• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رتی کی تنہائی، اداسی،خاموشی…

رتی اور جناح کی محبّت کی یہ کہانی کب الم ناک موڑ لیتی ہے اور کب بےبسی اوربےکسی کا وہ لمحہ آجاتا ہے، جس میں رتی اور جناح دونوں میں فاصلے پیداہوناشروع ہوجاتےہیں اور محبّت کرنے والے دونوں دل ایک دوسرے سے دُور ہونے لگتے ہیں، کوئی نہ سمجھ سکا۔ محمّد علی جناح کی بے پناہ سیاسی مصروفیات اُنھیں ہر وقت گھیرے رہتی ہیں۔ اُن کے سامنےکروڑوں انسانوں کامستقبل ہے،انگریزحکومت کے ظالمانہ نظام سے نجات کا سوال ہے۔ دو قوموں کے مابین ٹکرائو، تصادم ختم کر کے اُنھیں ایک دوسرے کی بد گمانیوں، غلط فہمیوں اور بد معاملگیوں سے چُھڑوانا اور اُنھیں اخوّت و الفت کی رسیّوں سے باندھ کر ہندوستان کی فضا میں امن و صلح جوئی کی راہ ہم وار کرنی ہے۔ 

ایک طرف اُن کی نجی ازدواجی زندگی تھی، جس میں وہ پناہ لیتے اور اُسے بگڑنے سے بچانے کےلیے اپنے سامنے کےعظیم مقصد کو نظر انداز کردیتے اور رتی جو چاہتی تھیں، وہی کرتے۔ اور وہ کیا چاہتی تھیں کہ بس کسی بھی طرح ماضی لوٹ آئے اور وہ اپنے میاں کے ساتھ دارجلنگ اور نینی تال جیسی رومان پرور فضائوں میں گُھڑسواری کرتی پھریں۔ اپنےمحبوب شاعروں، ڈراما نگاروں کی بابت تبادلۂ خیال کریں۔ ایک دوسرے کو نظمیں سُنائیں اور یہ پوچھیں کہ فلاں شاعر یاڈراما نگار کیا فلاں سے اچھا نہیں۔ آپ کو یہ کیوں اچھا لگتا ہے، اور وہ کیوں پسند نہیں کہ ایسی ہی ہلکی پھلکی خوش گوار باتوں سے زندگی قابلِ برداشت ہی نہیں، دل کش لگنے لگتی ہے۔ 

مگر…محمّدؒعلی جناح کے پاس خوابوں، خیالوں میں رہنےوالی رتی کےلیےاتنا وقت کہاں تھا؟اُن کاذہن توقانونی گتھیوں کو سلجھانے ہی میں الجھا رہتا، سیاسی ناہم واریوں کو ہم وار کرنے ہی میں سارا وقت بیت جاتا، مؤکلوں کے مقدمات الگ تھے، جو ان کی یافت کا واحد ذریعہ تھے۔ انھوں نے ہمیشہ یہی فکر کی کہ سیاست میں اپنےپائوں پرکھڑے رہنا ہے تو اس کے لیے معاشی طور پرمستحکم ہوناضروری ہے۔ سیاسی آزادی اور خود مختاری معاشی استحکام ہی سے مشروط ہے۔ دولت، صرف زندگی کو آسودہ حال نہیں بناتی، اُسے وقار، خودداری اور آزادی سے بھی بہرہ ور کرتی ہے۔ اُنھیں دولت کی طاقت کابخوبی احساس تھا۔ چناں چہ جہاں انھوں نے وقت کی اہمیت کو سمجھا، وہیں دولت کی قدر و قیمت کا احساس کرکےکفایت شعاری کو بھی اپنا شعار بنایا۔

رتی شاعرانہ ذہن رکھنے والی خاتون تھیں۔ اُن کے سامنے اصلاً ایک ہی مقصد تھا کہ زندگی مکمل طور پر اپنی مرضی سے گزاری جائے۔ دولت سے آسائشیں، راحتیں خریدی جائیں۔ اگرچہ جناح خود ایک ایک پائی کاحساب رکھنے،اور سوچ سمجھ کر خرچ کرنے والے انسان تھے، مگر انھوں نے رتی کو کبھی خرچ کرنےسےروکا نہیں، منع نہیں کیا۔ فاطمہ جو شادی سے پہلے جناح کے ساتھ ہی رہنے لگی تھیں، شادی کے بعد جناح نے اُنھیں شیریں بائی کے گھر بھیج دیا تھا کہ اُن کی ازدواجی زندگی الجھنوں سے محفوظ رہے۔ رتی نکاح کے بعد جناح کے گھر آئیں تو اُنھوں نے اُس رہائش گاہ کو اپنا ہی سمجھا، لیکن رفتہ رفتہ یہ گھر اُن کے لیے اجنبی اور ویران ہوتا چلا گیا، کیوں کہ اُنھیں جناح  کی غیر موجودگی، تنہائی باقاعدہ ڈسنے لگی تھی۔ انھوں نےجناح سےمحبت کےبعدانھیں پانے کے لیےبڑی بےباکی اور جرأت سے شادی کی طرف قدم بڑھایا تھا، تو اسی یقین کی بنا پر کہ وہ بقیہ زندگی کا ایک ایک لمحہ اپنے محبوب، اپنے شان دار اور باوقار شوہر کےساتھ ہی گزاریں گی، جن میں خوشیاں ہوں گی، سُکون ہوگا، لطف و انبساط ہوگا۔

لیکن ایسا نہیں ہوا اور نہ ہوسکنے کا اندیشہ پیدا ہوا تو فقط اس لیےکہ رتی کی شادی شدہ زندگی سے جو امیدیں، توقعات وابستہ تھیں، وہ پوری نہ ہو سکیں۔ چناں چہ جب جناح گھر پر نہیں ہوتے تھے یا کسی سیاسی سرگرمی کے سبب انھیں دوسرے شہرجانا پڑتا تھا، تو وہ سروجنی نائیڈو کے پاس تاج محل ہوٹل چلی جاتیں، جہاں مسز نائیڈو مقیم تھیں۔ مسز نائیڈو ایک معروف خاتون تھیں اور خاصی مصروف بھی۔ اُن کے پاس بھی اتنا وقت نہیں ہوتا تھا کہ وہ رتی کی تنہائی دُور کرنے کا موثر ذریعہ بن سکیں۔ لیکن اُن کا جناح  اور رتی سےجو تعلقِ خاطر تھا، اُس کے احترام اور محبت و شفقت میں وہ رتی کو بہت وقت دیتی تھیں۔ 

اُن کےدل کی باتیں اُن سے سُنتی تھیں اور انھیں مطمئن کرنےکے لیےاپنی بھی سناتی تھیں۔ لیکن رتی نےجب اسے معمول ہی بنالیا تو انھیں پریشانی لاحق ہوگئی۔ ’’رتی آتی ہیں اور میرے سارے وقت پہ قابض ہوجاتی ہیں۔‘‘ انھوں نے اپنی بیٹی پدماجا سے شکایت کی۔اس ایک شکوےسےبظاہر سروجنی کی اُس محبّت میں کوئی کمی محسوس نہیں ہوتی، جو وہ رتی کے لیے اپنے دل میں رکھتی تھیں۔ حقیقتاً وہ پریشان ہو رہی تھیں کہ رتی کیوں ہر روز بھاگ بھاگ کے اُن کے پاس آجاتی ہیں، اور دیر تک بیٹھی رہتی ہیں۔ اُنھیں اگرتنہائی ڈستی ہے، تو اس کا تریاق یہی ہے کہ وہ کسی ایسی شخصیت کو ڈھونڈیں، جس کے پاس جاکر، جس سے مل کے اُن کا احساس تنہائی دُور ہوجائے۔

پھر یہ ہوا کہ رتی نے تاج محل ہوٹل ہی کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنالیا۔ گھر بےسکون ہوجائے، اذّیت دینے لگے اور ہوٹل میں رہ کر زندگی قابلِ برداشت لگتی ہو تو پھر وہاں رہنے میں بھی کیا مضائقہ ہے۔ وہ جناح کی مصروفیات، گہماگہمی اور ہنگامہ پرور زندگی سے ابھی بےزار نہیں ہوئی تھیں۔ ابھی تو اُنھیں صرف اپنے اکیلے پن کا احساس مٹانا تھا۔ جناح بھی مُعترض نہیں ہوئے کہ اُنھیں پتا تھا کہ رتی کیا چاہتی ہیں۔ لیکن رتی جو چاہتی تھیں، وہ  پورا کرنا ان کے بس سے باہر تھا۔ رتی نے جناح کی سیاسی زندگی میں بھی اُن کے ساتھ قدم بہ قدم چل کر ساتھ نبھانا چاہا، لیکن جلد ہی اُن کا جی ان سرگرمیوں سےاُوب ساگیا۔سیاست اُن کے نزدیک بس اتنی ہی اہم تھی، جیسےایک عمدہ کھانے میں سلاد یا اچار کی اہمیت ہوتی ہے لیکن سلاد اور اچار کو کھانا سمجھ کر کوئی اس سے پیٹ بھرنا نہیں چاہتا۔

تمام وقت سیاسی بکھیڑوں میں الجھے رہنا اُنھیں پسند نہ تھا اور نہ وہ اس کی متحمّل ہوسکتی تھیں۔ جناح بھی محسوس کر رہے تھے کہ رتی کا سیاست میں ان کے ساتھ رہنا الجھنوں کا باعث ہے۔ اگر وہ اُن کا ساتھ اُسی طرح دیتیں، جیسا بعد میں فاطمہ نے دیا تو کوئی الجھن پیدا نہ ہوتی۔ فاطمہ بھی جناح کے ساتھ ساتھ رہیں لیکن کہیں بھی، کسی ایک موقعے پر بھی اُن کے وجود کی موجودگی کا احساس نہیں ہوتا۔ کوئی ایک واقعہ بھی جناح کے سوانح نگاروں نے ایسا نقل نہیں کیا، جس سے پتا چلتا ہو کہ فاطمہ نے فلاں موقعے پر ایسا کیا، یا ایسا کہا۔ اس کے برعکس رتی جب بھی جناح کے ساتھ کہیں گئیں، کسی بھی محفل میں شرکت کی، خواہ لارڈ ولنگٹن کی دعوت ہو، وائسرائے لارڈ چیمسفورڈ یا لارڈ ریڈنگ کے عشایئے یا ظہرانے کے مواقع ہوں، کچھ نہ کچھ ایساکیا اور کہا، جو تاریخ کاحصّہ بن گیا۔ جناح کو اس طرزِ عمل کی شکایت نہیں تھی اور نہ انھوں نے رتی کو اس سے کبھی روکا۔ لیکن یہ سوال ضرور اُبھرتا ہے کہ رتی ان واقعات کے بعد پھر کبھی کیوں جناح کے ساتھ کسی سیاسی تقریب یا سیاسی محفل میں نظر نہیں آتیں؟ 

وہ پھر کیوں اپنے گھر، سائوتھ کورٹ تک محدود ہوکر رہ گئیں۔ کیا اُن کا جی نہیں چاہتا تھا محمّد علی جناح کے ساتھ جانے کو یا وہ خود ہی اُنھیں ساتھ نہیں لے جاتے تھے۔ یہ سوال یقیناً تحقیق طلب ہے۔ رہا معاملہ بعد میں فاطمہ کا، تو یہ بھی تو ممکن ہے کہ فاطمہ کو بھی جناح نے اس کاموقع ہی نہ دیاہو کہ وہ ایسے کسی عشایئے، ظہرانے، دعوتوں اور جلسے جلوسوں میں شرکت کریں، جہاں اُن کی ضرورت نہ ہو۔ عملی سطح پر آکرسوچیں تواندازہ ہوتاہےکہ شوہر جب کہیں کسی بھی تقریب میں بیوی کے ساتھ جاتا ہے تو وہ بیوی کے ساتھ خود کو بندھا ہوا محسوس کرتا ہے۔ 

وہ آزادی جو ایسے مواقع پر اکیلے ہونے اور تنہا رہنے میں اسے مُیسّر آتی ہے، وہ بیوی کی موجودگی میں حاصل نہیں ہوتی۔ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ جناح کی سیاسی مصروفیات جیسے جیسے بڑھتی گئیں، انھوں نے رتی کو ساتھ لے جانا مناسب ہی نہ سمجھا یا رتی نے خود ہی اپنے مزاج کےباعث دوری اختیار کی اورخود کو ہر سیاسی معاملے سےلاتعلق کرلیا۔ اور یوں دونوں میں فاصلے بڑھنے شروع ہوئے۔ دونوں وجود الگ الگ دائرے کے قیدی بنتے چلے گئے۔ جناح جس دائرے میں تھے، اُس کے اندر ہندوستان اور ہندوستانیوں کا مستقبل تھا اور پھر مسلمانوں کی نجات کا سوال اُبھر آیا تھا۔ اس دائرے میں جلسے جلوس تھے، ہنگامہ پرور شب و روز تھے اورکہیں کچھ ایسا نہ تھا، جہاں جناح اور رتی کاساتھ ساتھ ہونا لازم ٹھہرتا۔ جب کہ رتی جس دائرے میں تھیں، وہاں سائوتھ کورٹ میں ان کا تنہا، اداس کمرا تھا، اُن کی اداس، حرماں نصیب نگاہیں تھیں، جو کمرے کی چھت کو یک ٹک گھورتی رہتیں۔ 

