• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصائب و مشکلات اور وبائی امراض میں توبہ و استغفار اور رُجوع الیٰ اللہ کی ضرورت و اہمیت

مولانا نعمان نعیم

(مہتمم جامعہ بنوریہ عالمیہ)

قرآنِ کریم میں ارشادِ ربّانی ہے:’’ آپ مغفرت طلب کیجیے اپنے لیے اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے ‘‘۔( سورۂ محمد: ۱۹)نیز فرمایا:’’ اللہ سے مغفرت طلب کیجیے، بے شک اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے ۔‘‘( سورۃ الانساء :۱۰۶)اور فرمایا:’’ اپنے رب کی خوبیوں کے ساتھ اس کی پاکیزگی بیان کیجیے اور اس سے بخشش طلب کریں، وہ خوب توبہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘ (سورۃ النصر:۳) نیز فرمایا:’’ متقی لوگوں کے لیے ان کے رب کے پاس باغات ہیں ۔‘‘ اور فرمایا:’’ جو شخص کسی برائی کا ارتکاب کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے پھر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کو بہت بخشنے والا، نہایت مہربان پائے گا ۔‘‘( سورۃالنساء:۱۱۰)نیز فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ آپ کی موجودگی میں انہیں عذاب دینے والا نہیں ہے اور ( اسی طرح) اللہ تعالیٰ انہیں عذاب نہیں دے گا جب کہ وہ بخشش مانگتے ہوں ۔‘‘( سورۃالأنفال :۳۳) اور فرمایا:’’ اور وہ لوگ جب کسی برائی کا ارتکاب کر لیتے ہیں یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تواللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں اور وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا کوئی گناہوں کا معاف کرنے والا نہیں وہ اپنے کیے ( یعنی گناہ ) پر جانتے بوجھتے اصرار نہیں کرتے ۔‘‘( سورۂ آل عمران :۱۳۵)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ میں دن میں سو مرتبہ اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں ۔‘‘( صحیح مسلم ) حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فر ماتے ہوئے سنا:’’ اللہ کی قسم ! میں دن میں ستر بار سے زائد اللہ سے مغفرت طلب کرتا اور توبہ کرتاہوں ۔‘‘( صحیح بخاری)

حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ ایسے لوگ لے آئے گا جو گناہ کریں گے اور اللہ سے مغفرت طلب کریں گے ٗ پس وہ انہیں معاف فرما دے گا ۔‘‘(صحیح مسلم)

حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کو ایک مجلس میں سو مرتبہ یہ کہتے ہو ئے گن لیتے تھے :’’ اے میرے رب ! مجھے بخش دے َ مجھے پر رجوع فرما، بے شک تو نہایت رحم کرنے والا ہے ۔‘‘( ابو ددئود ۔ ترمذی )

حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جو شخص استغفار کی پابندی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے کا را ستہ بنا دیتا ہے ٗ ہر غم سے نجات دے دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمایاہے ،جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا ۔‘‘(سنن ابو دائود)

حضرت ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جو شخص یہ دعا پڑھے ’’ میں اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں جس کے سوا کوئی مبعود نہیں ٗ وہ زندہ اور قائم رہنے والا ہے اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ٗ تو اس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں خواہ وہ میدان جہاد سے پیٹھ پھیر کر بھاگا ہو۔‘‘ ( ابو دائود ۔ترمذی)

حضرت شداد بن اوسؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:’’ سید الا ستغفار یہ ہے کہ بندہ یوں کہے ’’ اے اللہ !تو میرا رب ہے ٗ تیرے سوا کوئی مبعود نہیں ٗ تو نے ہی مجھے پیدا کیا ہے اور میں تیرا ہوں اور میں اپنی طاقت کے مطابق تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں اور میں اپنے کیے ہوئے عمل کے شر سے تیری پناہ مانگتاہوں ۔ میں ان نعمتوں کا اقرار کرتاہوں جو تو نے مجھ پر کیں اور میں اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرتاہوں ٗ پس تو مجھے معاف کر دے ٗ بے شک تیرے سوا کوئی گناہوں کا معاف کرنے والا نہیں ‘‘ جو شخص یہ کلمات دن کے وقت یقین کے ساتھ کہے اور وہ اسی روز شام ہونے سے پہلے فوت ہو جائے تو وہ جتنی ہے اور جو شخص رات کے وقت یقین کے ساتھ کہے اور وہ صبح ہونے سے پہلے فوت ہو جائے تو وہ جنتی ہے ۔‘‘(صحیح بخاری)

رسولِ اکرم ﷺ کاارشادگرامی ہےکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ، جو بندہ میرا قرب حاصل کرنے کے لیے اور میری اطاعت و فرماں برداری کی راہ میں میری طرف بالشت بھر آگے بڑھتا ہے، میں اُس کی طرف ہاتھ بھر بڑھتا ہوں، اور جو میری طرف ہاتھ بھر آگے بڑھتا ہے، میں گز بھر اُس کی طرف بڑھتا ہوں، اگر میرا بندہ چلتا ہوا میری طرف آئے تو میں دوڑتا ہُوا اُس کی جانب بڑھتا ہوں۔‘‘اسی طرح ارشادِ نبویؐ کے مطابق گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے،گویا اُس نے گناہ کیا ہی نہیں۔ (سنن ابنِ ماجہ)

