’’پسند کی شادی کرنےکی پاداش میں باپ نےغیرت کے نام پر اکلوتی بیٹی کو زہر دے کر مارڈالا۔‘‘’’ 20 سالہ نوجوان کو بڑےبھائیوں نے غیرت کے نام پرقتل کر دیا۔‘‘’’ غیر مرد سے بات کرتا دیکھ کربھائی کی غیرت جاگ اُٹھی اور اس نے بہن کو جان سے مارڈالا۔ ‘‘
یہ ہمارے 21 ویں صدی کے ’’گلوبل ویلیج معاشرے ‘‘کے چندتلخ حقائق ہیں۔شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو، جب ’’غیرت کے نام پر قتل‘‘ کی کوئی خبر ٹیلی وژن یا اخبارات کی زینت نہ بنتی ہوکہ اب تو ہم اتنے بے حِس ہو چُکے ہیں کہ عزّت، غیرت ، شرم، حمیّت کے نام پر ہونے والی اس درندگی، غیر انسانی رویّوں پر کان بھی نہیں دھرتے۔ کبھی کبھی تو خیال آتا ہے کہ ہمارے ہاں اس چھوٹے سے لفظ، غیرت کی جتنی غلط تشریح کی جاتی اور اسے ڈھال بنا کر جتنا انتشار پھیلایا جاتاہے، اگر غیرت لفظ نہیں،انسان ہوتی، تو شاید غیرت ہی سے ڈوب مرتی۔جانتے ہیں مِن حیث القوم ہمارے لیےافسوس ناک امر کیا ہے،اگر گوگل پر لفظ ’’غیرت‘‘ سرچ کیا جائے، توباقی الفاظ کے بر عکس اس کے معانی و مفہوم کی جگہ غیرت کے نام پر ہونے والی قتل و غارت گری کے واقعات کی تفصیلات سامنے آجا تی ہیں۔ جب سے ہوش سنبھالا ، یہی سُنتے اور دیکھتے آئے ہیںکہ کبھی غیرت کے نام پر بھائی نے بہن کو، تو کبھی شوہر نے بیوی کو، بھائی نے بھائی کو،باپ نے بیٹی کو ، دیور نے بھابھی کو، چچا نے بھتیجی کو تو ماموں نے بھانجی کو قتل کر دیا۔
لیکن ہماری ناقص عقل یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم نے عزّت، غیرت اور حُرمت کے نام پر صرف قتل ، درندگی، قر آن سے شادی، کاروکاری اورغیر انسانی رویّے ہی سیکھے یا اپنائے ہیں؟ آج تک کبھی یہ تونہیں سُنا کہ غیرت مند بھائی نے بہن کی مرضی کے خلاف ہونے والی شادی رُکوادی۔ غیرت مند باپ نے بیٹی کو شرعی اصولوں کے عین مطابق وَراثت میں حصّہ دیا۔ریاست کےظلم و جبر کے خلاف عوام کی غیرت جاگ اُٹھی۔فلاں نےجرم و نا انصافی ہوتے دیکھی،توبے غیرت بنا خاموش نہ رہا۔ غیرت مند حکمران نے الزام لگنے پر خود ہی استعفیٰ دے دیا۔ در اصل حقیقت یہ ہے کہ ہم ابھی تک غیرت کے اصل معنی و مفہوم ہی سے آگاہ نہیں۔غیرت کا اصل مطلب توفرض شناسی ، خودداری ،اپنی ذمّے داریوںسے آگہی ہے۔ بہن کے ہاتھ کی کمائی کھاتے ہوئے تو بھائی کی عزّت نہیں گھٹتی ، مگر وہ اپنی پسند سے شادی کرلے تو پورے خاندان کی عزّت پر بن آتی ہے۔
