• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کو کورونا ہے آپ گھر نہیں جاسکتے۔ جاپان کے ناریتا ایئرپورٹ پر حکام کے یہ الفاظ سنتے ہی مجھ پر سکتہ سا طاری ہو گیا تھا۔ میں نے سوچا بھی نہ تھا کہ مجھے کورونا بھی ہو سکتا ہے‘ میں تو اب بھی اپنے آپ کو انتہائی توانا اور صحت مند محسوس کر رہا تھا، میں نے جاپانی حکام سے ایک بار پھر درخواست کی کہ شاید آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے یا ٹیسٹ کے نتائج ٹھیک نہیں ہیں‘ آپ ایک بار پھر میرا کورونا ٹیسٹ کرلیں لیکن جاپانی حکام کو اپنے کورونا ٹیسٹ اور اس کے نتیجے پر پورا اعتماد تھا، میں نے انہیں اپنا پاکستان میں کرایا گیا کورونا ٹیسٹ کا رزلٹ دکھایا کہ دیکھیں وہاں تو یہ نگیٹو آیا ہے لیکن جاپانی حکام کا جواب یہی تھا کہ آپ کو اسپتال جانا ہوگا وہاں پندرہ دن تک رہنا ہوگا‘ اس دوران آپ صحت مند ہو جائیں گے اور آپ کا کورونا ٹیسٹ منفی آجائے گا تو آپ کو گھر جانے کی اجازت دے دی جائے گی، میں گھر جانے کے بجائے اب اسپتال منتقل ہو رہا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ کورونا ایک حقیقی مرض کے ساتھ ساتھ نفسیاتی مرض بھی ہے جو اپنے ساتھ ایک خطرناک انجام کاخوف لے کر آتا ہے۔ اسپتال جاتے جاتے ماضی کے کچھ گزرے ایام یاد آنے لگے جب پاکستان سے اہل خانہ ہر روز فون پر پاکستان آنے کی فرمائش کرتے، ان کو بتاتا کہ کورونا کی صورتحال جاپان اور پاکستان دونوں جگہ بہت خطرناک ہے‘ احتیاط کی ضرورت ہے تو ہر دفعہ یہی جواب ملتا کہ کچھ بھی نہیں ہے‘ صرف خبروں کی حد تک کورونا ہے، آپ بس کسی بھی طرح پاکستان آجائیں۔ میں بھی پھر بچوں، بھائی بہنوں اور والدین کی محبت میں کورونا کی وبا کے دوران پاکستان روانہ ہوگیا، وہاں واقعی کورونا کا کوئی ڈر یا خوف نہ تھا، مارکیٹیوں میں رونق، سڑکوں پر رش، کاروبار عروج پر، ماسک کچھ ہی لوگ پہنے نظر آتے، غرض کاروبار زندگی عروج پر تھا جب کہ ٹی وی کے وہ اشتہارات جن میں لوگوں کو کورونا سے بچنے کے لئے مکمل احتیاط کا مشورہ دیا جا رہا تھا، ایک تسلسل کے ساتھ نشر ہو رہے تھے۔ میں بھی پاکستان کافی دنوں کے بعد پہنچا تھا لہٰذا دعوتوں کا ایک ایسا دور شروع ہوا کہ رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، میں بھی بیوی بچوں اور بھائی بہنوں کے ساتھ رہتے ہوئے کورونا کو بھول ہی چکا تھا، ایک ماہ کراچی میں گزر چکا تھا، جاپان بھی واپس جانا تھا معاشی مجبوریاں بھی تھیں ورنہ کون جان سے زیادہ محبت کرنے والے بیوی بچوں اور بھائی بہنوں کو چھوڑ کر پردیس میں رہنا پسند کرتا ہے۔ ایک ماہ کے بعد واپسی کی تیاری شروع کی تو کورونا ٹیسٹ کرانا بھی واپسی کی تیاری کا حصہ تھا۔ ایک معروف نجی ادارے سے کورونا ٹیسٹ کرایا جو منفی آیا جس پر میں دل میں مسکرایا کہ کورونا جیسی کوئی بیماری ہے ہی نہیں صرف پیسے بنانے کے لئے ٹیسٹوں کا نظام شروع کر رکھا ہے بہر حال کورونا ٹیسٹ کا منفی نتیجہ آنے کے بعد باآسانی جاپان کا سفر کیا جا سکتا تھا، لہٰذا اگلے روز کی فلائیٹ سے جاپان پہنچ گیا اور أئرپورٹ پر امیگریشن سے قبل کئےجانے والے کورونا کے ٹیسٹ میں اچانک ہی میرا کورونا ٹیسٹ مثبت آچکا تھا اور اب میں اسپتال منتقل ہو رہا تھا۔ اسپتال آنے کے بعد بھی مجھ میں کورونا کی بیماری کی کوئی علامت نہیں تھی، نہ بخار تھا، نہ جسم میں درد تھا نہ سانس لینے میں دشواری تھی۔ میں خود کو 44برس کا مضبوط اور صحت مند نوجوان محسوس کر رہا تھا۔ میرا اب بھی یہ خیال تھا کہ جاپان میں آنے والا کورونا ٹیسٹ کا نتیجہ غلط ہے لیکن اگلے روز ہی مجھے اپنا خیال غلط ثابت ہوتا محسوس ہوا۔ مجھے اب سردی بھی لگ رہی تھی، ہلکا بخار بھی محسوس ہونے لگا تھا جب کہ جسم میں بھی درد محسوس ہو رہا تھا، ڈاکٹر اور اسٹاف بہترین طریقے سے میرے علاج و تیمارداری میں مصروف تھے۔ اگلے روز میری آکسیجن چیک کی گئی تو معلوم ہوا کہ وہ 85 تک آگئی تھی جو اوسط آکسیجن سے دس درجے کم تھی لیکن میں اب بھی اپنے آپ کو فٹ محسوس کررہا تھا لیکن جسم میں درد اور بخار بھی بڑھتا جا رہا تھا جب کہ اب سانس لینے میں بھی تکلیف شروع ہو چکی تھی، ڈاکٹر نے میرا آکسیجن لیول چیک کیا اور کہا کہ آپ کو سانس لینے میں تکلیف بڑھ رہی ہے‘ آپ کا آکسیجن لیول تیزی سے کم ہو رہا ہے اگر یہ سلسلہ برقرار رہا تو آپ کو وینٹی لیٹر پر منتقل کرنا پڑے گا لیکن میں وینٹی لیٹر کے لئے بالکل تیار نہ تھا کیونکہ میں نے سن رکھا تھا کہ کورونا میں جس کو وینٹی لیٹر لگا وہ پھر زندہ واپس نہیں آتا، مجھ سے ڈاکٹرز نے وینٹی لیٹر لگانے کی اجازت طلب کی لیکن میں نے سختی سے انکار کردیا۔ ڈاکٹرز نے جاپان میں سفارت خانے کو بھی شاید میرے انکار سے آگاہ کیا، پاکستان میں میرے اہل خانہ کو بھی آگاہ کیا جنہوں نے میری ہدایات پر یہی جواب دیا کہ جیسا میں کہہ رہا ہوں ویسا ہی کیا جائے، اس روز میرا آکسیجن لیول صرف 65 رہ گیا تھا اور میں وینٹی لیٹر پر جانے سے مسلسل انکاری تھا، کمزوری شدید بڑھ چکی تھی۔ بخار ، سانس لینے میں تکلیف اور جسم میں درد انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ میں افسوس کر رہا تھا کہ میں نے کورونا کو خطرناک بیماری سمجھتے ہوئے بھی بداحتیاطی کی، میں لوگوں کو بتانا چاہتا تھا کہ خدارا کورونا سے احتیاط کریں ، ماسک لگائیں، ایک دوسرے سے مناسب فاصلہ رکھیں، کورونا سے بچیں‘ یہ ایک قاتل بیماری ہے ۔

تازہ ترین