• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اُحد کے میدان میں جنگ کا پانسا پلٹ چُکا تھا۔ایک غلطی سے فتح، شکست میں تبدیل ہوگئی تھی۔ شکستہ دل مسلمانوں میں انتشار اور بدنظمی پھیلی ہوئی تھی۔کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے؟ اللہ کے رسولﷺ اپنے مورچے میں کھڑے مسلمانوں کو آوازیں دے کر بُلا رہے تھے۔ زخموں سے چُور قریش سے تعلق رکھنے والے دو صحابہ، حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، نبی کریمﷺ کو اپنے حصار میں لیے شجاعت کی بے مثال تاریخ رقم کررہے تھے۔ 

ایسے میں دشمن کا ایک گروہ موقع غنیمت جان کر آنحضرتﷺ کی جانب لپکا، لیکن اِس سے پہلے کے اُن کی ناپاک تلواریں جسمِ اطہر کو چُھوتیں، ایک تیز دھار چمکتی شمشیر نہایت برق رفتاری کے ساتھ درمیان میں حائل ہو گئی، جس پر کفّار پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگئے، یہاں تک کہ صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت وہاں پہنچ گئی۔ اِس نازک ترین موقعے پر دشمن کے تیروں کی بوچھاڑ کے درمیان بہادری اور دلیری کا یہ لازوال کارنامہ انجام دینے والی جلیل القدر صحابیہ، حضرت اُمّ ِعُمارہؓ بنتِ کعب تھیں۔ اِس جنگ میں اُن کے جسم پر بارہ زخم آئے۔ (سیرت ابنِ اسحاق، اردو ترجمہ، صفحہ480)۔

اُحد کی کہانی، حضرت اُمّ ِ عُمارہؓ کی زبانی

آپؓ فرماتی ہیں کہ’’ مَیں اُحد کے دن صبح ہی سے میدانِ جنگ میں دیگر صحابیاتؓ کے ساتھ مجاہدین کو پانی پلانے میں مصروف تھی۔ شروع میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا، لیکن جب جنگ کا پانسا پلٹا، تو مجھے حضورﷺ کی فکر ہوئی۔ مَیں نے دیکھا کہ آپؐ مورچے کے باہر تنہا کھڑے ہیں، چناں چہ مَیں نے اپنی مشک پھینکی اور میان سے تلوار نکال کر حضورﷺ کی جانب دوڑ پڑی۔ میری شمشیر’’ آبدار‘‘ اپنی وفاداری کے جوہر دِکھانے کو بے قرار تھی۔ مَیں حضورﷺ کے چاروں جانب آگے بڑھ بڑھ کر کفّار پر وار کرکے اُنہیں حضورﷺ کے قریب آنے سے روکتی رہی، لیکن پھر اچانک عبداللہ بن قمیہ نے آپؐ پر وار کردیا۔ 

مَیں نے لپک کر پیچھے سے اُس پر وار کیا، تو وہ واپس پلٹا اور مجھ پر حملہ کردیا، جس سے میری گردن سے گوشت کا ایک ٹکڑا جُدا ہوگیا۔ اِس کے باوجود مَیں نے اُس پر متعدّد وار کیے، لیکن وہ زرہ پہنے ہوئے تھا۔ پھر مَیں نے اُس کے گھوڑے کی ٹانگوں کو نشانہ بنایا اور وہ گھاٹی میں جاگرا۔ اِسی اثنا آنحضرتﷺ کے پاس چند صحابہؓ پہنچ چُکے تھے۔ میرے گہرے زخم سے خون بہہ رہا تھا۔ حضورﷺ نے باآوازِ بلند میرے بیٹے سے فرمایا ’’اے اُمّ ِ عُمارہ کے فرزند! اپنی والدہ کی خبر لو۔‘‘اِس پر بیٹا دوڑتا ہوا میری طرف آیا اور مرہم پٹی کی۔‘‘ (طبقات ابنِ سعد 460/8)۔