اسی طرح اگر نا حق کے خلاف کوئی جی دار،معاشرے کے معزّزین کے آگے ڈَٹ جائے تو پوری برادری کی ناک کٹ جاتی ہے۔گویا غیرت نہ ہوئی ،کوئی خوںخوار جانور، بلا یا آدم خور ہوگئی، جس کا پیٹ انسانی خون پیے بنابھرتا ہی نہیں۔ اور ذرا معاشرتی منافقت پر بھی نظر ڈالیے کہ ہمارے ہاں جو لڑکی مَن پسند شادی ، ملازمت کرنا یااعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہے،اُس پر فوراًبولڈ، ماڈرن ، سر پِھری، بگڑی ہوئی کا لیبل لگا دیا جاتا ہے، جب کہ دیکھا جائے تو جس نکاح میں عورت کی رضامندی شامل نہ ہو ،وہ توسِرے سےجائزہی نہیں ہوتا۔ جو لڑکی وَراثتی حقوق سے دست بردار ہو جائے، اُسے نیک، پارسا، شرافت کی دیوی کہہ کر سینے سے لگایا جاتا ہے، لیکن جو اپنے حق کے لیے آواز اُٹھائے وہ بے غیرت، باغی ٹھہرتی ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کرنے والے کو بچانے کے لیے تو پورا خاندان، پورا گاؤں اکٹھا ہوجاتا ہے، لیکن مظلوم کا ساتھ دینے کے لیے کوئی ایک ’’غیرت مند‘‘ آواز نہیں اُٹھاتا۔
رسوم و رواج توکسی بھی معاشرے کا عکس ہوتے ہیں، جن سے معاشرے کے مہذّب یا غیر مہذّب ہونے کا اندازہ لگایا جا تا ہے۔ جب کہ ہمارے ہاں بدقسمتی سے کچھ فرسودہ روایات جیسےکاروکاری، وَنی، غیرت کے نام پر قتل، کم عُمری کی شادیاں وغیرہ اپنی جڑیں اس قدر مضبوط کر چُکی ہیں کہ اُن سے جان چھڑوانامشکل ہی نہیں، ناممکن ہوگیا ہے۔ایک زمانہ تھا، جب باپ، بھائی یا خاندان کی عزّت کے نام پر صرف خواتین ہی کا قتل ہوتا ، لیکن اب تو مَردوں کو بھی نہیں بخشا جارہا۔ گویا، ہمارامعاشرہ ترقّی کرنے کے بجائےمزید پستی میں گرتا جا رہا ہے۔ذرایع کے مطابق پاکستان میں سالانہ پانچ ہزار سے زاید افراد(مرد و زن) غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں، جب کہ رجسٹرڈ کیسز کی تعداد صرف 2300 ہے۔
یاد رکھیں، کسی بھی ترقّی یافتہ معاشرے کی پہچان جدید ترین رہایش گاہوں، گاڑیوں، ایکسیسریز سے نہیں ہوتی، مُلک و قوم اپنی تعلیم و تربیت، تہذیب و تمدّن، وسیع النّظری، افکارو خیالات سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ویسے یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ آج اقوامِ عالم، بالخصوص مغرب ہمیں ’’Honor killing‘‘ یا غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے خوب ہتک کا نشانہ بناتا ہے، لیکن وہی مغرب اپنا ماضی بھولے بیٹھا ہےکہ دنیا کی تاریخ میں سب سے پہلے قدیم رومن سلطنت میں آگسٹاس سیزر نے اخلاقی اقدار برقرار رکھنے کے لیے ایسا قانون متعارف کروایا تھا،جس میں مرد کو اپنی بیوی اور بچّوں کی جانوں پر مکمل اختیار حاصل تھااوراگر کوئی مرد سماجی دباؤ کے نتیجے میں غیرت کے نام پر قتل کرنے سے انکار کردیتا، تو اسے بھی قتل کا حق دار سمجھا جاتا۔اسی طرح یورپ کی تاریخ میں بھی غیرت کے نام پر قتل کے شواہد ملتے ہیں، تواٹلی میں بھی غیرت کے نام پر قتل ہوتے تھے۔
