• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی و صوبائی اسمبلیاں کسی بھی مملکت کیلئے اس خاطر تقدیس کا لبادہ اُوڑھے ہوئے ہوتی ہیں کہ یہاں قانو ن سازی ہوتی ہے۔ یہ قانون ہی ہے جوایک ریاست کے باشندوں کے نظم سے عبارت ہے، جو شہریوں کےساتھ ریاستی اداروں کے حقوق وفرائض کا تعین کرتاہے۔جمہوریت کا حُسن یہ ہے کہ ان اداروں کے اراکین چونکہعوام کے ووٹوں سے ان اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں اس لئے یہاں ہونے والی قانون سازی اول و آخر ملک وعوام ہی کی اُمنگوں کے مطابق ہوتی ہے۔جن ممالک میں جمہوریت اُس کی روح کے مطابق نافذ ہےوہاں اگر ایک طرف ایسانظام قائم ہے کہ ان اداروں میں عوامی خواہشات پر ذاتی، گروہی وجماعتی مفاد کو ترجیح دینا اگر ناممکن نہیں توآسان بھی نہیں بلکہ عوامی نمائندے نظام کے بل بوتے پر ایسی تربیت سے آراستہ ہوتے ہیں کہ وہ عوامی خیانت کیلئے کسی جواز کو سامنے نہیں لاتے ۔بنابریں ایسا اگرہوجاتاہے تو ان ممالک کے عوام اپنے شعور کے ہتھیار سے انتخابات میں ایسے اُمیدواروں کو اس قدر عبرتناک انجام سے دوچارکردیتے ہیں کہ آئندہ اس طرح کی خیانت کیلئے دروازہ بند ہوجاتاہے۔گویا جہاں مملکت کی سطح پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام قائم ہوتاہے وہاں عوامی طور پر بھی یہ تواناروایت لئے ہوتاہے۔یہی وجہ ہے کہ ایسے ممالک ترقی کی شاہراہ پر گامزن رہتے ہیں ،ہمارے ہاں چونکہ قیام پاکستان کے فوری بعد اقتدارکی غلام گردشوں میں سازشوں کا کھیل رچاتے ہوئے اختیارات کی جنگ کاآغاز کردیا گیا،اس لئے ہم آج تک مستحکم نظام کیلئےترستے ہی رہے ہیں۔محترمہ مریم اورنگزیب کا کہنا یہ ہے کہ ’’عمران خان (وزیراعظم ) کو اُس وقت پتہ چلے گا جب ٹی وی سے اُنہیں علم ہوگا کہ وہ گھر جاچکے ہیں ‘‘۔یہ بیان جہاں ناپائیدارسسٹم کی غمازی کرتاہے وہاں اس سے سیاستدانوں کی یہ خواہش بھی جھلکتی ہے کہ وہ اقتدار یا کم از کم اپنے حریف کادھڑن تختہ چاہتے ہیں ،خواہ وہ کتنے ہی غیر جمہوری طریقے سے کیوں نہ ہو۔پاکستان کی سیاسی تاریخ ایسی موقع پرستیوں سے بھری پڑی ہے۔مسلم لیگی راہ نما احسن اقبال کے اس بیان کو ہی سامنے رکھ لیں کہ’’ حکومت ڈبلیو ایچ اوسے خیرات میں ملنے والی کورونا ویکسین کے انتظار میں بیٹھی رہی‘‘،گویاہم عطیہ یا خیرات ہی کے انتظار میں رہتے ہیں، یہ امر افسوسناک ہے مگرسچ یہی ہے کہ ہم آج تک قرض او ر عطیات ہی پر گزربسر کررہے ہیں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا: اوپر والا (دینے والا) ہاتھ نیچے والے (لینے والے) ہاتھ سے بہتر ہے(بخاری شریف،جلداول)یعنی جس مملکت کے متعلق کہا جاتاہے کہ یہ شب قدر کی مبارک رات کو اسلام کے نام پر وجود میں آئی اور جسے ’’مدینے کی ریاست‘‘ قراردیاجاتاہے، اُس ریاست کا ہاتھ ملحدوں وغیرمسلموں کے ہاتھ کے نیچے ہے۔

خلاصہ یہ ہےکہ موجود ہ عہد کہن کے ذمہ دار ڈکٹیٹر تو ہیںہی، وہ سیاستدان بھی ہیں جنہو ں نے اس عوام کش نظام پر کاری وارکرنے کے ہر موقع کواپنے ذاتی، گروہی وجماعتی مفاد کیلئے استعمال کیا۔ موجودہ حکومت پر عوام وجمہوریت دشمن الزامات اپنی جگہ، مگر سینیٹ انتخابات میں شو آف ہینڈ کیلئے آئینی ترمیم کا موقف جمہوری نظام کیلئے ایک مثبت پیش رفت ہی قرار پائے گا۔ المیہ مگر یہ ہے کہ پی ڈی ایم ترمیم کے حق میں نہیں،حالانکہ 23فروری 2015کو اُس وقت کےوزیراعظم نوازشریف کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کےا جلاس میں سینٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے نئی آئینی ترمیم لانے کا فیصلہ کیا گیاتھااور 4رکنی کمیٹی بھی تشکیل دیدی گئی تھی تاہم یہ ترمیم نہ ہوسکی، اب جب موجودہ حکومت نے اس ترمیم کا اعلان کیا ہے تو مسلم لیگ سمیت پوری پی ڈی ایم اس کیلئے تیار نہیں۔مبصرین کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ غیریقینی سیاسی صورتحال کی وجہ سے اراکین اسمبلی اپنی وفاداری یہ سوچ کر تبدیل کرسکتے ہیں کہ حکومت کا چونکہکوئی بھروسہ نہیں لہٰذااس موقع کو غنیمت جان کر مال کمالیا جائے۔ایسا ماضی میں باربار ہوتارہاہے۔ ن لیگ کو بالخصوص اپنے موقف کی سچائی کیلئے موقع پرستی سے اجتناب کرناچاہئے۔معروضی حالات میں اس ’’موقع پرستی‘‘ کا سب سے زیادہ خمیازہ ن لیگ ہی بھگت رہی ہے، وہ خواہ چیئرمین سینیٹ کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کا معاملہ ہویا پی ڈی ایم کے استعفوں سے متعلق پیپلزپارٹی کی موقع پرستی کی صورت میں۔ ہوسکتاہے کہ تحریک انصاف کا اعلان دکھاواہی ہو، لیکن کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا کہ جو جماعتیں جمہوریت کا نعرہ لگاتی ہیں اُن کا طرزِ عمل بھی جمہوری ہو جائے۔

تازہ ترین