جنّت میں حضورﷺ کی رفاقت کی تمنّا

رسول اللہﷺ نے حضرت اُمّ ِ عُمارہؓ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا’’آج اُمّ ِ عُمارہ نے سب بہادروں سے زیادہ بہادری دِکھائی۔ ابنِ قمیہ ان کے خوف سے بھاگ گیا۔‘‘ حضرت عبداللہ بن زیدؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا’’ اُحد کے دن میَں نے اُمّ ِ عُمارہؓ کو اپنے دائیں، بائیں لڑتے ہوئے پایا۔ اللہ تعالیٰ اِس خاندان پر اپنا رحم فرمائے۔‘‘ میری والدہ نے عرض کیا ’’یارسول اللہ ﷺ! دُعا فرما دیجیے کہ ہمیں جنّت میں آپﷺ کی رفاقت نصیب ہو۔‘‘ اِس پر آپﷺ نے دُعا فرمائی’’ اے اللہ! انہیں جنّت میں میرے رفقاء میں شامل فرما دے۔‘‘ اُمّ ِ عُمارہؓ نے کہا’’ اب مجھے دنیا میں کسی بھی مصیبت کی پروا نہیں۔‘‘ (طبقات ابنِ سعد 461/8)۔اُنھیں نبی کریمﷺ سے بے پناہ محبّت تھی۔ 

صلحِ حُدیبیہ کے موقعے پر نبی کریم ﷺ نے حلق(سَر کے بال منڈوانا) کروا کر اپنے موئے مبارک کھجور کے ایک درخت پر رکھ دیے۔ یہ دیکھ کر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اُس درخت کے پاس جمع ہوگئے اور اُن بالوں کے حصول کی کوشش کرنے لگے۔ حضرت اُمّ ِ عُمارہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ’’ مَیں نے بھی اُن میں سے چند بال حاصل کرلیے اور آپ ﷺکے وصال کے بعد جب کوئی بیمار ہوتا، تو مَیں اُن مبارک بالوں کو پانی میں ڈبو کر وہ پانی مریض کو پلاتی، تو اللہ پاک اُسے صحت عطا فرما دیتا۔(مدارج النبوّۃ )

نام و نسب

حضرت اُمّ ِ عُمارہؓکا اصل نام، نسیبہ بنتِ کعب بن عمرو بن عوف بن مبذول بن عمرو بن غنم ہے، لیکن اپنی کنیت، اُمّ ِ عُمارہؓ سے مشہور ہیں۔ ان کا تعلق انصار کے مشہور قبیلے، بنو خزرج کی شاخ، بنو النجار کے خاندان، بنو مازن سے ہے۔ والدہ، رباب بنتِ عبداللہ کا تعلق بھی بنو خزرج سے تھا۔

نکاح اور اولاد

حضرت اُمّ ِ عُمارہؓکا پہلا نکاح چچا زاد،حضرت زید بن عاصمؓ سے ہوا۔ اُن سے دو بیٹے پیدا ہوئے۔ ایک عبداللہ بن زیدؓ اور دوسرے حبیب بن زیدؓ۔ دونوں نبی کریمﷺ کے صحابہؓ میں شامل تھے۔ زید کی وفات کے بعد دوسرا نکاح، حضرت غَزِیّہ بن عَمروؓ سے ہوا۔ وہ بھی بنو النجار سے تعلق رکھتے تھے۔ اُن سے تمیم اور خولہ پیدا ہوئے۔

بیعتِ عقبہ میں شرکت

حضرت اُمّ ِ عُمارہؓ مدینہ منوّرہ میں پیدا ہوئیں۔ یہ اُن دو خوش نصیب خواتین میں سے تھیں، جنہوں نے بیعتِ عقبہ میں شرکت کی اور مکۃ المکرّمہ میں رسول اللہﷺ کے دستِ مبارک پر بیعت کا عظیم شرف حاصل ہوا۔ دوسری خاتون، حضرت اسماءؓ بنت عمرو تھیں۔

