• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رؤف طاہر چلے گئے، عشروں پر محیط تعلق یادِ ماضی بن گیا۔ ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر نے مطلع کیا، سکتہ آ گیا۔ وطنِ عزیز کی نظریاتی سیاست کی تاریخ کو ضبطِ تحریر میں لانے کے وہ تمام ارادے، جو اُن کے ساتھ مل کر بنائے تھے، یاد آنے لگے کہ وہ خود ایک تاریخ بن گئے۔ نظریاتی صحافت کا درخشندہ ستارہ ڈوب ہو گیا۔ اُن سے تعلقِ خاطر اُن کے زمانۂ رپورٹنگ سے قائم ہو گیا تھا جب وہ ہم نوآموز سیاستدانوں کی خبریں بھی شائع کر دیا کرتے تھے اور بعد میں جب وہ کالم نگاری کی طرف آگئے تو راقم پر کالم بھی تحریر کرتے رہے۔ جب میں نے اُنہیں اپنے ساتھ اپنے وفد میں چین چلنے کی دعوت دی تو بہت خوش ہوئے اور اپنے کالم میں مجھے میرِ سفر کا خطاب دے ڈالا۔ کیا محبت بھری شخصیت تھی۔ نائن الیون ہو چکا تھا، مشرف حکومت امریکہ کی اتحادی بن چکی تھی ،قوم کو یہ مژدہ سنایا جا رہا تھا کہ اِس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار موجود نہیں تھا اور اب ہم دہشتگردی کے حالات اور الزامات سے باہر نکل آئیں گے۔ جب کسی حکومت کی خارجہ پالیسی بس یہ ہو کہ تسلیم کے سوا اور کچھ ممکن ہی نہیں تھا تو اِس سے اُس کی ذہنی افلاس کی ترجمانی ہو رہی ہوتی ہے۔ کیا پاکستان امریکہ کی تمام شرائط کو تسلیم کرنے کے بعد دہشت گردی کے معاملے سے نکل پائے گا اُس ملاقات میں عرض کیا تھا کہ جب کوئی درمیانی راستہ اختیار نہ کیا جائے تو مطالبات کی فہرست شیطان کی آنت مانند بڑھتی چلی جاتی ہے اور بدقسمتی سے ہوا بھی ایسا ہی اور مستقل یہی کیفیت طاری ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی کار گزاری سب کے سامنے ہے۔ ‏جب میں یہ الفاظ تحریر کر رہا ہوں تو اِس سے کسی قاری کے ذہن میں یہ سوال اُبھرتا ہے کہ امریکہ کے مقابلے میں پاکستان کیا ڈپلومیسی اختیار کر سکتا تھا؟ اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے اگر ہم قرب و جوار کے ممالک کی خارجہ حکمت عملی کا مطالعہ کریں تو قطر ایک ایسا ملک ہے کہ جس نے اپنے سے زیادہ طاقتور ملک کے سامنے جھکنے کی بجائے ایسی حکمت عملی اختیار کی جس سے معاملات سلجھنے کی جانب گامزن ہو چکے ہیں۔ اُن ممالک کی یہ شدید خواہش تھی کہ قطر ایران سے تعلقات کی گرمجوشی کو سرد مہری میں تبدیل کر دے اور کچھ دیگر معاملات سے بھی کنارہ کش ہو جائے۔ اپنے مطالبات منوانے کی غرض سے قطر سے تعلقات کے خاتمے کا اعلان کیا گیا مگر قطر نے ایسی کسی ڈکٹیشن کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اپنی پوزیشن کو برقرار رکھتے ہوئے خلیج تعاون کونسل کے ممالک سے تعلقات کی بحالی کے لئے کوشاں رہا اور بالآخر اُس میں کامیاب بھی ہو گیا کیونکہ تلخی برقرار رکھنا کسی کے مفاد میں بھی نہیں تھا۔ راقم الحروف نے اِن تعلقات کی بحالی کی پیشگی اطلاع اسی ادارتی صفحے پر دی تھی۔ پاکستان کو اِس سے سبق حاصل کرنا چاہئے لیکن پاکستان اِس سے کیا سبق حاصل کرے گا؟ امیر قطر پاکستان تشریف لائے، قطر کے سابق سفیر مبارک المنصوری نے پاک قطر تعلقات پر بہت کام کر رکھا تھا۔ کچھ معاملات پر دونوں برادر ممالک کے درمیان مفاہمت بھی ہوئی، قطر کے موجودہ سفیر انتہائی کوشش کر رہے ہیں کہ اِس مفاہمت کو عملی شکل دی جا سکے مگر موجودہ حکومت کی جانب سے ٹس سے مس نہ ہونے کا رویہ یہاں بھی سامنے آ رہا ہے۔ اِس ملاقات میں دوسرا موضوع بلوچستان کے حالات تھے، ابھی اکبر بگٹی کا سانحہ نہیں ہوا تھا مگر بلوچستان میں حالات دوبارہ خراب ہونا شروع ہو گئے تھے۔ ہزارہ برادری پر حملوں کا ایک تسلسل شروع ہو گیا تھا۔ رؤف طاہر نے ہی ایک جنرل کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے ہزارہ برادری کے ساتھ شروع ہونے والے بہیمانہ سلوک کا تذکرہ کیا کہ یہ بلوچستان کے حالات میں ایک نئی اندوہناک تبدیلی ہے۔ نواز شریف بھی بہت دل گرفتہ تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ اُنہوں نے اپنے دورِ حکومت میں اِس عفریت کا ریاستی طاقت کے ذریعے پورے ملک میں مقابلہ بھی کیا۔ اِس اندوہناک تبدیلی پر بات کرتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ دہشت گردی ایک ہتھیار کے طور پر طاقتوروں کے ہاتھوں میں موجود رہی ہے کہ وہ اِس کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں۔ ہزارہ برادری کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اِس کو صرف ایک مخصوص رنگ میں دیکھنا درست نہیں ہوگا۔ پرکھنا اِس بات کو ہے کہ اِس قتلِ عام کے پیچھے جو ماسٹرمائنڈ ہے وہ کیا اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے؟ یہ معاملہ صرف ہزارہ برادری تک محدود نہیں رہے گا بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں مزید شدت آتی جائے گی۔ دورانِ گفتگو رؤف طاہر نے کہا تھا کہ یہ ہتھیار ہزارہ برادری کے خلاف نہیں درحقیقت وطن عزیز کے خلاف استعمال ہو رہا ہے جب مچھ میں ہزارہ کے کان کنوں کی شہادت کی خبر کانوں میں پہنچی تو رؤف طاہر کے یہی الفاظ کانوں میں گونج رہے تھے۔

تازہ ترین