• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کھلا تضاد … آصف محمود براہٹلوی
آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں عام انتخابات میں تقریباً وہی پارٹی جیتنے میں کامیاب ہوئی جس کو اسلام آباد کی مکمل آشیرباد حاصل ہو۔اس سال جون، جولائی میں آزاد کشمیر میں بھی عام انتخابات ہونے جارہے ہیں اس سے پہلے بہت اکھاڑ پچھاڑ ہوگی، اس وقت آزاد کشمیر کا اقتدار مسلم لیگ ن کے پاس ہے جس کی قیادت وزیراعظم راجہ فاروق حیدر کررہے ہیں ، اسی طرح آزاد کشمیر کی ریاستی جماعت مسلم کانفرنس کی سربراہی سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان کررہے ہیں، پاکستان پیپلزپارٹی کی صدارت تو چوہدری لطیف اکبر کے پاس ہے لیکن اسمبلی کے اندر بطور قائد حزب اختلاف کے عہدے پر ممبر اسمبلی چوہدری محمد یٰسین براجمان ہیں،ایم کیو ایم آزاد کشمیر کے صدر صاحبزادہ میاں فیصل ہیں، اسی طرح کشمیرتحریک انصاف کی قیادت سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کررہے ہیں، جموں و کشمیر پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی اور دیگر گروپس بھی متحرک ہیں، آزاد کشمیر میں غیر اعلانیہ الیکشن مہم گزشتہ چھ ماہ سے جاری ہے لیکن کورونا وائرس لاک ڈائون کی وجہ سے رونقیں ماند پڑی ہوئی ہیں،حال ہی میں وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر سرمایہ کاری بورڈ سردار الیاس خان کی آزاد کشمیر میں آمدنے ٹھہرے ہوئے پانی میں طلاطم خیز موجیں برپا کردی ہیں، باالخصوص میرپور بھمبر سے سردار الیاس خان کی کارنر میٹنگز اور سابق اسپیکر چوہدری انوار الحق سے خصوصی نشست کے بعد مخالفین کی پریس کانفرنسزسے پریشانیاں عیاں ہیں،شاید اسی وجہ سے ابھی تک اڑنے والے پنچھی اپنی پرواز لینے کو تیار ضرور ہیں لیکن فیصلہ نہیں کر پا رہے، سردار الیاس کی آمد پرآزاد کشمیر میں سیانے کہہ رہے ہیں کہ وہ پاکستان کے جہانگیر ترین ہیں،پاکستان میں ہوائی جہاز کامیاب جبکہ آزاد خطہ پہاڑی علاقہ ہے یہاں ہیلی کاپٹر کامیاب ہے اور سردارالیاس ہیلی کاپٹروں کے مالک ہیں، دوسری طرف بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے حلقہ انتخاب میں سابق وزیر چوہدری سعید کو سپریم کورٹ آزاد کشمیر کی جانب سے الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت ملنے کے بعد جنہیں حلقے میں اخلاقی برتری حاصل ہےصورتحال تبدیل نظر آرہی ہے، اب آزاد کشمیر پی ٹی آئی جوائن کرنے والے انتظار میں ہیں کہ وہ اپنا وزن کس پلڑے میں رکھیں، پی ٹی آئی کا مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان ایلیکٹ ایبل ضرور اپنی پارٹی میں لائیں گے لیکن جانے والے اس بات کی گارنٹی مانگتے ہیں کہ الیکشن کے بعد نہ جانے وزارت عظمیٰ کا ہما کس کے سر پر بیٹھے، گزشتہ الیکشن میں مسلم لیگ ن کی جے کے پیپلزپارٹی اتحادی تھی،ہونا تو یہ چاہئے تھا فاروق حیدر وزیراعظم اور صدر سردار خالد ابراہیم بنتے لیکن فیصلہ سردار مسعود خان کے حق میں ہوگیا حالانکہ میاں شہباز شریف کی خواہش تھی کہ مرحوم سردار خالد ابراہیم کو صدر ریاست بنایا جائے، ادھر سردار عتیق احمد خان جو ملٹری ڈیموکریسی کے حامی ہیں ،کی وزیراعظم عمران خان کے ساتھ وزیرداخلہ شیخ رشید کی وساطت سے پندرہ منٹ کی طے پانے والی ملاقات ڈیڑھ گھنٹے تک چلی، یہ بھی مستقبل میں اچھی پیش رفت کا پیش خیمہ ہےبظاہر آزاد کشمیر میں یوں لگ رہا ہے کہ موجود تمام پارٹیاں اپنے طور پر الیکشن میں حصہ لیں گی جیتنے کے بعد ہی الائنس بنیں گے، پانی کا بہائو یا ہوائوں کا رخ دیکھ کر ہی فیصلے کئے جائیں گے۔ پاکستان پیپلزپارٹی آزاد کشمیر کی قیادت اور قائد حزب اختلاف کے درمیان بھی رسہ کشی چل رہی ہےعموماً تنظیم کا دورانیہ تین سال تک کا ہوتا ہے اب دیکھتے ہیں کہ الیکشن سے قبل تنظیمیں تبدیل ہوتی ہیں یا پرانی تنظیم سازی پر ہی الیکشن کے میدان میں اترے گی، قائد حزب اختلاف پر جموں و کشمیر ہائوسنگ سوسائٹی میں گھپلوں کا الزام بھی ہے اور FIA اس کیس کو دیکھ رہی ہے، ہوسکتا ہے کہ پاکستان میں NAB کی طرح آزاد کشمیر میں بھی فائلیں تیار کر کے سیاستدانوں کو دبائو میں لایا جارہا ہوں یا آزاد کشمیر اسمبلی کی پاکستان میں مہاجرین کی 12 نشستیں اور گلگت و بلتستان کے سات آزاد امیدواروں کی طرح کاکام کریں گی، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، آزاد کشمیر میں سیاست کے تیور کس طرح تبدیل ہوتے ہیں۔
تازہ ترین