قدیم چینی معاشرے میں بھی غیراخلاقی سرگرمیوں کے نتیجے میں کڑی سزائیں دی گئیں۔ یعنی، غیرت کےنام پر انسانی خون بہانے کی روایت آج کی ہے، نہ اس کی داغ بیل پاکستانیوں نے ڈالی ، مگر دنیا ہماری بات سمجھنےسے اس لیے قاصر ہے کہ ہم اخلاقی لحاظ سے روز بہ روز مزید پستی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ مغرب نے جو کیا، وہ ماضی تھا، لیکن ہمارا تو حال داغ دار ہے۔ گلوبلائزیشن کے اس دَور میں جہاں دنیا انگلیوں کی پوروں میں سمٹ کر رہ گئی ہے ،آئے دن نِت نئی تحقیقات ہو رہی ہیں،خلا تک میں زمینوں کی خرید و فروخت شروع ہو چُکی ہے، نئے نئے سیارے دریافت کیے جا رہے ہیں، اس جدید دَور میں بھی ہمارا معاشرتی نظام اپنی پرانی، گِھسی پٹی، فرسودہ روایات کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ اور یہ حالات پاکستان کے کسی ایک صوبے کے نہیں، ہر صوبے کاحال ایک سا ہے۔ گزشتہ برس جب عالمی وبا کورونا کی وجہ سے پوری دنیا کا نظامِ زندگی معطّل ہو کے رہ گیا، ان حالات میں بھی ہمارے مُلک میں آنر کِلنگ نہیں رُکی۔
صوبۂ سندھ کے دارالحکومت، کراچی کے پوش علاقے کلفٹن میں بھائی نے 'غیرت کے نام پر بہن کو قتل کردیا۔ تفصیلات کے مطابق پولیس نےمرین ڈرائیو کے رہائشی حسنین قمر نامی شخص کو 19 سالہ بہن، نورالہدیٰ کوگولی مار کر ہلاک کرنے کے الزام میں اسلحے کےساتھ گرفتار کیا۔ حسنین نے نام نہاد غیرت کے نام پر بہن کو قتل کرنے کا 'اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ ’’ بہن پڑوسی سے بات کرتی تھی اور مَیں اُسے بات کرنے سےروکتا تھا۔ جب بارہا منع کرنے کے باوجود وہ باز نہ آئی تو مَیں نے مرحوم والد کی پستول سے اسے قتل کر دیا۔ ‘‘
اسی طرح کا ایک واقعہ کراچی کے علاقے منگھوپیر ،غازی گوٹھ میں بھی پیش آیا ، جہاں غیرت کے نام پر بہن اور رشتے دار کو قتل کر دیا گیا ۔اس حوالے سے ترجمان، ضلع ملیر کا کہنا تھا کہ مقتولین نے 2 روز قبل ہی ملیر سٹی کے علاقے میں رہائش اختیار کی تھی۔قبل ازیں ، جولائی میں کراچی کے علاقے ،اورنگی ٹاؤن میں مبیّنہ طور پر 'غیرت کے نام پر نوعُمر لڑکا قتل ، لڑکی زخمی ہوئی۔اسی طرح شمالی وزیرستان میں قابلِ اعتراض ویڈیو منظرِ عام پر آنے کے بعد دو لڑکیوں کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا، بعد ازاں،مرکزی ملزم نے عدالت میں اپنے جرم کا اعتراف کر لیا۔دوسری جانب، بلوچستان کے شہر تربت میں معروف صحافی اور سماجی کارکن ،شاہینہ شاہین بلوچ کو فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق شاہینہ شاہین کو تربت میں قتل کیا گیا، مقتولہ کو تین گولیاں لگیں۔واضح رہے،شاہینہ، بلوچ رسالے دجگہار کی ایڈیٹراورکوئٹہ میں سرکاری ٹیلی وژن پر بلوچی زبان کے ایک پروگرام کی میزبانی بھی کرتی تھیں، انہوں نے کراچی کی ایک مقامی عدالت میں پسند کی شادی کی تھی۔یہی نہیں، سرگودھا،چک 104-ایس بی میں ایک کم سِن لڑکے نے 'غیرت کے نام پر اپنی پھوپھی کو مبینہ طور پر فائرنگ کرکے قتل کردیا۔
