے اعدادوشمار کے مطابق، پاکستان کے مجموعی غیرملکی زرمبادلہ ذخائر 12ارب 57کروڑ ڈالر رہ گئے ہیں، جن میں اسٹیٹ بینک کے پاس موجود ذخائر کی مالیت6.7ارب ڈالرہے۔یہ چار سال کے کم ترین ذخائر ہیں۔ مرکزی بینک کے غیرملکی زرمبادلہ ذخائر محض ایک مہینے سے کچھ زائد عرصہ کی درآمدات کے لیے کافی ہیں، جوکہ انتہائی تشویش ناک بات ہے۔ 

حکومت نے انتظامی اقدامات کے ذریعے درآمدات کم کرنے کی کوشش کی ہے، جس کے نتیجے میں نومبر 2022کے لیے رواں کھاتوں کا خسارہ 86فی صد کم ہوکر 27کروڑ 60لاکھ ڈالر ریکارڈ کیا گیا ہے، جوکہ 19 ماہ کی کم ترین سطح ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں رواں کھاتوں کا خسارہ 1.92ارب ڈالر رہا تھا۔ ماہانہ بنیاد پر اکتوبر 2022 کے مقابلے میں رواں کھاتوں کا خسارہ 59فی صد کم رہا۔ مرکزی بینک کے مطابق، رواں مالی سال کے ابتدائی پانچ ماہ (جولائی تا نومبر ) رواں کھاتوں کا خسارہ 50فی صد سے زائد کمی کے بعد 3.1ارب ڈالر رہا جوکہ گزشتہ سال اسی عرصہ میں 7.2ارب ڈالر تھا۔

بلاشبہ، اس وقت پاکستان کے لیے سب سے سنگین چیلنج معاشی بحران پر قابو پانا ہے۔ پی ڈی ایم حکومت اپنے باقی ماندہ عرصہ میں سیاسی اور معاشی کیپٹل میں توازن کس طرح برقرار رکھے گی، آئندہ عام انتخابات میں جانے کے لیے تیاری کرتے وقت اس کے لیے یہی سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔

الزامات اور سیاسی نعروں کی گونج

ملک کے سیاسی منظر نامے پر پی ڈی ایم اتحاد کو جگہ ملتے ہی خان حکومت کے خلاف اس کی اختلافی سیاست میں جان پڑگئی۔ پی ڈی ایم نے ایک بار پھر خان کو ’’سلیکٹڈ‘‘ قرار دیا تو شہباز شریف کے وزیراعظم بنتے ہی پی ٹی آئی نے انھیں ’’کرائم منسٹر‘‘ اور ان کی حکومت کو ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ قرار دیا۔ اپنے ووٹ بینک کو خوش رکھنے کے لیے نامناسب الزامات اورسیاسی نعروں نے اس ملک ِ عزیز اور پارلیمانی سیاست کو نقصان اور عوام میں شدید دوریاں پیدا کردی ہیں۔ کیا 2023میں ہماری پارلیمانی سیاسی جماعتیں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قوم میں دوریاں پیدا کرنے کے بجائے اسے جوڑنے کی کوشش کریں گی؟ ملکی سیاست میں پہلے سے موجود بلند درجہ حرارت اور 2023 انتخابات کا سال ہونے کے باعث، یہ خواہش خام خیالی زیادہ لگتی ہے۔

قبل از وقت انتخابات مسائل کا حل؟

حکومتی حلقوں میں غالباً یہ خیال کیا جارہا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جارحانہ سیاست خود بہ خود ٹھنڈی پڑ جائے گی اور پی ڈی ایم اتحاد بآسانی پارلیمانی مدت پوری کرلے گا۔تاہم، عمران خان کی جارحانہ سیاست کا زور بدستور جاری ہے جس نے کسی حد تک حکومت کو مفلوج بناکر رکھا ہوا ہے۔ مزید برآں، پی ڈی ایم اتحاد، خان کے طاقتور اور عوام کو اپنی طرف کھینچنے والے سیاسی بیانیے کو رد کرنے کے لیے اپنا کوئی مؤثر سیاسی بیانیہ تشکیل دینے میں ابھی تک ناکام نظر آتا ہے۔ 

تاہم پی ڈی ایم اتحاد اور ان کا حامی سیاسی اور عوامی حلقہ یہ کہتا ہے کہ انھوں نے آئینی طریقے سے حکومت حاصل کی ہے اور اگر وہ خان حکومت نہ گِراتے تو وہ ملک اور ریاست کے لیے خطرناک ثابت ہوتی۔ آج کا پاکستان ٹرمپ دور کے امریکا کی یاد دِلاتا ہے، جہاں ڈیموکریٹک اور ری پبلیکن نمائندوں اور حامیوں کے مابین پولرائزیشن اس قدر شدت اختیار کرگئی تھی کہ ایک دھڑے کو دوسرے دھڑے کے دلائل میں ماسوائے جھوٹ کے کچھ نظر نہیں آتا تھا۔

