مریم نواز شریف کی عوام کے بارے میں معلومات میں بظاہر روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
سیاست میں نوواردگی کے دور میں اُن کی تمام تقریروں اور بیانات کو بہت ہی باریک بینی کے ساتھ پرکھا جا رہا ہے۔ وہ کس مسئلہ پر کس زاویہ اور کس نظریہ کے ساتھ روشنی ڈال رہی ہیں، کس لفظ اور کس خیال پہ کتنا زور ڈال رہی ہیں؟
عوامی اسکور بورڈ پر سب کچھ جمع تفریق ہو رہا ہے اور ایک شبیہ روز بروز ذہنوں میں نمایاں ہو رہی ہے۔ نہ صرف مریم بی بی کے چنے ہوئے الفاظ بلکہ وہ کن لوگوں کو لے کر آگے چل رہی ہیں، کیسے اور کس قدر عوام میں گھل مل رہی ہیں، حتیٰ کہ وہ کس شہر میں کس رنگ میں نظر آ رہی ہیں؟
یہ سب اور اس کے علاوہ بہت سے دوسرے چھوٹے بڑے ٹکڑے یہ تصویر مکمل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سیاستدان یا کوئی بھی پروفیشنل سب سے بہتر اس وقت جانچا جا سکتا ہے جب وہ خود اعتمادی کی سب سے اونچی چوٹی پہ کھڑا ہو۔ اس انتظار میں کہ کون ہے، کس کی جرات ہے جو اس کی مہارت یا مقبولیت یا سچائی یا یقینی کامیابی کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کر سکے؟
مریم نواز کی اب تک کی مختصر سیاسی زندگی میں جہاں وہ ایک طرف عمران خان کی حکومت سے اور دوسری جانب، ایک محاذ پہ، اپنے بزرگوں کی روایتوں سے بھی برسر پیکار ہیں، شاید یہ لمحہ پی ڈی ایم کے لاہور میں جلسے کے دوران آیا تھا۔
وہ موقع ضائع ہو گیا، یا کم از کم مریم کی مسلم لیگ کو اپنے گھر میں جس قدر اس ’’سنہری موقع‘‘ سے فائدہ اٹھانا چاہئے تھا، وہ اس قدر فائدہ نہ اٹھا سکی۔ اور پھر یوں ہوا کہ دسمبر کی سرد ہوا نون لیگیوں کے ہوش اڑا لے گئی اور ان کے اپنے بیانات سے لاہور کے جلسے کی ’’ناکامی‘‘ کے بارے میں وہ وہ تاویلیں پیش کی گئیں کہ شہر کے کئی پرانے شرفا بڑے شریفوں بشمول شہباز شریف کے دور کی واپسی کی دہائی دیتے سنے گئے۔
کچھ نے تو صاف فیصلہ دے دیا کہ نہیں بھائی ہمیں یہ ایجاد قبول نہیں، ہمارے لئے حمزہ شہباز ہی کافی ہے، کہ جتنا نواز شریف ہمیں دستیاب ہے، وہ حمزہ کے کردار و گفتار اور ان کی انتظامی صلاحیت میں بدرجہ اُتم موجود ہے۔ شاید یہ مسلم لیگ کے مریم نواز شریف دھڑے کے لئےاچھا ہی ہوا۔
راجندر سنگھ بیدی کے ’’گرم کوٹ‘‘ اور غلام عباس کے ’’اوور کوٹ‘‘ کی طرح مریم کا اوور کانفیڈنس ایک اچھا سبق دے گیا جس کے ثمرات لاہور جلسے کے کوئی تین ہفتہ بعد ظاہر ہورہے ہیں۔
مریم بی بی کے ایک حالیہ بیان کے مطابق پی ڈی ایم اپنے آئندہ بڑے پروگرام، یعنی لانگ مارچ وغیرہ، عوام کی سہولت کو مدِنظر رکھ کر کرے گی۔ یہاں ن لیگی بہت زیادہ تنقید کر سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر یہ کہ مریم بی بی کا اچھے موسموں کے انتظار کے بارے میں اعلان دراصل ان مقتدر طاقتوں کی سرد مہری کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے جن سے فیصلہ کن مکالمہ حکومت مخالف اتحاد کی تحریک کا واحد مقصد ہے اور جنہیں ہمارے وزیراعظم عمران خان روز یہ یاد دلاتے رہتے ہیں کہ وہ کسی بدعنوان عنصر کو این آر او نہیں دیں گے۔