رپورٹ کے مطابق، ’’مقتولہ کنول پروین نے 10سال قبل گھر والوں کی رضا مندی کے بغیر شادی کی تھی، بعد ازاں، اہلِ خانہ نے خاتون سے صلح کرلی تھی۔لیکن پھر3 بچّوں کی ماں کو ماموں کے بیٹے کی سال گرہ کی تقریب میں شرکت کے بہانےبلایا گیا اور جب وہ وہاں پہنچی تو اس کے 9سالہ بھتیجے، نجم الحسن عرف وقاص نے پستول سے اس پر فائرنگ کردی، جس سے وہ موقعے ہی پر جاں بحق ہوگئی۔‘‘تفصیلات کے مطابق یہ مقتولہ کے اہلِ خانہ کی ملی بھگت تھی۔پنجاب کے شہر، گجرات میں پسند کرنےکے الزام میں نوجوان لڑکےکو بے دردی سے قتل کرکے لاش نہر میں بہادی گئی، جب کہ لڑکی کو پاگل قرار دے کر نہر میں پھینک دیا گیا۔واضح رہے کہ یہ صرف چند واقعات کی ایک جھلک ہےکہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے تازہ ترین اعداد و شمار کےمطابق 2020ء میں پاکستان میںغیرت کے نام پر 422افراد (مردو خواتین) قتل ہوئے، جب کہ 2019ء میں یہ تعداد 380 تھی۔
’’غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے کس طرح کے کیسز سامنے آتےہیں اوران کا تعلق زیادہ ترکن علاقوں سے ہوتا ہے؟ ‘‘اس حوالےسے عاصمہ جہانگیر لیگل ایڈسیل کی ایگزیکیٹِو ڈائریکٹر، ندا علی کا کہنا ہے کہ ’’سب سے پہلے تو ہمارے معاشرےکو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ چاہے لڑکا ہو یا لڑکی، ہر انسان کو اپنی زندگی ، اپنے حساب سے جینے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنی سوچ اور رویّے کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے مُلک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں قانون موجود ہونے کے باوجود اس پر صحیح معنوں میں عمل در آمد نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں میں سزا کا خوف نہیں، اسی لیے جرائم بھی ہوتے ہیں۔ کورٹ میں کئی کئی سال کیسز چلتے رہتے ہیںاور 100میں سےبمشکل 2 کو سزا ہوتی ہے۔
جب نظام ایسا ہو تو پھر جُرم ختم ہوسکتا ہے ،نہ کم ۔ لیکن 2006ء میں قانون سازی کے بعد سے اب اس حوالے سے کچھ بہتری آنی شروع ہوئی ہے۔ یعنی پہلے اگر کسی کو قتل کیا جاتا تھا، تو مقتول کاوارث قاتل کو معاف کر سکتا تھا، لیکن اب قتل کا مقدّمہ ورثا کے ساتھ ریاست کی مدعیّت میں بھی درج ہوتا ہے۔ یعنی، اگر ورثا معاف کر بھی دیں تو ریاست کی وجہ سے قاتل کو کم از کم دس سال قید کی سزا تو ہوتی ہی ہے۔ علاوہ ازیں، سب کو یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ جرگے، پنچایت وغیرہ غیر قانونی ہیں،اب اُن کے فیصلوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔
جہاں تک بات ہے کہ یہ کیسز کن علاقوں سے زیادہ سامنے آتے ہیں، ہماری لاء فرم تو پنجاب ہی میں کام کرتی ہے، لیکن اندازے کے مطابق یہ واقعات جنوبی پنجاب اور سندھ میں زیادہ ہوتے ہیں۔غیرت کے نام پر خوں ریزی اس لیے ہوتی ہے کہ خاندانوں کو اپنی عزّت، اپنی اولاد سے زیادہ پیاری ہے، انہیں ڈر ہوتا ہے کہ لوگ باتیں بنائیں گے، زمانہ کیا کہے گا، ورنہ جس اولاد کے لیے والدین اتنی مشقّت اُٹھاتے ہیں، مَیں مان ہی نہیں سکتی کہ انہیں قتل کرتے ہوئے ان کے ہاتھ نہیں کانپتے ہوں گے۔مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں نام نہاد عزّت کومعمولی معمولی باتوں، اولاد کی خوشیوں پر مقدّم رکھا جاتا ہے۔‘‘
’’عزّت کے نام پر قتل کے واقعات کی تفتیش میں کس طرح کے مسائل سامنے آتے ہیں ؟‘‘ ہم نے پوچھا تو دس سال سے محکمۂ پولیس میں فرائض سر انجام دینے والی فرض شناس افسر،ایس ایس پی، سینٹرل انویسٹی گیشن، شہلا قریشی نے بات کا آغاز کچھ اس طرح کیا کہ ’’ہم اس فرسودہ معاشرے کا حصّہ ہیں، جہاں لوگ تعلیم یافتہ ہونے کے با وجود بھی عقل و شعور سے بے بہرہ ہیں۔ مَیں اکثر سندھ کےقید خانوں ،ویمن شیلٹر ہومز اور اندرونِ سندھ جیسے کندھ کوٹ، لاڑکانہ، سکھر وغیرہ کا دَورہ کرتی رہتی ہوں، تو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ جن بچّوں کو اپنے گھروں میں ہونا چاہیے تھا، وہ یہاں ریاست کے رحم و کرم پر ہیں۔
ایک مرتبہ مَیں سکھرکے ایک شیلٹر ہوم گئی، تو دیکھا کہ ایک لڑکی زخمی حالت میں تھی۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ بارہ، تیرہ سال کی وہ بچّی پڑوسی کے لڑکے سے کچھ بات کر رہی تھی تو اس کے باپ نے کلہاڑی سے بیٹی اور اُس لڑکے کو قتل کرنے کی کوشش کی ۔ خوش قسمتی سے بچّی بچ گئی ، لیکن لڑکا جاں بحق ہوگیا۔ تب سے وہ شیلٹر ہوم ہی میں ہے۔ ذرا سوچیں کہ بارہ سال کی بچّی ، جس کی گڑیوں سے کھیلنے کی عُمر ہے، اسے عشق، محبّت، شادی وغیرہ کے بارے میں کیا پتا ہوگا، وہ تو یوں ہی پڑوسی کے لڑکے سے بات کر رہی تھی۔اس واقعے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اب صرف لڑکیوں کو نہیں، لڑکوں کو بھی عزّت کی بھینٹ چڑھادیا جاتا ہے، مگر خواتین کے مقابلے میں یہ تناسب اب بھی بہت کم ہے۔ یعنی10:1 کی شرح ہے۔ جہاں تک بات ہے، تفتیش میں پیش آنے والے مسائل کی، توہمیں بے حد مسائل کا سامنا کرناپڑتا ہےکہ لوگوں کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ پولیس ان معاملات میں دخل نہ دے، یہ ان کا گھریلو یا نجی معاملہ ہے۔
علاوہ ازیں، مجھے یہ دیکھ کر انتہائی افسوس ہوتا ہے کہ آج کے ترقّی یافتہ دَور میں بھی ہماری خواتین اور بچّوں کو فرسودہ روایات جیسے، بدلۂ صلح، کارو کاری، قر آن سے شادی کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔بدلۂ صلح سے مراد یہ کہ اگر کسی خاندان یا قبیلے نے کسی دوسرے خاندان یا قبیلے پر کوئی الزام لگایااور وہ ثابت بھی ہوگیا تو صلح کے طور پر ملزم خاندان اپنی لڑکی کی شادی الزام لگانے والے خاندان میں کر دیتا ہے، تاکہ ان کی عزّت قائم رہے اور اس کا خیال کرتے ہوئے خوں ریزی نہ ہو۔ ایسے کیسز میں زیادہ تر کم عُمر (پانچ، چھےبرس)کی بچّیوں کی شادی عُمر رسیدہ (پچاس، ساٹھ سال) مَردوںسے کر دی جاتی ہے۔ اسی طرح جائیداد بچانے کی خاطر گھر کی لڑکی کی شادی قر آن سے کر دی جاتی ہےاور اُسے سفید کپڑے پہنا کر گھر میں رکھا جاتاہے۔ ہمارا معاشرہ ایسے لاتعداد واقعات سے بھرا پڑا ہے،جن کا تدارک بس اُسی صورت ممکن ہے، جب لوگوں میں شعور ہونےکے ساتھ ساتھ قانون اور سزا کا خوف بھی ہو۔‘‘
’’کیاآنر کِلنگ میں ملوّث افراد ذہنی مریض ہوتے ہیںاور ان کا علاج کیسے ممکن ہے؟‘‘ یہ سوال ہم نے سربراہ شعبۂ طبّ ِ نفسیات و علوم ِ روّیہ جات، جناح اسپتال ، پروفیسر ڈاکٹر محمّد اقبال آفریدی سے پوچھاتو ان کا کہنا تھا کہ ’’ایسے واقعات کا بنیادی سبب دین سے دُوری ، فرسودہ سوچ ، نام نہاد ثقافت کی اندھی تقلید اور تربیت میں کمی ہے۔ مثال کے طور پر ہمیں بچپن سے سکھایا جاتا ہے کہ خنزیر کا گوشت کھانا حرام ہے، یہ بات اس حد تک ذہن میں نقش ہوجاتی ہے کہ مسلمان ، بالخصوص پاکستانی مسلمان ،خنزیر کا نام تک لینا گناہ سمجھتےہیں۔ اسی طرح بچّے بچّے کو پتا ہے کہ پڑوسی مُلک بھارت ہمارا دشمن ہے، پھر چاہے دشمنی کی وجہ نہ معلوم ہو، لیکن یہ ادراک ہے کہ وہ ہمیں کسی بھی وقت نقصان پہنچا سکتا ہے۔
لیکن کوئی یہ نہیں سکھاتا کہ انسانی جان کی قدرو قیمت ، اس کے اصل معنی ، مفہوم کیا ہیں ۔ ورنہ جو انسان بلّی کے بچّے کی تکلیف پر تڑپ اُٹھتا ہے، کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنی ہی اولاد ، بہن، بھائی کو محض بے بنیاد الزامات ،عزّت کے نام پر قتل کر دے۔دَر حقیقت ہمارے ہاں جہالت بہت زیادہ ہے، جب تک لوگوں میں شعورو آگہی بیدار نہیں ہوگی، تب تک معاشرہ نہیں سُدھر سکتا۔اس ضمن میں علما کا کردار انتہائی اہم ہے کہ ہمارے ہاں لوگ عالم کی بات زیادہ غور سے سُنتے بھی ہیں اور اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ جہاں تک بات ہے ایسے مریضوں کی ذہنی صحت کی، تو یقیناً یہ لوگ ذہنی طور پر بیمار ہوتے ہیں۔
دماغ کے خلیات کی بے ترتیبی کی وجہ سے بھی ایسا ہوتا ہےکہ انسان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت متاثر ہوجاتی ہے۔ ہمارے پاس ایسے کئی مریض آتے ہیں،جو شروع میں تو ہمیں بھی اپنا دشمن سمجھتے اور گالیاں تک دے رہے ہوتے ہیں، لیکن علاج کے بعد بالکل تن درست ہوجاتے ہیں۔ ہم اُن سے بس یہی کہتے ہیں کہ دین کا مطالعہ کریں، اسلام ہمیں تحمّل مزاجی ، امن کا درس دیتا ہے۔ اور یہی حقیقت بھی ہے کہ اگرنبیﷺ کی ناموس پر جان قربان کرنے سے سرشار عوام نبی کی سیرت پر عمل پیرا ہوجائیں، تو معاشرے سے تمام برائیاں ختم ہوجائیں گی۔ ‘‘