نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کو مدینہ منوّرہ ہجرت کیے سات ماہ ہو چُکے تھے۔ آپﷺ، حضرت ابو ایّوب انصاریؓ کے گھر مقیم تھے۔ مسجدِ نبوی سے ملحق دو حجروں کی تعمیر مکمل ہو چُکی تھی۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے حضرت زیدؓ بن حارثہ اور ابو رافعؓ کو مکّہ مکرّمہ روانہ کیا تاکہ اہلِ بیت کو مدینہ منوّرہ لے آئیں۔
سیّدنا ابوبکر صدیقؓ نے بھی عبداللہ بن اریقط کے ذریعے اپنے صاحب زادے، عبداللہؓ کو پیغام بھیجا کہ وہ بھی اپنی والدہ اُمّ ِ رُومانؓ اور دونوں بہنوں، حضرت سلمیٰؓ اور حضرت عائشہؓ کو ساتھ لے کر مدینہ منوّرہ آجائیں۔یہ حکم ملتے ہی وہ دونوں بہنوں اور والدہ کو ساتھ لے کر مدینہ منوّرہ روانہ ہوگئے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے اہلِ خانہ کی رہائش کے لیے پہلے ہی سے بنو حارث میں ایک مکان کا بندوبست کر لیا تھا، لہٰذا اُم رُومانؓ نے اپنے بچّوں کے ساتھ اُسی مکان میں قیام کیا۔
سفرِ ہجرت کا ایک دل چسپ واقعہ
اُم المومنین، سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سفرِ ہجرت کے دَوران پیش آنے والے ایک واقعے کا نہایت پُرلطف انداز میں ذکر کیا کرتیں، جس سے اندازہ ہوتا کہ والدہ اُن سے کتنی محبّت کرتی تھیں۔فرماتی ہیں کہ’’ ابھی ہم نے اپنا سفر شروع ہی کیا تھا اور مِنٰی پہنچے تھے کہ اچانک میرا اونٹ بِدک کر بھاگ کھڑا ہوا۔ اُس وقت ہودج میں میری والدہ بھی میرے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ یہ صُورتِ حال دیکھ کر گھبرا گئیں اور زور زور سے پُکارنے لگیں’’ ہائے میری بچّی! ہائے میری بچّی! ہائے میری نئی نویلی دُلہن۔ اے اللہ! میری لختِ جگر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی دُلہن کو کوئی گزند نہ پہنچے۔‘‘ ان حالات میں بھی اُنہیں اپنی نہیں، میری فکر تھی۔ یہاں تک کہ اللہ نے وہ اونٹ دوبارہ ہمارے تابع کر دیا، جو ایک موڑ کاٹتے ہوئے بدک گیا تھا‘‘ (طبقات ابنِ سعد، اُردو 293/8)۔ حضرت عبداللہؓ نے نہایت پُھرتی سے اونٹ کو قابو کر لیا تھا۔ حضرت اُمّ ِ رُومانؓ وہ جلیل القدر صحابیہ ہیں کہ اُن کا شمار سابقین الاوّلین(یعنی ابتدائی مسلمان) میں ہوتا ہے۔ شوہر حضرت ابوبکرؓ، نبی کریمﷺ کے رفیق ہیں، سُسر ابی قحافہؓ صحابی، تو بیٹی سیّدہ عائشہؓ ،محبوب ترین اُمّ المومنین ہیں، جب کہ صاحب زادہ، عبداللہؓ بھی جانثارِ مصطفیٰﷺ ہے۔حضرت اُمّ ِ رومانؓ نے سیّدنا ابوبکرؓ کے ساتھ ہی اسلام قبول کرتے ہوئے نبی کریمﷺ سے بیعت کا شرف حاصل کیا۔
نام و نسب
آپؓ کے اصل نام کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔بعض نے اُن کا نام زینب بنتِ عامر یا زینب بنتِ عبد تحریر کیا ہے، تاہم وہ اپنی کنیت’’اُمّ ِ رُومان‘‘ ہی سے معروف ہیں۔ ابنِ سعد کے مطابق، آپ کا نسب یوں ہے، اُمّ ِ رُومانؓ بنتِ عامر بن عویمر بن عبد شمس بن عتاب بن ازینہ بن سمیع بن دھمان بن حارث بن غنم بن مالک بن کنانہ۔ ان کا خاندان بنو کنانہ کی شاخ، فراس سے تعلق رکھتا تھا۔
پہلا نکاح