مریم نواز کو بہرحال یہاں یہ تاثر دینے کی ضرورت ہے کہ اُن کے یہ الفاظ اتوار کو بہاولپور میں منعقد کردہ کامیاب جلسے سے کشید کیے گئے اعتماد کا نتیجہ ہیں۔
عوام الناس کو اس بات پہ اطمینان کا اظہار کرنا چاہئے کہ وہ اس بار کے لانگ مارچ سے پہلے محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ اب کی بار انقلاب کی عنان کسی ایسے شخص کے قبضے میں نہیں جو اپنے جھنڈے تلے جمع جنگجوؤں کی جماعت محض ایک نعرہ کی بدولت گورکنوں کے خوفناک جھنڈ میں تبدیل کردے۔
یہ پڑھی لکھی، نئی پیڑھی پہ مشتمل قیادت میں عوام کے حقوق کے لئے لڑنے والوں کا لشکر ہے۔
اِن عوام میں سے اٹھے لیڈروں کو پتا ہے کہ کتنی سردی میں ایک آدمی کتنے قدم چل سکتا ہے؟ اگر ہم بھول نہیں رہے تو حزبِ مخالف کے اصلی اور بڑے لیڈروں کے مطابق عمران خان صاحب کو دسمبر میں، یا زیادہ سے زیادہ جنوری میں چلا جانا چاہئے تھا۔ یعنی اگر اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم فروری میں تبدیلی اور بہارکا متلاشی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ مریم بی بی و بلاول بھٹو دونوں حکومت کی رخصتی کے حوالے سے اپنی ہی طے کردہ تاریخوں سے آگے نکل آئے ہیں مگر اس کے با وجود حکومتی ترجمان شہباز گل کیونکہ چست جملوں کے تعاقب کے بظاہر بےحد عادی ہیں، اِس انقلاب میں کیڑے نکالنے میں حسبِ سابق پیش پیش ہیں۔
گل صاحب کو اعتراض ہے کہ موسم کی وجہ سے انقلاب کی تاریخ کیسے تبدیل کی جا سکتی ہے؟ یعنی اگر لوہا گرم ہے تو بخدا بسم اللہ کیجئے۔ خارجی عوامل جیسے موسم اور کسی قسم کے عارضی عوامل بڑے مقصد کے لئے آپ کی کوششوں میں حائل نہیں ہونے چاہئیں۔
گل صاحب کی شرارت چولستان (یہاں چ پہ زبر نہیں ہے) میں خیمہ زن دشمنوں کے لشکر میں پھوٹ ڈالنے کے لئے کافی سود مند ثابت ہو سکتی تھی مگر بھلا ہو اپنے مولانا فضل الرحمٰن کا وہ ایک کہنہ مشق جرنیل کی طرح اپنی فوج میں موجود ’’جوان‘‘ قیادت کی رہنمائی کے لئے موجود تھے۔
’’ہم کبھی پتے دکھائیں گے، کبھی پتے چھپائیں گے، انہیں جلائیں گے‘‘، یہ تھے مولانا کے الفاظ بہاولپور کے جلسے میں جو گویا پی ڈی ایم کے اندر پیش آئی ہر اونچی نیچی، پھیکی کڑوی، نرم گرم تبدیلی کو تحفظ دے رہے تھے۔
بالشیوک انقلاب کب برپا ہوا؟ اگر اس مستند انقلاب کی صحیح تاریخ یعنی Dateکے مسئلے پر پرانے اور نئے کیلنڈر میں ٹھن سکتی ہے تو پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے؟
انقلاب یقیناً کرکٹ کا کھیل نہیں ہے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ موجودہ جاری شدہ انقلاب کے بانی خود عمران خان کا یومِ پیدائش نومبر سے کھسک کر اکتوبر کی جھولی میں گر جائے۔ تو پھر ہمارے اپنے پلے ہوئے دیسی انقلاب کو ڈھونڈنے والوں کو بھی حق حاصل ہے کہ منادی کرا دیں ،اپنی پسند کی کسی بھی تاریخ کی بطور روز انقلاب۔ اور متعلقہ لوگوں سے گفت و شنید کے بعد جب جی چاہے لے آئیں انقلاب۔