بیش تر مواقع پر قدرتی آفات ، آسمانی مصائب اور وبائی امراض اللہ کی طرف سے مقررکردہ طرزِ زندگی سے انحراف، سرکشی اور بغاوت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ یہ درحقیقت اللہ کی جانب سے انتباہ اور یاد دہانی ہوتے ہیں کہ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی اور اُس کی نافرمانی چھوڑکر اللہ کے دامنِ رحمت میں پناہ تلاش کی جائے۔’’سُورۂ توبہ‘‘ میں ارشاد ہوتا ہے: ’’کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہم اُنہیں سال میں ایک دو مرتبہ کسی نہ کسی آزمائش میں مبتلا کردیتے ہیں، کیا یہ یاد دہانی بھی انہیں اس بات پر آمادہ نہیں کرتی کہ اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور نصیحت پکڑیں۔‘‘ (سورۃ التوبہ)

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اللہ کے حضور توبہ واستغفار کریں اور اسے راضی کرنے والے اعمال میں لگ جائیں،صدقہ وخیرات کی کثرت کریں،کیوںکہ یہ اللہ رب العزت کو بہت زیادہ پسند ہے اور اس کے ذریعے اس کی ناراضی دور ہوتی ہے۔

ہمیں یہ حکم ہے کہ اللہ کی رحمت سے کسی صورت اورکبھی بھی مایوس نہ ہوں، اُس کے دامنِ رحمت سے وابستہ رہنے، دین پر عمل کرنے، عبرت و نصیحت حاصل کرنے میں ہی عافیت ہے۔ اللہ کی رحمت کا دامن جس قدر وسیع ہے، اُس کے عفو وکرم اور درگزر کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں۔ یہاں تک کہ وہ اپنی رحمت سے مایوس ہوجانے والوں سے بھی ناراضی کا اظہار فرماتا ہے، اس حوالے سے ارشاد ہُوا: ’’اللہ کی رحمت سے صرف گُمراہ ہی مایوس ہوسکتے ہیں۔‘‘ (سُورۃ الحجر)

حدیث میں مختلف گناہوں کو مختلف آفات وپریشانیوں کا سبب بتایا گیا ہے، اس قدر صراحت کے بعد بھی کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ” نافرمانی سببِ پریشانی اور باعثِ عذاب ہے“؟۔

دنیا دارالعمل ہے، مگر کبھی اللہ تعالیٰ اپنی حکمت سے اخروی عذاب کا ایک ادنیٰ سا نمونہ دنیا میں بھی دکھا دیتا ہے، تاکہ انسان نافرمانی سے باز آجائے، جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:ترجمہ: ”اور ہم ضرور ان کو قریب کاچھوٹا عذاب چکھائیں گے بڑے عذاب سے پہلے، تاکہ وہ لوٹ آئیں۔“ (سورۃ السجدہ:۲۱)

پریشانی کی دوسری قسم وہ ہوتی ہےجو اللہ تعالیٰ کا عذاب نہیں ہوتی، بلکہ اس کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے جو رفع درجات یا گناہوں کے مٹنے کا ذریعہ بنتی ہے اور یہ پریشانی اور تکلیف درحقیقت اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہوتی ہے کہ اس چھوٹی سی تکلیف کے سبب اللہ تعالیٰ اپنے کمزور بندے کو آخرت کے بڑے عذاب سے بچالیتا ہے یا رفع درجات کی صورت میں اللہ سے رجوع کرنے کی صورت اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا ہے، یہ مؤمن کا ہتھیار ہے، اور اس سے مصیبتیں دور ہوتی ہیں، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا :صرف دعا ہی ایسی چیز ہے، جس سے تقدیر کا فیصلہ بدلتا ہے۔ (ترمذی ) 

حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ بندہ جب بھی دعا کرتا ہے تو یا تو جو مانگتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے عطا فرما دیتا ہے، یا اسی کے مثل کوئی اور مفید چیز عنایت کرتا ہے، بشرطیکہ وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے ۔(مسند احمد) سب سے اہم بات یہ ہے کہ دعا سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی معیت نصیب ہوتی ہے، اور بندے کو اللہ کا ساتھ مل جائے، اس سے اہم بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: میرا بندہ مجھ سے جو گمان رکھتا ہے، میں اسی کے مطابق اس کے ساتھ عمل کرتا ہوں،اور جب وہ مجھ سے دعا کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ (صحیح مسلم)

دعا کی ایک صورت استغفار ہے، یہ بھی مصیبتوں سے نجات پانے کا ایک غیبی نسخہ ہے، رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: جو استغفار کا اہتمام کرے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے مصیبت سے باہر نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے، ہر فکر سے نجات عطا فرماتا ہے۔(سنن ابو داؤد) اس لئے استغفار کا بھی خصوصی اہتمام کرنا چاہئے۔

تازہ ترین