حضرت اُمّ ِ رُومانؓ کا پہلا نکاح حارث بن سنجرہ سے ہوا، جن سے اُن کے یہاں ایک فرزند کی ولادت ہوئی، جس کا نام طفیل بن حارث رکھا گیا، جنھیں نبی کریمﷺ کے صحابی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ حارث، مکے میں رہائش کے خواہش مند تھے، لیکن وہاں کے دستور کے مطابق کسی مقامی معزّز شخص کا حلیف بننا ضروری تھا۔ چوں کہ حارث کے سیّدنا صدیق اکبرؓ سے تعلقات تھے لہٰذا اُنہیں اپنا حلیف بنا لیا، جنھوں نے اُنہیں مکّے میں رہائش کے لیے تمام تر ضروری سہولتیں فراہم کیں۔ تاہم، حارث کو وہاں منتقل ہوئے کچھ ہی عرصہ ہوا تھا کہ موت نے اُنھیں آ گھیرا اور اُمّ ِ رُومان جوانی ہی میں بیوہ ہوگئیں۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کی زوجیت میں
ایک نوجوان، خُوب صُورت خاتون کا معصوم بچّے کے ساتھ اجنبی شہر میں تنہا رہنا آسان نہ تھا۔ اُمّ ِ رُومان کے لیے یہ ایّام نہایت پریشانی کے تھے۔ ایسے میں اپنی رحم دلی، سخاوت اور فیّاضی کی بناء پر ایک ابوبکر صدیقؓ ہی تھے، جنہوں نے اپنے مرحوم دوست کی بیوہ اور یتیم بچّے کے سَر پر دستِ شفقت رکھا، لیکن کسی مستقل سہارے کے بغیر پہاڑ جیسی زندگی کا گزارنا بہت مشکل، بلکہ ناممکن تھا۔ وہ بھی مکّے کے اس فِسق و فجور سے لتھڑے معاشرے میں کہ جہاں عورت ،عزّت و احترام سے عاری اور ظلم و زیادتی کی عملی تصویر تھی۔ چناں چہ، حضرت صدیق اکبرؓ نے چند بہی خواہوں کے مشورے پر اُمّ ِ رُومانؓ کو نکاح کی تجویز پیش کی، جسے اُنہوں نے قبول کر لیا۔ اُس وقت تک نبی کریمﷺ نے نبوّت کا اعلان نہیں فرمایا تھا۔تاہم، سیّد المرسلینﷺ اور صدیقِ اکبرؓ آپس میں بہترین دوست تھے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے اپنے خاندان کو اسلام کی دعوت دی، تو مَردوں میں سیّدنا ابوبکرؓ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ اُن کی اہلیہ، اُمّ ِ رُومانؓ کو علم ہوا، تو وہ بھی مشرف بہ اسلام ہوگئیں۔واضح رہے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے چار شادیاں کیں۔ پہلا نکاح قریش کے مشہور شخص، عبدالعزیٰ کی بیٹی اُمّ ِ قتیلہ سے ہوا، جس سے حضرت عبداللہؓ اور ایک بیٹی حضرت اسماءؓ پیدا ہوئیں۔ دوسرا نکاح اُمّ ِ رومانؓ سے ہوا۔ اُن سے حضرت عبدالرحمٰنؓ اور اُمّ المومنین، حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ پیدا ہوئیں۔ تیسرا نکاح حبیبہ بنت خارجہ بن زید سے کیا،جن سے اُمّ ِ کلثوم پیدا ہوئیں۔ چوتھا نکاح حضرت اسماء بنت عمیسؓ سے کیا، جو حضرت جعفر بن ابی طالبؓ کی بیوہ تھیں۔ حضرت جعفرؓ جنگِ موتہ میں شہید ہوئے، تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اُن کی بیوہ سے نکاح کرلیا۔ اُن سے محمّد بن ابی بکر پیدا ہوئے۔جب حضرت ابوبکر صدیقؓ کی وفات ہوئی، تو حضرت علی المرتضیٰؓ نے حضرت اسماء بنت عمیسؓ سے نکاح کیا۔
حضرت صدیقِ اکبرؓ سے اولاد
اللہ تعالیٰ نے اُنھیں حضرت ابوبکر صدیقؓ سے دو بچّے عطا فرمائے۔ اُمّ المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ اور عبدالرحمٰن بن ابوبکرؓ۔ سیّدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ’’ جب سے مَیں نے آنکھ کھولی، اپنے والدین کو اسلام کا پیروکار پایا۔‘‘
سیّدہ عائشہؓ کا رشتہ
اُمّ المومنین، حضرت خدیجہؓ کے انتقال کو تین برس گزر چُکے تھے کہ ایک دن اچانک حضرت خولہ بنتِ حکیمؓ، حضرت اُمّ ِ رُومانؓ کے پاس حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کا رشتہ لے کر آئیں۔ حضرت اُمّ ِ رُومانؓ نے اپنے شوہر سے مشورہ کیا۔ اُس وقت سیّدہ عائشہؓ، جبیر بن مطعم کے صاحب زادے سے منسوب تھیں، لیکن اُن کے اُمّ المومنین بننے کا فیصلہ تو آسمانوں پر ہو چُکا تھا، لہٰذا جبیر بن مطعم نے اسلام کا بہانہ بنا کر اس رشتے سے انکار کر دیا اور صدیقِ اکبرؓ نے اُن کا نکاح حضورﷺ سے کر دیا۔
اُم رُومانؓ کا مشورہ
مدینہ منوّرہ ہجرت کے فوری بعد سیّدہ عائشہؓ صدیقہ بیمار پڑ گئیں۔ جب تندرست ہوئیں، تو ہر ماں کی طرح حضرت اُمّ ِ رُومانؓ کو بھی بیٹی کی رُخصتی کی فکر ہوئی، کیوں کہ ایک تو وہ سنِ بلوغت کو پہنچ چُکی تھیں، دُوسرے نکاح کو تین سال کا عرصہ گزر چُکا تھا۔ اُنھوں نے حضرت صدیق اکبرؓ سے کہا’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے رُخصتی کی بات تو کریں۔‘‘ حضرت ابوبکرؓ نے ایک دن مناسب موقع دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے بات کی، تو آپﷺ نے فرمایا’’ میرے پاس مہر کی رقم نہیں ہے۔‘‘ یہ سُن کر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی ہدیے میں پیش کی، تو آپﷺ نے وہ چاندی سیّدہ عائشہؓ کے پاس بطور حق مہر بھیج دی (طبقات ابنِ سعد 294/8)۔
ماں نے بیٹی کو رُخصت کیا
سیّدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ’’ مَیں ایک دن اپنی سہیلیوں کے ساتھ جُھولا جُھول رہی تھی کہ والدہ اُمّ ِ رُومانؓ نے مجھے آواز دی اور میرا ہاتھ پکڑ کر گھر میں لے گئیں۔ اُس وقت میرا سانس پھولا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر بعد جب مَیں پُرسکون ہوئی، تو اُنہوں نے تھوڑا پانی لے کر میرے منہ اور سَر پر پھیرا۔ پھر اندر لے گئیں، جہاں انصار کی چند عورتیں موجود تھیں، جنہوں نے مجھے دیکھ کر دُعا دی۔ والدہ نے مجھے اُن کے حوالے کر دیا اور اُنہوں نے میری آرائش کی۔ اُس کے بعد دوپہر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم ہمارے گھر تشریف لائے اور میری والدہ نے مجھے اُن کے سپرد کر دیا‘‘ (صحیح بخاری حدیث 3894)۔
واقعۂ افک اور اُمّ ِ رُومانؓ کی دانش مندی
واقعۂ افک اُمّ المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کی پاک دامنی، عفّت و عصمت پر بہتانِ عظیم تھا، جس کا سرغنہ منافقِ اعظم، عبداللہ بن اُبیٔ تھا۔ اس اتہام طرازی نے حضرت اُمّ ِ رُومانؓ سمیت پورے خاندان کو بے قرار و مضطرب کر دیا تھا۔ اُمّ ِ رُومانؓ کو اپنی تربیت یافتہ، پاک دامن لختِ جگر پر پورا پورا یقین تھا، لیکن منافقین کے منفی پروپیگنڈے، لعن طعن اور بہتان طرازی نے مدینے کی مقدّس فضائیں پراگندہ کر دی تھیں۔ اُمّ المومنین سیّدہ عائشہؓ بیمار ہو کر والدین کے گھر آ چُکی تھیں، جہاں اُن کے دِن رات کے آنسوئوں اور غم زدہ صُورت نے رقیق القلب والد اور صابر و شاکر ماں کے دِل چھلنی کر دیے تھے۔ نورِ نظر کا سَر اپنی گود میں رکھ کر اُن کے بہتے اَشکوں کا سیلاب روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کبھی اُن کی ہمّت بڑھاتیں، کبھی تسلیاں دیتیں اور کبھی دِل جوئی کی خاطر صبر کی تلقین کرتیں۔
