• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بولٹن کی ڈائری۔۔۔ابرار حسین
برطانیہ میں بولٹن سمیت ہر چھوٹے بڑے شہر میں کشمیری نژاد تقریباً 12 لاکھ کے قریب لوگ آباد ہیں جن کے بہت سے مسائل اور معاملات زندگی آزاد کشمیر کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، قدرتی امر یہ بھی ہے کہ آج کے اس انٹرنیٹ دور میں برطانوی کشمیری اپنے وطن کے حالات و واقعات سے باخبر رہنے کیلئے آزاد کشمیر سےمتعلق تمام تر ذرائع کے علاوہ نیٹ پر موجود مواد کیلئے سرگرداں رہتے ہیں مگر دیکھنے میں کچھ ایسے لگتا ہے کہ صحافت کے جوہر دکھانے والے لوگ زمینی حقائق سے باخبر ہونے کی بجائے بے خبر نظر آتے ہیں کسی بھی قوم یا معاشرے کی رہنمائی کا فریضہ ہمیشہ اہل قلم نے کیا ہے مگر موجودہ دور میں قلم کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی بجائے زرد صحافت کو ترجیح دی گئی ہے یہ تو اللہ بھلا کرے جنگ کے مالکان اور مدیران کا جن کی کاوشوں سے روزنامہ جنگ کشمیری کمیونٹی کی سیاسی و سماجی خدمت میں پیش پیش نظر آتا ہے اور حقائق پر مبنی خبریں اور تبصرے پڑھنے کو ملتے ہیں اور اگر ذکر کیا جائے آزاد کشمیر سے شائع ہونے والے اخبارات کا تو بعض اخبارات میں پاکستان مخالف عناصر کے بیانات بمع تصاویر پڑھنے اور دیکھنے کو ملتے ہیں اور اس پر تیل چھڑکنے والا بے لگام سوشل میڈیا کسی سے کم نظر نہیں آتا، ان تمام واقعات کے باوجود معلوم نہیں کہ کیوں پاکستان کے ادارے اس کا نوٹس نہیں لیتے جس پر برطانیہ کے مختلف شہروں میں بسنے والے سنجیدہ کشمیری متفکر دکھائی دیتے ہیں کہ ان کشمیری اخبارات کے ذریعے کشمیر اور پاکستان کے عوام کے درمیان نفرت کی دیواروں کو کھڑا کیا جارہا ہے، آزاد کشمیر کی غالب اکثریتی عوام بشمول برطانیہ کے کشمیری پاکستان سے محبت کرنے والے لوگ ہیں یہی نہیں بلکہ سرحد کے اس پار مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے بھی کشمیری سر پر کفن باندھے ہاتھوں میں پاکستانی پرچم لہرا کر الحاق پاکستان کا نعرہ بلند کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر آزاد کشمیر کے بعض میڈیا میں مٹھی بھر ایسے عناصر کو نمایاں طور پر اہمیت دی جارہی ہے جو مغربی ممالک میں بھارت کے بیانیہ کو پوری قوت سے آگے بڑھا رہے ہیں اورمبینہ طور پر یہاں پر سیاسی پناہ کیلئے مملکت پاکستان کے خلاف جھوٹ پر مبنی مواد یہاں کے اداروں کو دیتے ہیں پھر جرائم کی خبروں کی نہایت ہی منفی اور ہر طرح کے صحافتی ضابطہ اخلاق سے ماوراہوکر تشہیر کی جاتی ہے۔ ملزم اور مجرم کے فرق سے معذرت کے ساتھ ان اخبارات سے متعلق زیادہ تر صحافی آگاہ معلوم نہیں ہوتے پاکستان کے اداروں سے ہم یہ اپیل کرتے ہیں کہ اس صورتحال کا بروقت نوٹس لیا جائے یہ کس طرح کی اظہار رائے کی آزادی ہے کہ مملکت خداداد پاکستان ،آزاد کشمیر، گلگت اور بلتستان کی سرحدوں کی محافظ پاک افواج کے خلاف سرگرم عمل عناصر کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے جب کہ عفت مآب خواتین اور شریف شہریوں کو پولیس گردی پر ذلیل و خوار کیا جاتا ہے۔
تازہ ترین