• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دھاندلی کے الزامات،دوبارہ گنتی اور نئے سرے سے پولنگ کے مطالبات کے شور شرابے میں میاں نواز شریف امکانی طور پر جون کے پہلے ہفتے میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار تیسری بار وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے جا رہے ہیں۔انتخابات سے قبل انہوں نے خواہش کی اور منتیں مانگیں کہ عوام انہیں اتنی اکثریت دے دیں کہ انہیں حکومت سازی کے لئے بیساکھیوں کی ضرورت نہ پڑے،عوام نے ان کی تمنا پوری کر دی لیکن بیلٹ بکسوں سے تحریک انصاف کے گمنام اور غیر معروف امیدواروں کے نام ہزاروں کی تعداد میں نکلنے والے ووٹوں سے پاکستان مسلم لیگ ن کے قد آور رہنماوٴں کو بہت اچھی طرح باور ہو چکا کہ تحریک انصاف کے ساتھ ابھی صرف میچ ختم ہوا ہے، سیریز نہیں اور سیریز جیتنے کے لئے اب مسلم لیگ ن کے پاس یہ آخری موقع ہے ورنہ خیبر پختونخوا میں مضبوط قدم جمانے والی ٹیم، کپتان کی سربراہی میں جو پیش قدمی جاری رکھنے کا عندیہ دے رہی ہے اس کا آخری پڑاوٴ مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں واقع وسیع و عریض وزیراعظم ہاوٴس ہی ہوگا۔ انگڑائی لیتے اس نئے پاکستان کی دھڑکن مسلم لیگ ن کی قیادت نے بھی بخوبی محسوس کر لی ہے یہی وجہ ہے کہ روایتی حکومت سازی ،وزارتوں کی بندر بانٹ اور عہدوں کی تقسیم پر غور وفکر کے بجائے گیارہ مئی کی رات سے رائے ونڈ میں میاں نواز شریف اور شہباز شریف متعلقہ شعبوں کے ماہرین کے ساتھ سر جوڑ کر مسلسل یہ سفارشات اور حکمت علی تیار کرنے میں مصروف ہیں کہ ملکی معیشت کی ناوٴ کو کیسے بچانا اور پار لگانا ہے۔ ملکی معیشت کا پہیہ چلانے اور اندھیروں کو روشنی میں تبدیل کرنے کے لئے کونسا طریقہ قابل عمل ہوسکتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے ایک قد آور رہنما سے پوچھا کہ کس کو کون سی وزارت کا قلمدان ملنے جا رہا ہے تو انہوں نے کہا کہ وزارتوں کے امیدوار تو اپنی پسند ناپسند کا اظہار کر رہے ہیں لیکن میاں صاحب کے سر پر اس وقت بس یہ جنون سوار ہے کہ وزیراعظم ہاوٴس میں قدم رکھنے سے پہلے ان کے ہاتھ میں آئندہ 100 دنوں کا ٹھوس پروگرام موجود ہو جس کے ذریعے وہ عوام کی توقعات پر پورا اترنے کی امیدوں کو جلا بخش سکیں۔ اسے تحریک انصاف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت، ایک موٴثر تیسری قوت کے طور پر اپنے آپ کو منوانا کہیں یا اس کا دباوٴ، میاں نواز شریف نے ایک مدبر اور نوّے کی دہائی کے مقابلے میں ایک بدلا ہوا سیاست دان ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کی شوکت خانم اسپتال میں نہ صرف تیمارداری کی بلکہ انہیں دعوت بھی دی کہ ملک کو درپیش چینلجز سے مل کر نمٹا جائے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت نے کھلے دل کے ساتھ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا سندھ میں اورتحریک انصاف کا خیبر پختونخوا میں مینڈیٹ نہ صرف تسلیم کیا بلکہ تحریک انصاف کوخیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کا موقع دینے کا اعلان بھی کیا، مرکز اور بلوچستان میں مستقبل کے اتحادی مولانا فضل الرحمن نے ن لیگ کی قیادت کو خیبر پختونخوا میں بھی مل کر حکومت بنانے کے لے ورغلانے کی ہر ممکن کوشش کی، یہاں تک کہ شہباز شریف کے ساتھ ملاقات کے دوران مولانا صاحب نے انہیں مستقبل میں سیاسی نقصانات کے خدشات سے ڈرایا بھی اور یہ بھی کہہ ڈالا کہ اکثریت سے حکومتیں بن تو سکتی ہیں لیکن چلتی صرف سیاسی تدبر سے ہیں لیکن مسلم لیگ ن کی قیادت ان کے ”سیاسی تدبر“ کے فارمولے پر قائل نہ ہوئی جس کی تمام حلقوں میں نہ صرف پذیرائی ہوئی بلکہ اسے جمہورت کی مضبوطی کے لئے بھی نیک شگون قرار دیا گیا۔دوسری طرف ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین پہلے سیاسی رہنما تھے جنہوں نے ن لیگ کی کامیابی پر انہیں مبارکباد پیش کی تاہم مبارکباد کا یہ تحفہ تعصب پر مبنی جن الفاظ کی ریپنگ شیٹ میں لپٹا ہوا تھا اس نے مستقبل میں دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان تعلقات کی سمت کا عندیہ دے دیا لیکن یہاں بھی مسلم لیگ ن کی قیادت نے حقیقی مفاہمت کی پالیسی کو متعارف کرانے کا پیغام دیا اور الطاف حسین کے پاکستان سے متعلق بیان پر ردعمل ظاہر کرنے سے گریز کیا بلکہ اسلام آباد میں شہباز شریف سے جب الطاف بھائی کے بیان کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ کاش وہ یہ بیان نہ دیتے تاہم انہوں نے اس بیان کی تردید کر دی ہے اس لئے قوم کو ان کی تردید کو قبول کر لینا چاہئے۔عوامی نیشنل پارٹی نے بھی تمام تر تحفظات کے باوجود الیکشن کے نتائج کو تسلیم کرنے کا اعلان کر کے سیاسی فہم وفراست کا ثبوت دیا جبکہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر مخدوم امین فہیم نے بھی نتائج کو قبول کرنے میں تامل نہ کیا۔ادھر ایوان صدر سے جاری بیان کو سیاسی حلقوں میں بہت سراہا گیا جس میں صدرآصف علی زرداری نے کامیاب الیکشن کے انعقاد پر پوری قوم کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ جمہوریت،عوام اور نظام کی فتح ہے،قوم نے ووٹ کے ذریعے اپنا فیصلہ سنا دیا اور اسی فیصلے کی روشنی میں ملک میں پہلی بار جمہوری انداز میں پُرامن انتقال اقتدار کا عمل پایہٴ تکمیل کو پہنچے گا۔ صدر زرداری نے چینی وزیراعظم کے اعزاز میں بائیس مئی کو منعقدہ کئے جانے و الے ظہرانے میں میاں نواز شریف اور عمران خان سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو مدعو کر کے بھی بڑے پن کا ثبوت دیا ہے۔ دوسری طرف انتخابات میں کامیابی کے بعد مسلم لیگ ن کی قیادت ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ایک قومی چارٹر کو نہ صرف اپنی ہم خیال جماعتوں بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سمیت اپوزیشن جماعتوں کے سامنے بھی پیش کرنا چاہتی ہے تاکہ ایک مشترکہ اور موٴثر حکمت عملی کے ذریعے ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کیا جا سکے۔ یہ ساری صورتحال واشگاف انداز میں بتا رہی کہ واقعی ایک نیا پاکستان جنم لے چکا ہے جس کا سہرا پاکستان کے عوام،ملکی سلامتی کے اداروں اور سب سے بڑھ کر سیاسی رہنماوٴں کے سر ہے اور اگر سیاسی رہنماوٴں اور قیادت نے اسی جذبے کو قائم رکھا اورایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے بجائے تعمیری تنقید اور قومی امور پر تعاون کی پالیسی اختیار کی تو قوم اس نئے پاکستان کو ایک ترقی یافتہ پاکستان میں تبدیل ہوتے ضرور دیکھے گی۔
تازہ ترین