• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنے ملکی حالات سمجھنے کے لئے دو تازہ رپورٹیں کافی ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق بدعنوانی کے طفیل پاکستان کا درجہ 120سے 124ہو گیا ہے۔ لوگ کرپشن میں اضافے کی باتیں سنا رہے ہیں جبکہ وزیراعظم نے اس رپورٹ کا خیرمقدم کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ ’’اردو ترجمہ آنے کے بعد سب کی آنکھیں کھل جائیں گی‘‘۔ ڈیٹا کے ماہر ڈاکٹر شہباز گل نے کرپشن کو پچھلی حکومتوں کی کارستانی قرار دیا ہے، ان کے نزدیک پرانا ڈیٹا استعمال ہوا ہے۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے بقول کرپشن کا زہر پورے معاشرے میں سرایت کر چکا ہے۔ اپنے شبلی فراز تو بڑی دور کی کوڑی لائے ہیں ان کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کی تحریک کرپشن چھپانے کیلئے تھی۔ اپوزیشن کرپشن پر کیا کہہ سکتی ہے۔ ان کی کرپشن کے چرچے تو سات سمندر پار بھی ہیں بلکہ حال ہی میں ایک محب وطن پاکستانی خاتون نے لندن میں اسحاق ڈار کو بددعائیں دی ہیں۔ اس خاتون نے پاکستانی سیاستدان کو آخرت یاد کروانے کی کوشش کی ہے۔ اس کا سادہ سا جواب ہے کہ اگر پاکستانی سیاستدانوں کو آخرت کا کوئی خوف ہوتا تو وہ اپنے ملک کے ساتھ اس طرح کھلواڑ کرتے؟

دوسری رپورٹ عدالتوں سے متعلق ہے۔ یہ رپورٹ بھی پہلی رپورٹ سے ملتی جلتی ہے۔ اس میں ہمیں 121واں درجہ ملا ہے۔ دنیا کی 128 عدالتوں کی درجہ بندی میں بلجیم پہلے نمبر پر آیا ہے جبکہ پاکستان کا نمبر 121ہے۔ درجہ بندی کا یہ عالم دیکھ کر حیرت کے ساتھ، دکھ بھی ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں شاید عملدرآمد کا بھی ایک مسئلہ ہے۔ مثلاً سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ دیا تھا کہ اردو سرکاری زبان ہو گی، دفتروں میں خط و کتابت اردو میں ہو گی لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ اس فیصلے کا اطلاق خود سپریم کورٹ پر بھی نہ ہو سکا۔ آج بھی اعلیٰ عدلیہ سے فیصلے انگریزی زبان میں ہو رہے ہیں۔ مزید حیرت کیلئے یہ کافی ہے کہ اردو سے متعلق فیصلہ بھی انگریزی زبان میں آیا۔ پاکستان اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک اپنی زبان نہیں اپنا لیتا۔ چین، جاپان اور جرمنی کی ترقی انگریزی کے باعث نہیں ہوئی۔ ہمارے ہاں تو اب عدالتوں میں زبان سے بھی زیادہ لباس پر تبصرے شروع ہو گئے ہیں۔ شلوار قمیص قومی لباس ہے اور پشاوری چپل پورے ملک میں پہنی جاتی ہے۔ میں پنجاب کا رہنے والا ہوں مجھے اگر عدالت میں جانا پڑتا تو میں تہبند کرتا، پگڑی اور کھسہ پہن کر جاتا کیونکہ میرے دادا پردادا اسی لباس میں کچہری جایا کرتے تھے، انہوں نے تو اپنی زندگیوں میں کوئی اور لباس پہنا ہی نہیں تھا۔

