• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ )

لاہور کے سب سے خوبصورت تین سینما اوریگا، الفلاح اور الحمراء ہوتے تھے، آج ان میں سے دو سینمائوں کا کوئی نام و نشان نہیں۔ اوریگا میں لاہور کی ایلیٹ کلاس جایا کرتی تھی۔ یہ سینما معروف سرجن ڈاکٹر ایاز محمود کی فیملی کا تھا۔ الحمرا سینما لاہور کا پہلا سینما ہائوس تھا جس کی دو گیلریاں تھیں اور بچے دوسری گیلری جو کہ کافی اونچی تھی اس پر بیٹھنے کے لئے ضد کیا کرتے تھے۔ لاہور کے تمام اچھے سینما گھروں میں خوشبو آیا کرتی تھی۔ اب تو اتنی بو ہوتی ہے کہ کیا بیان کریں۔ ٹوٹی ہوئی کرسیاں اور عجیب گندا ماحول۔ الفلاح سینما بڑا خوبصورت ہوتا تھا۔ گلابی رنگ کے پردے اور دیواروں پر گلابی رنگ کا چمکدار فیلورٹ کا کپڑا ہوتا تھا۔ خوبصورت بکس۔ کیا سینما تھا۔ اب تو وہ اسٹیج ڈراموں کے لئے مخصوص ہو گیا ہے۔ بکس میں فیملیز بیٹھا کرتی تھیں اوریگا سینما کی آئوٹ لک بڑی خوبصورت تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ آپ کسی باہر کے ملک کے سینما گھر میں آ گئے ہیں۔ کار پارکنگ میں بہت خوبصورت چوکور فوارہ تھا جس کا پانی کافی اونچا جاتا تھا۔ ہر سینما گھر کے باہر لکڑی کی چوڑی تختیوںپر پانی گرتا تھا۔ یعنی اے سی کی ٹھنڈی ہوا پانی سے گزر کر آیا کرتی تھی۔ اور ٹھنڈ بھی بڑی زبردست۔ لاہور کا ریگل سینما سب سے بڑا تھا جس میں ایک ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ یہ واحد سینما تھا جس میں گیلری نہیں تھی۔ رتن سینما کے بیسمنٹ میں بلیئرڈ کی ٹیبل ہوا کرتی تھی۔ پلازہ سینما کےبیسمنٹ میں ٹیلر ماسٹر کی دکان ہوتی تھی۔ صرف اوڈین سینما ہی اپنی اصل صورت میں آج بھی قائم ہے۔ اس دور میں غریب لوگ بارہ آنے کی ٹکٹ خرید کر بالکل ا سکرین کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے اور وہی ہر سین پر شور مچایا کرتے تھے۔ یہ کوئی آج سے چالیس پچاس برس قبل کی بات ہے، لاہور کینٹ میں دو سینما گھر تھے۔ ایک کا نام گلوب اور دوسرا پاک فورسز، گلوب سینما لاہور کینٹ میں مین روڈ پر تھا۔ فوجیوں کے لئے ٹکٹ آدھاہوتا تھا۔ اس سینما کو گرانے کے بعد یہاںمال آف لاہور بنا دیا گیا۔ دوسرا سینما ابھی قائم ہے۔ یہ دونوں سینما قیام پاکستان کے زمانے سے قائم تھے۔