اس حالت میں رہتے رہتے اُنھیں ذہنی تنائو اور جذباتی دبائو نے بیمار کر ڈالا۔ اُنھیں کسی جسمانی عارضے نے نہیں گھیراتھا، وہ اُسی ذہنی عارضے میں مبتلا ہوئیں، جو اُس زمانے میں عام نہیں تھا، مگر آج لاکھوں لوگ اس مرض میں مبتلا ہیں، جسےڈیپریشن، ٹینشن اور اینگزائٹی کا نام دیاجاتا ہے۔ اُس زمانے میں ان بیماریوں کو نہ پہچانا گیا تھا اور نہ ہی اِنھیں کوئی نام دیا گیا تھا۔ لیکن مختلف سوانح عُمریوں میں رتی کی حالت سے متعلق غور سے پڑھا جائے، تو اس نتیجے پر آسانی سے پہنچاجاسکتا ہےکہ رتی درحقیقت سخت ٹینشن اور ڈیپریشن کا شکار تھیں۔

وصال میں فراق…فراق میں وصال

کانجی دوارکا داس نے رتی پر ایک مختصر سی کتاب لکھی۔ "Ruttie Jinnah, The story of a great Friendship" جو رتی اور جناح کے دنیا سے جانے کے کئی دہائیوں بعد ۱۹۶۲ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں انھوں نےبعض ایسےواقعات رتی کےحوالے سے قلم بند کیے، جن سے مذکورہ شکوک و شبہات کو تقویت ملتی ہے۔ انھوں نے لکھا، ’’۱۹۶۲ء کو ایک رات انھوں نے خواب میں دیکھا کہ رتی صوفے پر لیٹی ہیں اور اُن سے کہہ رہی ہیں، ’’کانجی! میری مدد کرو‘‘۔ کانجی کو اگلی رات پھر وہی خواب نظر آیا، جس میں رتی اُنھیں مدد کے لیے پکار رہی تھیں۔ کانجی مجبور ہو کے سائوتھ کورٹ گئے۔ گھر کے باہر ملازم ملا، جس نے بتایا کہ رتی بیمار ہیں۔ 

اندر گئے تو اُن کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ خواب میں جیسا انھوں نے رتی کو صوفے پر لیٹے دیکھا تھا، وہ ویسے ہی لیٹی ہوئی تھیں۔ دونوں دیر تک باتیں کرتے رہے۔ یہاں تک کہ محمّد علی جناح اپنے چیمبرسےگھر آگئے‘‘۔ کانجی نےاس پہ کوئی روشنی نہیں ڈالی کہ انھوں نے یا رتی نے جناح سے رتی کی طبیعت کے ناساز ہونے کا ذکر کیا یا نہیں۔ لکھا تو یہ لکھاکہ جناح نےانھیں مشروب پینے کی دعوت دی اورڈنر پر روکنا چاہا، لیکن کانجی نے معذرت کی اور واپس چلے آئے۔ اسی برس انھوں نے رتی کے لندن جانے کی اطلاع پہ اُنھیں تحفے میں گلابوں کا دستہ بھجوایا۔ رتی نے جواب میں اُنھیں شکریہ ادا کرنے کے ساتھ لکھا کہ ’’اگر آپ کو فارغ لمحات میسّر آجائیں تو اپنی خیریت سے مطلع کرتے رہیں، اگر میں زندہ رہوں تو .......‘‘

رتی اپنی زندگی سے مایوس ہوتی جارہی تھیں، یا اُن کے اندر جینے کی اُمنگ باقی نہیں رہی تھی۔ جو کچھ بھی تھا، بہت درد انگیز تھا۔ شیلا ریڈی کی کتاب میں ایک جگہ یہ بھی ملتا ہےکہ انھوں نے یہ کہا کہ ’’جناح سے شادی کا فیصلہ اُن کی غلطی تھی۔‘‘ یہ درست ہےتو اس سے یہ نتیجہ نکالنا آسان ہے کہ ایسا اگر انھوں نے سوچا، تو اس لیے سوچا کہ وہ محمّد علی جناح کو پاکر بھی نہ پاسکیں۔ بلاشبہ یہ سچ ہے کہ ’’فراق، جدائی ہی کانام نہیں، وصال کےاندر بھی فراق موجود ہوتا ہے‘‘ یعنی پا کر بھی نہ پانا اور مل کر بھی نہ مل سکنا، یہی وہ معاملہ ہے، جو اکثر بڑی شخصیات کو درپیش رہا۔کارل مارکس جب’’داس کیپٹال‘‘ کے لیے لائبریری میں تحقیق و مطالعے میں مصروف تھا، تب اس کی پیاری بیوی گھر پہ اور پھراسپتال میں موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا ہو کر آخرکار اُسے چھوڑ گئی۔ 