صاحب زادہ، پہلا شہیدِ ختمِ نبوّت

یمامہ کے ایک پُرتعیش مکان میں جھوٹی نبوّت کا دعوے دار، مسیلمہ کذاب اپنے خوشامدی مصاحب کے ساتھ براجمان تھا کہ اچانک گردوغبار میں اَٹا ایک خُوب رُو نوجوان اندر آ گیا۔ حلیہ بتا رہا ہے کہ لمبی مسافت طے کرکے آیا ہے۔’’ نوجوان! تم کون ہو؟ اور کہاں سے آئے ہو؟‘‘ مسیلمہ نوجوان کو گھورتے ہوئے مخاطب ہوا۔ ’’مَیں نبی آخر الزّماں، حضرت محمّد مصطفیٰﷺ کا قاصد ہوں۔‘‘ خط پڑھتے ہی مسیلمہ کے مکروہ چہرے پر وحشت ٹپکنے لگی اور اُس نے حکم دیا ’’قاصد کو زنجیروں میں جکڑ کر عقوبت خانے میں ڈال دو۔‘‘ کچھ دن بعد مسیلمہ نے شہر کے کچھ معزّزین جمع کیے۔ زخموں سے چُور نوجوان کو لایا گیا اور پھر وہ بولا’’ نوجوان! کیا تم(حضرت) محمّد(ﷺ) کو اللہ کا نبی مانتے ہو؟‘‘ تشدّد سے زخمی نوجوان نے جواب دیا’’ ہاں! حضرت محمّدﷺ اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔‘‘مسیلمہ نے دوسرا سوال کیا’’ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ مَیں بھی اللہ کا نبی ہوں؟‘‘ 

نوجوان نے جواباً کہا’’ میرے کان تمہاری بات سُننے سے قاصر ہیں۔‘‘ اس جواب نے مسیلمہ کو آگ بگولا کردیا۔ اُس نے جلّاد کو حکم دیا’’ اس کا ایک بازو کاٹ دو‘‘ اور بازو کاٹ دیا گیا۔شقی القلب مسیلمہ نے اپنا سوال دُہرایا، تو پھر وہی جواب ملا۔ دوسرا بازو بھی کاٹ دیا گیا۔ پھر ایک، ایک کرکے دونوں ٹانگیں بھی کاٹ دی گئیں۔ لیکن نوجوان کی زبان ’’حضرت محمّدﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں‘‘ کی گواہی دیتی رہی۔ عزیمت، استقامت، حق پرستی اور شجاعت کی ایمان افروز تاریخ رقم کرنے والے یہ نوجوان قاصد، حضرت اُمّ ِ عُمارہؓ کے لختِ جگر، حضرت حبیب بن زیدؓ تھے، جو ’’پہلے شہیدِ ختمِ نبوّت‘‘ کے عظیم مرتبے پر فائز ہوئے۔ حضرت اُمّ ِ عُمارہؓ کو اُن کی شہادت کی اطلاع دی گئی، تو صبر و استقامت کی پیکر اس عظیم مجاہدہ نے فرمایا’’مَیں نے اسی دن کے لیے اُسے جَنا تھا۔‘‘

جنگِ یمامہ میں شرکت

11ہجری میں خلیفۂ اول، سیّدنا حضرت ابوبکر صدیق ؓنے مسیلمہ کذاب کی سرکوبی کے لیے حضرت خالد بن ولیدؓ کی امارت میں ایک لشکر یمامہ روانہ کیا۔ حضرت اُمّ ِ عُمارہؓ اپنے بیٹے، حضرت عبداللہ بن زیدؓ کے ہم راہ اس لشکر میں شامل تھیں۔ جنگ میں شکست کے آثار دیکھ کر مسیلمہ قلعہ بند ہوگیا، لیکن حضرت براء بن مالک انصاریؓ نے فصیل پھاند کر قلعے کا آہنی دروازہ کھول دیا اور مسلمان فوج اندر داخل ہوگئی۔ حضرت اُمّ ِ عُمارہؓ بپھری شیرنی کی طرح مسیلمہ کو ڈھونڈتی پِھر رہی تھیں۔ 