الحمرا اور ریکس سینما بوہڑ والا چوک کے قریب تھے۔ بوہڑ والا چوک کی تاریخ بھی بڑی دلچسپ ہے۔ لاہور ریلوے اسٹیشن اور ریلوے افسروں کی کوٹھیوں کے قریب یہ چوک واقع ہے۔ یہاں ایک بوہڑ کا پرانا بڑا سا درخت تھا۔ ہم نے جس زمانے میںیہ درخت دیکھا تھا اُس زمانے میں یہ ہرا بھرا درخت تھا۔ اس کی چھائوں میں لوگ بیٹھتے تھے بلکہ ہمیں یاد ہے کہ ایک موچی بھی یہاں بیٹھا کرتا تھا اور مختلف ریڑھیوں والے بھی اس کی چھائوں میں کھانے پینے کا سامان فروخت کیا کرتے تھے۔ اس درخت کی وجہ سے اس چوک کا نام بوہڑ والا پڑ گیا۔ آہستہ آہستہ یہ درخت ختم ہو گیا۔ لوگوں نے اس کی شاخوں کو توڑنا شروع کر دیا اور یہی تاریخی درخت جو کم از کم ڈیڑھ دو سو برس پرانا تھا، زمانے کی نذر ہو گیا۔ اگر یہی درخت گوروں کے دیس میں ہوتا تو وہ اس کو محفوظ کر لیتے۔ تجاوزات نے اس وسیع چوک کی خوبصورتی ختم کر دی۔ یہ سارا علاقہ ہی اب برباد ہو گیا ہے۔ لاہور کی مال روڈ اور بعض تعلیمی اداروں مثلاً ایچی سن کالج (چیف کالج)، کوئین میری کالج، کنیئرڈ کالج، لاہور کالج (اب یونیورسٹی)، گورنمنٹ کالج (اب یونیورسٹی)، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، ویٹرنری یونیورسٹی (گھوڑا اسپتال)، گورنر ہائوس، لارنس گارڈن، مقبرہ جہانگیر، مقبرہ آصف جاہ اور مقبرہ نور جہاں آج بھی کئی ایسے درخت ہیں جن کی عمریں دو سو برس سے بھی زیادہ ہیں۔ کبھی نور جہاں کے مقبرے پر دور سے کھجور کے درخت کثیر تعداد میں نظر آتے تھے جو ہم نے بھی دیکھے تھے، اگر ان تاریخی درختوں کی حفاظت نہ کی گئی تو ایک دن یہ سب درخت ختم ہو جائیں گے۔ پہلے ہی سندر داس روڈ جس کو ٹھنڈی سڑک کہا جاتا تھا، اس کے سارے قدیم درخت کاٹ کر اسے گرم سڑک بنایا چکا ہے۔ اس سڑک پر درختوں کی اتنی چھائوں ہوتی تھی کہ سورج نظر نہیں آتا تھا۔ لارنس گارڈن میں چند ایک تاریخی درخت ضرور ہیں مگر آج کل ایک سرکاری محکمے کے ملازمین نے لارنس گارڈن کو تباہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ اس تاریخی باغ کی سڑکیں جو پیدل چلنے والوں کے لئے بنائی گئی ہیں آج وہاں موٹر سائیکلیں اور موٹر کاریں چل رہی ہیں اور وہ دن دور نہیں جب یہ تاریخی باغ بھی اجڑ جائے گا۔ کبھی لارنس گارڈن کے لارنس ہال اور منٹگمری ہال میں جمخانہ کلب ہوا کرتا تھا۔ ان دونوں ہالز کے لکڑی کے فرش دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی چھتیں بہت خوبصورت ہیں۔ آج کل اس تاریخی جگہ پر قائداعظم لائبریری ہے، لارنس گارڈن میں کاسمو پولیٹن کلب اور لیڈیز کلب بھی ہے۔ لارنس گارڈن کے اندر ہی ایک خاص حصہ جناح گارڈن کہلاتا تھا جہاں کبھی قائداعظمؒ اور محترمہ فاطمہ جناح بھی آئے تھے۔ ویسے اب لارنس گارڈن کو باغ جناح بھی کہا جاتا ہے۔ لارنس گارڈن میں شہد کے چھتے بہت ہیں مگر یہ پتا نہیں اس شہد کو کون لے جاتا ہے؟ لاہور میں کبھی جو باغات ہوا کرتے تھے ان کےاب صرف نام ہی رہ گئے ہیں۔ باغ مقامی لوگوں اور حکومت کی غفلت کی وجہ سے تباہ و برباد ہو گئے یا بہت سے باغ اب صرف نام کے رہ گئے ہیں۔

باغ نولکھا، باغ دل افروز، نیلا گنبد میں حضرت شیخ عبدالرزاق مکی کے مزار کے ساتھ بہت بڑا باغ تھا۔ آج اس باغ کا نام و نشان نہیں، وہاں سائیکلوں کی مارکیٹ اور دیگر دکانیں بن چکی ہیں۔ کڑی باغ جہاں ایک فرانسیسی جنرل ونتورہ اپنی بیٹی کے ساتھ دفن ہے۔ اب اس باغ کا بھی کوئی نام و نشان نہیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین