اسلام آباد (طارق بٹ) سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج عظمت سعید، جنہیں وفاقی حکومت نے براڈشیٹ معاملے کی تحقیقات کے لئے انکوائری کمیٹی کا سربراہ بنا یا ہے، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے کہا ہے کہ جسٹس (ر) عظمت سعید کی تقرری سے ثابت ہوگیا عمران خان نیب اور خود کو بچانا چاہتےہیں۔لیگی رہنما احسن اقبال نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر اپنے بیان میں کہا کہ پاناما کیس جے آئی ٹی سے مشہور اور شوکت خانم اسپتال کے بورڈ آف گورنرز کے رکن جسٹس (ر) عظمت سعید کو ، جو اس وقت نیب پینل میں شامل تھے جب جنرل پرویز مشرف کے دور میں براڈ شیٹ کے ساتھ ڈیل کی گئی ، عمران خان براڈ شیٹ اسکینڈل کی تحقیقاتی کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا ہے ، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نیب اور خود کو بچانا چاہتے ہیں واضح رہے اس وقت قومی احتساب (نیب) کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل تھے جب کرپشن کے نگران ادارے نے اثاثوں کی بازیابی فرم کے ساتھ متنازع معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے نے ملک کو اندرون اور بیرون ملک بدنام کرنے کے علاوہ پاکستان کو بہت زیادہ مالی نقصان پہنچایا ہے اور احتساب کے عمل پر سنگین سوالیہ نشان اٹھادیئے۔ عظمت سعید کے اس وقت کے فوری باس، نیب پراسیکیوٹر جنرل، فاروق آدم نے 20 جون 2000 کو براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ اب وہ اسی معاہدے کا جائزہ لیں گے جس کی خلاف ورزی پر پاکستان کو 29 ملین امریکی ڈالر کا نقصان ہوا۔ انکوائری کمیٹی کا بنیادی کام اسی معاہدے پر مبنی ہوگا جو، اس کے پڑھنے سے پتہ چلتا ہے، براڈشیٹ کے حق میں اور نیب اور ریاست پاکستان کے خلاف بالکل یک طرفہ تھا۔ ان کی پروفائل کے مطابق عظمت سعید سال 2000 میں نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل کی حیثیت سے ایک سال کی مدت کے لئے ملازم رکھ گئے تھے۔ اٹک فورٹ اور راولپنڈی میں احتساب عدالتوں میں مقدمات کی پیروی کے لئے انہیں 2001 میں نیب کا خصوصی پراسیکیوٹر مقرر کیا گیا تھا۔ قانون کے مختلف ایوانوں میں کام کرنے کے بعدعظمت سعید نے 1980 میں لاہور میں اپنی آزادانہ مشق کا آغاز کیا تھا اور لاہور ہائیکورٹ (ایل ایچ سی) کے وکیل کی حیثیت سے رجسٹرڈ ہوئے تھے۔بعد میں وہ سپریم کورٹ کے وکیل بن گئے۔ انہیں 1996 میں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا قانونی مشیر مقرر کیا گیا تھا۔ انہیں 1997 میں سیف الرحمان کی سربراہی میں احتساب بیورو کے خصوصی وکیل کے طور پر بھی نامزد کیا گیا تھا اور ایل ایچ سی میں ہائی پروفائل کیسوں پر قانونی کارروائی کرنے والی قانونی ٹیم کے رکن تھے۔ اپنے قانونی پیشہ وارانہ کیریئر کے دوران انہوں نے سول اور بینکنگ عدالتوں اور صوبائی اعلیٰ عدالتوں میں بڑی تعداد میں مقدمات لڑے۔ وہ میلبورن (آسٹریلیا) میں ہونے والی کارروائیوں سمیت کرکٹ انکوائری میں بھی ایڈوکیٹ کے طور پر پیش ہوئے۔ وہ پاکستان کے اندر اور باہر بھی مختلف تجارتی اور مالی لین دین کے مذاکرات میں شریک رہے۔