• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان جو ایک زرعی و صنعتی ملک ہے اور پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ میں چینی کے کارخانوں کا جال پھیلا ہوا ہے، اُس کے باوجود شوگر مافیا نے حالات کو اِس نہج پر پہنچایا کہ ملک میں مقامی پیداوار وافر مقدار میں ہوتے ہوئے بھی حکومت کو کثیر زرمبادلہ صرف کرکے پانچ لاکھ ٹن مزید چینی درآمد کرنا پڑرہی ہے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی سے اس کی منظوری کے لئے سمری آئندہ اجلاس میں پیش کی جائے گی۔ عبوری تخمینہ کے مطابق اِس سال چینی کی مقامی پیداوار گزشتہ سیزن کی نسبت زیادہ رہے گی گویا اُس کے ذخائر سرپلس ہو جائیں گے اور فالتو چینی ایکسپورٹ کرنا پڑے گی یہ منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔ مقامی چینی جو گنے سے بنتی ہے اور ملک اس کی پیداوار میں خودکفیل ہے مٹھاس میں دنیا بھر میں بہترین سمجھی جاتی ہے جبکہ گزشتہ دنوں درآمد کی گئی چینی کو صارفین نے کم مٹھاس کے باعث مجبوراً قبول کیا س وقت لوگ مقامی چینی 95تا 100روپے فی کلو خریدنے پر مجبور ہیں چند روز پہلے تک یہ قیمت 80روپے کلو تھی جو بڑھ کر اس سطح تک پہنچ گئی۔ اس کی وجہ سے چند دنوں میں مٹھائی کی قیمتوں میں اوسطاً سو روپے فی کلو اضافہ ہوا ہے۔ یہی صورتحال آٹے کی ہے منافع خوروں پر ہاتھ نہ ڈالنے کا یہ نتیجہ ہے کہ نئی فصل آنے سے پہلے ہی آٹے کی قیمت 85روپے فی کلو گرام پر پہنچ گئی جو 13ماہ پہلے یعنی دسمبر2019میں 50روپے تھی۔ حالات بتاتے ہیں کہ گندم اور چینی کی ذخیرہ اندوزی ایک عام کاروبار بن چکی ہےرہی سہی کسر اسمگلنگ نے پوری کردی، ہرسال گندم کے ساتھ ساتھ بڑی مقدار میں چینی بھی اسمگل ہونے کی اطلاعات ہیں جس سے قانون کے مطابق آہنی ہاتھوں سے نہ نمٹا گیا تو صورتحال کو مزید ابتر ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بلاتاخیر ملک گیر کریک ڈاؤن کیا جائے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین