• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اپنی ذہانت اور متانت کی وجہ سے اس پسماندہ سماج میں انتہائی غیرموزوں شخصیت تھے۔

ان جیسا ذہین اور مقبول شخص امریکہ اور اشرافیہ کے لئے ناقابلِ قبول تھا لیکن وہ مصلحت اختیار کرکے ان کی آنکھ کا تارا رہ سکتے تھے مگر ان کی بات بات پر اڑ جانے اور من مانی کرنے کی عادت ان کی زندگی کے لئے خطرہ بن گئی

ذوالفقار علی بھٹو کا دور میں نے بہت قریب سے دیکھا تھا جس وقت راقم پاکستان مسلم لیگ قیوم کا اہم عہدیدار تھا تو بھی بھٹو بہت شفقت کرتے تھے لیکن جب میں ان کے اصرار پر ان کی پارٹی میں چلا آیا تو پھر مجھے ان کے قریب رہ کر ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔

آزمائش کی اس گھڑی میں ان کے کئی قریبی رفقا ان کا ساتھ چھوڑ گئے، اس تحریر میں ان کی زندگی سے جڑے کچھ واقعات پیش خدمات ہے، 11جنوری1973ءکو میں ذوالفقار علی بھٹو سے ایوان صدرکراچی ’’70کلفٹن‘‘ ملنے گیا۔

انہی دنوں خان عبدالغفار خان 8سالہ خودساختہ جلاوطنی ختم کرکے کابل سے پشاور پہنچے تھے اور انہوں نے جناح پارک پشاور میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ میں پاکستان ٹوٹنے کے بعد صدر ذوالفقار علی بھٹو کے لئے بھارت، افغانستان، بنگلہ دیش، پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان کے درمیان امن مشن لے کر آیا ہوں۔

اس بیان کے پس منظر میں ایک عالمی سازش کار فرما تھی۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان اب ٹوٹ چکا ہے اور پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان خودمختیار ریاستیں ہیں۔

13جنوری 1973 کو نشتر پارک کے جلسے میں بھٹو نے جواب میں کہا کہ تم مجھے بےوقوف بناتے ہو، امن مشن پاکستان کے چاروں خودمختیار ریاستوں میں تقسیم کرنے کا فارمولا ہے جسے میں مسترد کرتا ہوں۔

میں نے1976ء میں ان کی جماعت میں شمولیت اختیار کی، بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں کئی بڑی کامیابیاں حاصل کی تھیں، وہ ذہین اور عوامی رہنما ہونے کے باوجود جب سے برسر اقتدار آئے تھے تو بڑے شکی مزاج ہو گئے تھے اور اپنی سیاسی بصیرت اور اپنے سیاسی ذرائع پر انحصار پر اکتفا کرنے کی بجائے اپنے کچھ ساتھیوں، خفیہ ذرائع کی اطلاعات پر بھروسہ کرنے لگے تھے جو دراصل کسی اور کے ایجنڈے پر ہوتی تھیں۔

وہ اپنی مقبولیت اور انقلابی اقدامات کی وجہ سے بہت زیادہ پرامید تھے کہ آئندہ انتخابات میں وہ اور ان کی پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگی۔ اعتماد کی بنیاد پر انہوں نے قبل ازوقت انتخابات کا اعلان کردیا۔ یہ وہ انتخابات تھے جو بالآخر ان کے اقتدار، زندگی کے خاتمے کا باعث اور پاکستان پیپلزپارٹی کے لئے مشکلات کا پیغام بن گئے۔

بھٹو کی خود اعتمادی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اعلان کردیا کہ مارچ 1977میں نئے انتخابات ہوں گے۔ اس عہدساز شخصیت کے خلاف اندر ہی اندر کھچڑی پک رہی تھی، جو انتخابات کے ہوتے ہی منظر عام پر آگئی، جن خدشات کی امید تھی وہ حقیقت بن گئے۔

انتخابات کے اعلان کیساتھ ہی بھٹو مخالف جماعتیں میدان عمل میں کود پڑیں، پاکستان قومی اتحاد کے نام سے ایک انتخابی اتحاد قائم کرلیا جسے نوستاروں کا نام دیا گیا، سازشی عناصر نے بعض نشستوں پر دھاندلی کے ڈرامے رچاکر ان کے خلاف ماحول گرما دیا، نوستاروں کی تحریک شدت اختیار کرتی چلی گئی۔

حکومت اور پاکستان قومی اتحاد میں جب مذاکرات بامِ عروج پر پہنچے تو اچانک ایک روز بھٹو خلیج کے دورے پر نکل گئے۔ جب بھٹو خلیج کے دورہ پر روانہ ہورہے تھے تو اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیاء الحق معنی خیز نظروں سے انہیں جہاز میں سوار ہوتا دیکھ رہے تھے۔

4 اور 5جولائی 1977ء کی رات ملک میں مارشل لانافذ کردیا گیا آئین معطل کردیا گیا اور جمہوری حکومت کی بساط لپیٹ دی گئی۔

وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کرکے مری کے ریسٹ ہاؤس پہنچا دیا گیا، جنرل ضیاء الحق نے ائرمارشل نورخان کے توسط سے بھٹو سے رابطہ کیا اور انہیں جنرل ضیاء الحق سے ملاقات پر آمادہ کیا۔ پھر یہ ملاقات مری کے ریسٹ ہاؤس میں ہوئی جہاں وہ زیرحراست تھے۔

اطلاعات تھیں کہ یہ ملاقات کافی تلخ ماحول میں ہوئی۔ اقتدار سے معزولی، گرفتاری اور پھر رہائی کے بعد بھٹو کو مشورہ دیا گیا کہ وہ محاذ آرائی کی سیاست، عوامی طاقت کے مظاہرے سے گریز کریں، وہ ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ بے خوف بھی تھے۔

ان کی یہی خصوصیت ان کی زندگی کے لیے عظیم خطرہ بن گئی، کچھ دن بعد بھٹو بیرون ملک سفر کیلئے ذہن سازی کر چکے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے کان بھر کے بھٹو کی بیرون ملک روانگی میں رخنے ڈال دیے، جس پر بھٹو پنڈی جانے کے بجائے لاہور چلے گئے

ایئرپورٹ پر مولاناشاہ احمد نورانی اور مولانا عبدالستارخان نیازی کے ساتھ بعض جیالوں نے بدسلوکی کی، اس واقعہ کے بعد جنرل ضیاء الحق اور بھٹو کے مابین بات چیت ہوئی۔

ضیاء الحق نے کہا کہ آپ نے کیا کیا؟ تو بھٹو نے کہا کہ میں نے جو کیا وہ ٹھیک کیا، اپنے آخری دور میں وہ خود غرض اور دوہری وفاداریاں رکھنے والے لوگوں میں گھرگئے تھے جو چاپلوسی کرکے انہیں ہر وقت گمراہ کرتے رہتے تھے۔ بھٹو جیسی عظیم شخصیت کی زندگی اور سیاسی مستقبل کو انجام تک پہنچانے میں انہی لوگوں کا ہاتھ تھا۔

تازہ ترین