مسیلمہ بدحواس ہوکر بھاگا، لیکن اُمّ ِ عُمارہؓ کی برچھی اور عبداللہ بن زیدؓ کی تلوار اُسے زخمی کرچُکی تھی۔ اُس نے ایک قریبی باغ میں پناہ لی، جہاں حضرت وحشیؓ نے اُس کا قصّہ تمام کردیا۔ یوں جھوٹی نبوّت کا دعوے دار اپنے سترہ ہزار لوگوں کے ساتھ واصلِ جہنّم ہوا۔ (تاریخِ اسلام 290/1)۔ اِس معرکے میں حضرت اُمّ ِ عُمارہؓ کے جسم پر گیارہ زخم آئے اور وہ اپنے ایک بازو سے بھی محروم ہوگئیں۔ اُس وقت اُن کی عُمر 60سال تھی۔ حضرت خالدؓ بن ولید نے دورانِ جہاد اور مدینہ منوّرہ واپسی پر جس تن دہی کے ساتھ اُن کے کٹے بازو اور زخموں کا علاج کیا، اس سے وہ اِتنی متاثر ہوئیں کہ جب تک حیات رہیں، اُن کی تعریف کرتی رہیں۔

حضرت عُمر فاروقؓ کا خراجِ تحسین

سیّدنا حضرت عُمر فاروقؓ کے پاس ایران سے مالِ غنیمت آیا، جس میں ایک نہایت عمدہ، نفیس اور قیمتی شال بھی تھی۔ بعض لوگوں نے مشورہ دیا کہ یہ بیش قیمت ریشمی شال حضرت عبداللہ بن عُمرؓ کی اہلیہ، صفیہ بنتِ ابی عبیدہؓ کو یا پھر اپنی اہلیہ، اُمّ ِ کلثومؓ بنتِ سیّدنا علیؓ کو تحفتاً دے دیں، لیکن امیرالمومنینؓ نے فرمایا’’یہ چادر میں اُس خاتون کو دوں گا، جو اس کی مستحق ہیں اور وہ ہیں، حضرت اُمّ ِ عُمارہؓ بنتِ کعب۔ مَیں نے رسول اللہﷺ سے خود سُنا کہ’’ غزوۂ اُحد کے دن جب بھی مَیں نے اپنے دائیں، بائیں دیکھا، تو اُمّ ِ عُمارہؓ ہی کو دیکھا۔ وہ میری حفاظت کے لیے ڈھال بنی رہیں۔‘‘ (طبقات ابنِ سعد، 461/8)۔ خلیفۂ وقت صحابہ کرامؓ کے ساتھ خود اُن کے گھر تشریف لے گئے اور اُن کی خدمت میں شال پیش کی۔

دعائے رحمت

مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ، حضرت اُمّ ِ عُمارہؓ کے گھر تشریف لائے۔ کھانے کا وقت تھا، لہٰذا اُنہوں نے کھانا پیش کیا۔ حضورﷺ نے فرمایا’’اُمّ ِ عُمارہؓ! تم بھی کھانے میں شریک ہو جاؤ۔‘‘ اُنہوں نے عرض کیا ’’یارسول اللہﷺ! مَیں روزے سے ہوں۔‘‘ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا’’روزے دار کے پاس اگر کچھ کھایا جائے، تو فرشتے اُس کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں۔‘‘ حضرت سیّدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عُمر فاروقؓ بھی اُن کی مزاج پرسی کے لیے اُن کے گھر تشریف لے جاتے تھے۔

وفات

حضرت اُمّ ِ عُمارہؓ نے غزوۂ اُحد اور جنگِ یمامہ کے علاوہ صلح حدیبیہ، عمرۃ القضاء، فتحِ مکّہ اور جنگِ حنین میں بھی شرکت کی۔ وہ خلیفۂ دوم، سیّدنا حضرت عُمرؓ بن خطاب کے دَورِ خلافت تک حیات تھیں۔تاہم، اُنہوں نے زندگی کے آخری حصّے میں خود کو مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے وقف کردیا تھا اور لوگوں سے کم ہی ملاقات کیا کرتی تھیں۔بعض کتب کے مطابق اُن کی تدفین جنّت البقیع میں ہوئی، تاہم تاریخِ وفات سے متعلق مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔

تازہ ترین