لارڈ نذیر احمد کو میں قریب سے نہیں جانتی۔ نہ وہ اتفاق سے کبھی ہماری سابق یونیورسٹی میں آئے لیکن ان کو ایک اہم برٹش مسلم شخصیت کے طور پر میں ایک عام برٹش پاکستانی کی طرح جانتی ہوں۔ میں نے ان کے لیبر پارٹی کے استعفے کی خبر پڑھی تو معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لئے پورا دن ریسرچ کرتی رہی۔ مجھے ہر طرف سے یہی پتہ چلا کہ وہ برطانیہ کے پہلے مسلم لارڈ کی حیثیت سے ہماری کمیونٹی کے ایک ہیرو اور ایک اہم رول ماڈل ہیں لیکن افسوس کہ جب سے وہ لارڈ بنے ہیں انہوں نے ایک ذمہ دار لارڈ کا رویہ اپنانے کے بجائے غیر ضروری تیزی کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا۔ وہ لاتعداد تنظیموں کے سرپرست ہیں۔ اس کے علاوہ اپنی کمیونٹی کا جو بھی ان کے پاس اپنا کوئی مسئلہ لے کر پہنچ جائے وہ صدق دل سے اس کی بھرپور مدد کرتے ہیں یا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی بات ہے جس سے وہ اپنی کمیونٹی کے اصلی ہیرو ثابت ہوتے ہیں اور ان کی اسی عادت سے فائدہ اٹھا کر ہماری کمیونٹی کے شاطروں کی اکثریت ان کو مولا جٹ بھی بناتی رہتی ہے جس سے کسی اور کو نہیں ہماری کمیونٹی کے اس ہیرو کو ہی خود نقصان پہنچتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میرپور کے مولا جٹ اور ہاؤس آف لارڈز کے ایک ذمہ دار رکن میں بیلنس قائم رکھنا کس کی ذمہ داری ہے۔
مجھے اپنی ریسرچ کے دوران پتہ چلا کہ لارڈ نذیر احمد کے دشمن بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی اپنی کمیونٹی کے لئے خدمات ایک مثالی درجہ رکھتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ان کے دوست بھی یہ تسلیم کرتے ہیں لارڈ احمد بولتے پہلے ہیں اور سوچتے بعدمیں ہیں۔ اسی لئے وہ اکثر اوقات کسی نہ کسی مصیبت میں الجھے نظر آتے ہیں اور اکثر اوقات اپنے بیانات کی تردید کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ کچھ ہی عرصہ قبل وہ امریکی صدر کے سر کی قیمت مقرر کرنے کے مبینہ بیان کی مصیبت میں گھرے ہوئے تھے اس موقع پر بھی لیبر پارٹی نے ان کی ممبر شپ کو معطل کر دیا تھا۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا اور اب پھر وہ اپنے ایک مبینہ انٹرویو کے الزام میں معطل کر دیئے گئے تھے۔ ابھی لیبر پارٹی میں اس بات کی انکوائری جارہی تھی کہ انہوں نے پارٹی کے سامنے پیش ہونے کے بجائے لیبر پارٹی کی رکنیت سے استعفیٰ دیدیا۔ یہ وہی لیبر پارٹی ہے جس نے برطانوی مسلمانوں کو پہلا لارڈ دے کر مسلمانوں کے لئے پارلیمنٹ اور ہاؤس آف لارڈز کے دروازے کھولے اور ایک گمنام علاقے سے ایک مسلم نوجوان کو اٹھا کر ہاؤس آف لارڈ میں بٹھا دیا۔ کچھ لوگ الزام لگاتے ہیں کہ اس نوجوان نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میچور ہونے کی بجائے لیبر پارٹی میں مخاصمت شروع کر دی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے لیبر پارٹی کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کا کبھی کوئی موقع ضائع نہیں کیا مگر لیبر پارٹی اسے ایک جمہوری عمل گردانتے ہوئے معاف کرتی رہی۔ ان کی عادت کو جمہوری عمل کا حصہ سمجھتے ہوئے کبھی کسی نے ان کی گرفت کی کوشش نہیں کی۔ شاید اسی لئے وہ مبینہ طور پر بغیر سوچے بیان دینے کے معاملے میں اور تیز ہوتے گئے۔ مجھے میرے ایک انکل نے بتایا ہے کہ جب موٹروے پر دوران ڈرائیونگ ٹیکسٹ مسیج بھیجنے کے جرم میں ان کو سزا ہوئی اور وہ تقریباً ڈیڑھ ہفتہ رعایتی قید کاٹ کر واپس آئے تو انہوں نے اور ان کے حمایتیوں یا نادان دوستوں نے بالکل اسی طرح جشن منعقد کئے جیسے کوئی اولمپک جیت کر آیا ہو۔ ان کے ایک ایسے عمل میں جس کے دوران ایک نوجوان بھی ہلاک ہو گیا۔ ان کو چند دن جیل میں رہنا پڑا۔ ہماری کمیونٹی کو اور لارڈ صاحب کو خود یہ سوچنا چاہئے تھا کہ اس سزا اور اس غلطی کی بنا پر انہیں ہیرو بننا چاہئے یا شرمندہ ہونا چاہئے اور دوسروں کو ایسا نہ کرنے کا درس دینا چاہئے۔ سنا ہے کہ ”جشن“ کے سلسلے میں ایک بڑی تقریب لندن میں بھی منعقد کی گئی جس میں تقریباً تین سو لوگوں نے شرکت کی اور تقریباً چالیس لوگوں نے تقاریرکیں۔
لارڈ نذیر احمد نے ٹیکسٹ مسیج بھیجنے کا جو جرم کیا تھا وہ سمجھ میں آنے والی ایک انسانی غلطی تھی۔ وہ کرپشن یا مکان کے کرایوں جیسا کوئی فراڈ کا کیس نہیں تھا جو ان کی شخصیت کے عظیم امیج کو تباہ کر دیتا۔ ان کی عقلمندی اور عظمت اسی میں تھی کہ وہ اپنے ”حامیوں‘ کو جشن منانے سے منع کرتے اور کھلے دل سے اپنی غلطی اور سزا کو قبول کرتے ہوئے دوسروں کو بھی ایسا نہ کرنے کا درس دیتے۔ لارڈ نذیر احمد نے جس طرح کا رویہ اس وقت اپنایا، خطرہ ہے کہ کہیں اب وہ وہی رویہ لیبر پارٹی کے استعفے کے سلسلے میں نہ اپنا لیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ بے قصور ہوں لیکن بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ بے قصور ہیں تو لیبر پارٹی کی انکوائری کا سامنا کرنے میں کیا حرج تھا۔ یہ بھی خطرہ ہے کہ پرانے جشن کی طرح ان کے حمایتی ان کو دوبارہ ”ہیرو“ بنانے کے چکر میں لیبر پارٹی کے خلاف کمپین شروع کر کے اپنی کمیونٹی کا امیج خراب کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان کا استعفیٰ ہم سب کے لئے افسوس اور دکھ کی بات ہے اور ہماری ساری ہمدردیاں بھی لارڈ احمد کے ساتھ ہی ہیں مگر اس کے ساتھ ایک ذمہ دار کمیونٹی ہونے کا ثبوت بھی ہمیں دینا ہے۔ اس واقعہ سے ہمارے ان دوسرے پارلیمنٹرین کو بھی سبق حاصل کرنا چاہئے جو برطانوی پارلیمنٹ میں بیٹھ کر یہاں کی ایتھنک کمیونٹیز کی خدمت کرنے کے بجائے فیصل آباد، لاہور اور میرپور کی سیاست کر رہے ہیں۔