خواتین و حضرات! اگر تمام حالات کا جائزہ لیا جائے تو ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔ کرپشن کرنے والوں کو اگر اس ملک کی فکر ہوتی تو وہ منی لانڈرنگ جیسے گھنائونے عمل میں شامل ہوتے؟ تازہ چرچا براڈ شیٹ کا ہے۔ اس سلسلے میں قائم کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) عظمت سعید شیخ کے نام نے کرپٹ افراد کی صفوں میں خوف کی لہر پیدا کر رکھی ہے۔ اُنہوں نے نیب کی طرز پر عظمت سعید کے خلاف بھی پروپیگنڈا مہم شروع کر دی ہے۔ جسٹس (ر) عظمت سعید کو چاہئے کہ وہ پاکستان کے ساتھ نیکی کریں، کسی کی پروا کئے بغیر ڈٹ کرتمام چوروں اور لٹیروں کا حساب کریں۔

اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بہت سے حقائق بیان کئے ۔ ان کا یہ خطاب وڈیو لنک کے ذریعے راولپنڈی، چکوال، سیالکوٹ اور کراچی سمیت دیگر ایوان ہائے صنعت و تجارت کے نمائندوں نے بھی سنا۔ چیئرمین نیب جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ ’’نیب کے خلاف تواتر سے پروپیگنڈا جاری ہے، کورونا پھیلانے کے سوا نیب پر ہر الزام لگ چکا ہے۔ ملزم چوہدری جبکہ ہم کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ نیب کے خلاف پروپیگنڈا وہی لوگ کر رہے ہیں جن کے خلاف انکوائری ہو رہی ہے، جب میں کسی کو ذاتی طور پر جانتا نہیں تو ذاتی انتقام کیسے لوں گا، ثابت کریں کسی بزنس مین نے نیب کی وجہ سے ملک چھوڑا ہو، اگر ایسا ثابت ہو جائے تو میں گھر چلا جائوں گا مگر یاد رہے کہ اصل بزنس مین اور ڈکیت میں فرق ہے۔ مذموم پروپیگنڈے کی وجہ سے نیب کٹہرے میں کھڑا ہو گیا ہے مگر کوئی دھمکی، بلیک میلنگ ہمارے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتی، اگر نیب نے غلط ریفرنس دائر کیا ہے تو عدالت چلے جائیں، نیب نے تو ان لوگوں کو بھی بلوایا جنہیں ہاتھ لگانا مشکل تھا۔ میرے دور میں 487ارب روپے کی ریکوری ہوئی۔ نیب اور پاکستان ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں مگر کرپشن اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔‘‘

چیئرمین نیب کی باتوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو حقیقت آ شکار ہوتی ہے۔ واقعتاً وہی لوگ نیب کے خلاف شور مچا رہے ہیں جنہوں نے کرپشن کی، جن کے خلاف انکوائریاں ہو رہی ہیں۔ جو آدمی چور نہیں ہے، اسے نیب یا کسی بھی ادارے سے ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس نے تو چوری کی نہیں۔ نیب یا اینٹی کرپشن سے وہی لوگ خوف زدہ ہیں جنہوں نے اس عظیم دھرتی کو لوٹا بلکہ اب تو براڈ شیٹ پر تحقیقاتی کمیشن بننے پر وہ جملہ سچ ثابت ہو رہا ہے کہ ’’چور مچائے شور‘‘۔ پاکستان میں ہر جماعت نے پروپیگنڈے کیلئے پورا پورا جتھہ تیار کر رکھا ہے جو میڈیا پر آ کر مسلسل جھوٹ بولتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں اصل کمی کمین وہ تمام لوگ ہیں جو وراثتی سیاست کی پوجا کرتے ہوئے ’’چھوٹوں‘‘ کی قیادت کو تسلیم کرتے ہیں، یہ بس سر ہلانے والے مٹی کے مادھو ہیں۔ ہمارے میڈیا نے بھی سیاست کو چند چہروں تک محدود کر دیا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کو نہ جمہوریت سے غرض ہے اور نہ ہی جمہور سے۔ اگر عوام کی فکر ہوتی تو یہ حال ہوتا؟ ڈاکٹر مقصود جعفری یاد آ گئے کہ ؎

اپنی دیارِ غیر میں بھی آبرو نہیں

افسوس اپنے گھر میں بھی بے آبرو سے ہیں

اب کس پہ انحصار کریں، کس پہ اعتبار

لگتا ہے اپنے دوست بھی نسل عدو سے ہیں

تازہ ترین