ایسی اور بھی بےشمار مثالیں ہیں۔ خصوصاً ایسے لوگوں کی زندگیوں میں تو ایسے معاملات بکثرت ملیں گے، جو اپنے آپ کو کسی ایک مقصد کے لیے،خواہ مقصد چھوٹا ہو یا بڑا، وقف کر کر چکے ہوتےہیں۔ مگر ایسی خواتین بھی ہیں، جو اپنےشوہروں کےمقاصد زندگی کی تکمیل کےلیےخود کو تحلیل کرڈالتی ہیں اور اُنھیں پوری آزادی دیتی ہیں کہ وہ جو چاہتے ہیں، اُسے پانے کے لیے اپنا سارا زور لگادیں، اُنھیں کوئی اعتراض، کوئی شکایت نہیں ہوتی۔ شوہر کی ذات، اُس کی انا میں اپنی ذات اور اپنی انا کو فنا کردینےکی مثالیں بھی لاتعداد عورتوں نے قائم کیں۔ مگر ہر عورت، ہر بیوی کے لیے ایسا کرنا ممکن ہے، نہ ہی آسان۔

فاصلے بڑھتے گئے

کوئی شبہ نہیں کہ رتی جب بیاہ کر آئیں تو انھوں نے اپنے شوہر محمّد علی جناح کے ساتھ ایک آسودہ حال اور مطمئن زندگی کا آغاز کیا۔ ابتداً سب کچھ بہت اچھا، بہت اُمید افزا تھا۔ اُنھیں ذرا بھی اندیشہ نہ تھا کہ کبھی حالات و واقعات ایسا موڑ بھی مُڑجائیں گے۔ وہ شادی کے فوری بعد ہی جناح کے ساتھ طبقۂ اشرافیہ کی دعوتوں اور تقریبات میں آنےجانے کی وجہ سے اُس طبقے میں اپنے رہن سہن، لباس، اندازِ گفتگو کے سبب توجّہ اور تبادلۂ خیال کا موضوع بن گئیں۔ لیڈی لارڈ ریڈنگ کے الفاظ میں، جو انھوں نے اپنی ایک دوست کو خط میں لکھے کہ ’’تمام مرد، اُن کی تعریفیں کرتے ہیں اور خواتین اُنھیں دیکھ کے ناک بھوں چڑھاتی ہیں‘‘۔ مَردوں کی تعریفوں کا سبب تو رتی کا حُسن، ذہانت اور جرأت و بے باکی تھی کہ وہ اپنے ایک ہی فقرے سے کسی بڑے سے بڑے عُہدے دار، منصب دار کو بےبس کر دیتی تھیں اور خواتین کی بےزاری اور ناپسندیدگی کی وجہ اُن کا حسد تھا۔

کون عورت گوارہ کرے گی کہ اُسے نظر انداز کرکے کسی دوسری عورت کو سراہا جائے اور پھر رتی، جن کےحُسن، نزاکت اور لطافت احساس کی وجہ سے، اور کچھ اُن کے پہناووں کے سبب اُنھیں بمبئی کے اونچے طبقے میں ’’بمبئی کا گلاب‘‘ سے تعبیر کیا گیا۔ لارڈ ریڈنگ کی اہلیہ، لیڈی ایلس نے اِسی خط میں رتی کے لباس کے بارے میں کچھ اس طرح قلم آرائی کی۔ ’’بروکیڈ کا چُست لباس، سامنے اور پیچھے سے کمر تک کٹا ہوا، آستینوں سے بےنیاز، سر پہ پھول دار جڑائو پٹّی اور شیفون کی ساڑی۔‘‘ یا ’’اُن کا لباس، لبرٹی اسکارف، بالوں پر ایک جڑائو پٹّی اور زمرد کے نیکلس پرمشتمل تھا۔‘‘ (جاری ہے)

تازہ ترین