اللہ کی جانب سے برأت کا اعلان
جوں جوں دِن گزر رہے تھے، سیّدہ عائشہؓ کی غم و صدمے سے حالت خراب ہوتی جا رہی تھی۔ ایک ماہ گزر چُکا تھا۔ مغموم عائشہ،ؓ والدہ کی گود میں سَر رکھے لیٹی تھیں، لبوں پر دُعائیں اور آنکھوں سے آنسوئوں کا سیلاب جاری تھا کہ اچانک سرکارِ دو عالمﷺ تبسّم فرماتے ہوئے تشریف لائے اور فرمایا’’ اے عائشہؓ! مبارک ہو۔
اللہ نے تمہاری برأت میں وحی نازل فرما دی ہے۔‘‘ اس خبر سے والدین کے مُرجھائے چہرے کِھل اُٹھے۔ حضرت اُمّ ِ رُومانؓ خوشی سے گویا ہوئیں’’ بیٹی! حضورﷺ کے پاس جائو اور شُکریہ ادا کرو۔‘‘ سیّدہ عائشہؓ نے جواب دیا’’ اللہ کی قسم! مَیں اپنے رَبّ کے سِوا اور کسی کی حمد و ثنا نہیں کروں گی‘‘ (بخای 4141)۔اللہ تعالیٰ نے سیّدہ عائشہؓ کی برأت سے متعلق سورۂ نور کی دس آیات نازل فرمائیں۔
وسیع دسترخوان
حضرت ابوبکرؓ کی سخاوت اور فیّاضی ضرب المثل تھی۔ اُن کا دَسترخوان بہت وسیع تھا۔ گھر کے دروازے یتیم و مساکین، فقیر و غربا اور اَصحابِ صفّہ کے لیے ہر وقت کُھلے رہتے۔ اس سخاوت و فیاضی میں اُن کی اہلیہ، اُمّ ِ رُومانؓ بھی برابر کی شریک تھیں کہ اُن کے بغیر مہمان نوازی کا یہ اہتمام ممکن ہی نہ تھا۔ حضرت ابوہریرہؓ کہا کرتے تھے کہ’’ جب میری بھوک ناقابلِ برداشت ہو جاتی، تو مَیں حضرت صدیقِ اکبرؓ کے گھر چلا جاتا، جہاں حضرت اُمّ ِ رُومانؓ کا دسترخوان مجھے خوش آمدید کہتا۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیقؓ عموماً اصحابِ صفّہ کی مہمان نوازی کیا کرتے تھے۔ ایک دن وہ تین افراد کو کھانے کے لیے لائے، لیکن اِتنے میں حضورﷺ نے یاد فرما لیا۔ اہلیہ کو ہدایت دی کہ اگر دیر ہو جائے، تو مہمانوں کو کھانا دے دینا۔ بارگاہِ رسالتﷺ میں دیر ہوگئی، تو حضرت اُمّ ِ رُومانؓ نے کھانا بھیجا، لیکن مہمانوں نے صدیقِ اکبرؓ کے ساتھ کھانے پر اصرار کیا۔ جب حضرت ابوبکرؓ واپس تشریف لائے، تو تینوں مہمانوں اور پھر گھر کے تمام افراد نے سیر ہو کر کھانا کھایا، لیکن اس کے باوجود کھانے کے برتن بَھرے رہے، چناں چہ وہ سب کھانا رسول کریمﷺ کی خدمت میں بھیجا گیا، جسے اصحاب ِ صفّہ نے تناول فرمایا۔
فضائل و مناقب
حضرت اُمّ ِ رُومانؓ نہایت سمجھ دار، دانش مند، خدا ترس، مہمان نواز، غربا و فقراء سے محبّت کرنے والی، مسلمانوں کی مونس و غم خوار، متّبعِ شریعت اور پاکیزہ صفات کی مالک تھیں۔ اُن کے بارے میں حضورﷺ فرمایا کرتے تھے کہ’’ اُمّ ِ رُومانؓ (ظاہری خُوب صُورتی اور حُسنِ سیرت میں) جنّت کی حور جیسی ہیں‘‘ (جنّتی زیور ص 524)۔ ایک اور موقعے پر ارشاد فرمایا’’ جو شخص عورتوں میں حورِ عین دیکھنا چاہتا ہو، وہ حضرت اُمّ ِ رُومانؓ کو دیکھ لے‘‘ (طبقات ابنِ سعد، 407/8)
وفات
بیش تر اہلِ سیر کے مطابق، حضرت اُمّ ِ رُومانؓ نے 9ہجری میں مدینہ منوّرہ میں وفات پائی۔ نبی کریمﷺ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور اپنی خوش دامن کو خود لحد میں اُتارا۔ اِس موقعے پر حضورﷺ نے فرمایا ’’اے اللہ! تُو جانتا ہے کہ اُمّ ِ رُومانؓ نے تیرے اور تیرے رسولﷺ کی راہ میں کیا کیا مصیبتیں جھیلیں۔‘‘ (الاصابۃ 392/8)۔