کئی حلقے یہ خیال کرتے ہیں کہ ایسے میں بہتر یہی ہے کہ ملک کو قبل از وقت انتخابات کی طرف لے جایا جائے کیوں کہ نیا مینڈیٹ لے کر آنے والی حکومت ملک کی بہتری کے لیے سخت معاشی اور سیاسی فیصلے کرنے میں بہتر پوزیشن میں ہوگی۔ ہرچندکہ یہ بات سُننے میں مناسب لگتی ہے لیکن حالیہ برسوں میں انتخابی نتائج کو اکثر تسلیم نہ کرنا ایک روایت بنتی جارہی ہے۔

مؤثر انتخابی اصلاحات کے بغیر قبل از وقت عام انتخابات ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام لاپائیں گے؟ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔ اگر ملک کی انتخابی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ماضی میں ہونے والےکئی نئے انتخابات استحکام پیدا کرنے کے بجائے مزید مسائل کا باعث بنے۔ 1970کے انتخابات، ملکی تاریخ کے سب سے غیرجانبدارانہ اور منصفانہ سمجھے جانے کے باوجود ملک کے مشرقی اور مغربی حصوں کے مابین مزید دراڑیں ڈالنے کا باعث بنے ، جب کہ1977کے انتخابات ملکی تاریخ کے طویل ترین مارشل لا کی بنیاد ڈال گئے۔

ایسے میں یہ بات غالباً زیادہ عملی ثابت ہوسکتی ہے کہ ساری پارلیمانی سیاسی جماعتیں بشمول پاکستان تحریکِ انصاف مل کر بیٹھیں اور انتخابات کے سلسلے میں تمام مسائل پر جامع مذاکرات کرکے ان کا قانونی و آئینی حل تلاش کریں تاکہ آئندہ عام انتخابات کے نتائج سب کے لیے قابلِ قبول ہوں، ملک مستقل عدم استحکام و افراتفری کے ماحول سے نکل کر خوشحالی اور استحکام کے راستے پر گامزن ہو، اور آنے والی پارلیمان اور وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری کرکے ملکی تاریخ میں ایک نئی خوشگوار روایت کی بنیاد رکھیں۔ پاکستان پائندہ باد!

پنجاب میں سیاسی میوزیکل چیئر کا کھیل

پنجاب میں سیاسی میوزیکل چیئر کا کھیل ان دنوں عروج پر ہے اور بدقسمتی سے پورے اس وجہ سے پاکستان کی طرح ہمارے ملک کا سب سے بڑا صوبہ بھی مفلوج حالت میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے گمبھیر معاشی حالات کے پیشِ نظر ریاست کے تمام شراکت داروں کو ایک قدم پیچھے ہٹ کر اپنے اپنے کردار اور اپنے اپنے غلط فیصلوں کا جائزہ لینا چاہیے، جن کی بنا پر ملک آج اس حالت تک آپہنچا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے پنجاب اسمبلی توڑنے کی دھمکی کے بعد، گورنر نے وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کی تو حزبِ اختلاف کے اتحاد نے پرویز الٰہی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کروادی۔ 

بروقت اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر گورنر پنجاب نے وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ کو ڈی نوٹیفائی کردیا۔ معاملہ عدالت تک جا پہنچا تو لاہور ہائی کورٹ نے پرویز الٰہی کی حکومت اس شرط پر بحال کرنے کا فیصلہ سُنایا کہ وہ اسمبلی نہ توڑنے کی تحریری یقین دہانی کروائیں گے۔ ہرچندکہ، پرویز الٰہی کی حکومت بحال ہوچکی ہے لیکن قوی امکان ہے کہ پی ٹی آئی ایک بار پھر اسمبلی توڑنے کا آپشن استعمال کرے گی۔ دوسری جانب وفاقی حکومت نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے پرویز الٰہی حکومت بحال کرنے کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔ حالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ نئے سال میں اس بات کا فیصلہ ایک بار پھر عدالت کرے گی کہ پرویز الٰہی اسمبلی توڑ سکیں گے یا نہیں؟

کیا ہماری سیاسی جماعتیں، نئے سال میں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر خالص عوامی مفاد میں فیصلے کریں گی اور عدالتوں میں جانے کے بجائے مذاکرات کہ میز پر بیٹھ کر آگے کی سمت کا تعین کریں گی؟ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اس وقت 60فی صدسے زائد پاکستان (پنجاب اور خیبرپختونخوا) پر حکومت کررہے ہیں۔ 

کیا وہ ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر ان دو صوبوں کے عوام کے مفادات کو بالاتر رکھتے ہوئے ان اسمبلیوں کو باقی ماندہ مدت پوری کرنے دیں گے؟ اور اگر خان پھر بھی اسمبلیاں توڑنے پر بضد رہے تو کیا وفاقی حکومت اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی؟ یہ ہمیں آنے والا وقت اور نیا سال بتائے گا۔

تازہ ترین