لوڈ شیڈنگ کی خبر اب روزانہ کی خبر ہے، اس لئے اس پر جتنا لکھا جائے کم ہے، نئی حکومت کے حلف اٹھانے تک کے بارے یہی کہا جا سکتا ہے ”تا تریاق از عراق آوردہ شود مار گزیدہ مردہ شود“ (تریاق لانے تک تو سانپ کا ڈسا مر جائے گا) لوڈ شیڈنگ ایک ایسی ناگن ہے کہ اس جہنم آفرین گرمی میں ہر روز درجنوں جاں بحق ہو رہے ہیں، 118 پر فون کیا تو حوالہ نمبر نوٹ کر کے بات ہی نہ سنی گئی، لوڈ شیڈنگ تو پورے ملک میں ہے مگر پنجاب میں حسبِ معمول یہ حد سے تجاوز کر گئی ہے، جو امیر کبیر لوگ ہیں انہوں نے ساٹھ ستر ہزار کا جنریٹر خرید کر اس دوزخ میں اپنی ڈیڑھ انچ کی جنت بنا لی ہے اور وہ دنیا و ما فیہا بے خبر چین سے سوتے ہیں اور اُن کے خراٹوں کی گونج غریبوں کی بستیوں میں سنائی دیتی، 118 پر مسلسل ٹیپ چلتی ہے کہ بجلی بچانے کے کیا کیا طریقے ہیں مگر لیسکو نے کبھی یہ طریقہ نہیں بتایا کہ غریب علاقوں میں گلی گلی محلہ محلہ جو فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں اور ہیوی مشینری بجلی سے چلائی جاتی ہے اُس سے اتنی ”بچت“ ہوتی ہے کہ عام صارفین کے لئے بجلی ہی نہیں بچتی، اور وولٹیج اتنا گر جاتا ہے کہ فریج تک چلتا نہیں جلتا ہے، کوئی عدالت ہی لیسکو سے پوچھ لے کہ آخر اُس نے غریبوں کے علاقوں میں کس قانون کے تحت فیکٹریوں کو کنکشن دے رکھے ہیں، اور یہ فیکٹریاں پوش علاقوں میں لگانے کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی اس لئے کہ غریب لوگوں کی اکثریت ہی حکومت بناتی ہے اور اُس کے خون پسینے سے گورنمنٹ چلتی ہے، غریبوں سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ ”ہور چوپو“ سنا ہے کہ 12 ارب روپے لوڈ شیڈنگ میں کمی لانے کے لئے دیئے گئے ہیں، کہیں یہ بارہ ارب بارہ مقدس گائیوں میں تقسیم نہ ہو جائے کیونکہ دو روز بیت گئے یہ پیسے دینے کے باوجود لوڈ شیڈنگ میں اضافہ ہوا ہے کمی نہیں آئی۔ بالخصوص صوبائی دارالحکومت میں مرکز کی برکتیں بکثرت پہنچ رہی ہیں، دم تحریر بجلی نہ تھی، تخلیقی پسینے کے قطرے کاغذ پر گرتے رہے، اور قلم شعلے اگلتا رہا، جنہوں نے شوق ذوق سے ووٹ ڈالے اب وہ یہ کہتے پھرتے ہیں
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
خدا نہ کرے کہ باقاعدہ گورنمنٹ آنے کے بعد لوگوں کو یہ شعر یا اُس کا مفہوم نہ دہرانا پڑے۔ نگران حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ شارٹ فال کا مداوا کرے ورنہ گھر جائے تاکہ کچھ تو بجلی بچے، میاں صاحب وڈے کی باتیں ملاقاتیں جاری ہیں، ابھی ہم کچھ نہیں کہہ سکتے بس اس بات سے ڈر لگتا ہے کہ کہیں یہ نہ کہنا پڑے وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔ لوگوں نے ن لیگ کا بڑا ساتھ دیا بس یہ ڈر ہے کہ شاہدہ حسن کا یہ شعر دیواروں پر نہ لکھنا پڑے
سفر میں چھین نہ مجھ سے یقین ہم سفری
دلوں کی راہ میں ہیں مرحلے ہزار ابھی
####
میاں نواز شریف نے کہا ہے کوڑے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شروع کریں گے۔
جب کوئی کئی دنوں کا بھوکا ہو اور کھانے کو کچھ بھی ملنے کی امید نہ ہو تو انسان کوڑا بھی کھا جاتا ہے۔ اور اگر تمام نعمتیں موجود ہوں اور وہ اُن سے استفادہ نہ کرے تو سمجھو کہ وہ اپنی جان کا دشمن ہے، کوڑے پر نظر گئی کوئلے پر نظر نہیں پڑی جو تھرکول میں منتظر ہے کہ کوئی آئے استعمال کرے اور پانچ سو سال کے لئے بجلی کی کمی سے بے نیاز ہو جائے ڈاکٹر مبارک ثمر مند تھرکول میں عرصہ دراز کیمپ لگائے رہے کہ فنڈز ملیں تو وہ کام شروع کر دیں، مگر فنڈز تو پرویز اشرف نے اکاؤنٹینٹ جنرل کو دھمکی دے کر چھین لئے۔ چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں کی تو سمجھ آتی ہے کہ جو تھوڑا بہت ضرورت بھر شکار کیا کھا لیا، اور چین سے اپنے آشیانے میں سو گئی، مگر قارون یا قارونوں کے خزانوں میں تو ملک و قوم کی لوٹی ہوئی دولت کی کمی نہیں۔ پھر بجلی کی کیوں کمی ہے، اب اس کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے کہ جب قوم ہی حساب چکانے کے لئے سنجیدہ نہ ہو اور ایک کے بعد دوسری حکومت سے نکاح کر کے نان نفقہ نہ ملنے پر بھی غلامی اختیار کئے رکھے تو اس کی مدد کون کرے، ایٹمی ٹیکنالوجی سے بے تحاشا سستی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے، چین جیسا دوست ملک بھرپور تعاون کے لئے تیار ہے تو پھر دیر کس بات کی، واپڈا بلوں کی تیاری میں مصروف اسے دلوں کے حال جاننے سے کیا سروکار۔ میاں نواز شریف کے حلف اٹھانے کی دیر ہے پھر آپ کو کہیں کوڑا نظر نہیں آئے گا، اس سے بجلی تیار کی جائے گی، پلید ہی سہی بجلی تو ہو گی، اس منصوبہ کے خدوخال ہی بتا رہے ہیں کہ اس کوڑے میں بھی بجلی نہیں۔ ناک کو سیدھا پکڑنے کے بجائے پیچھے سے ہاتھ لا کر پکڑنے کا منصوبہ ہی سہی، ان دنوں میاں صاحب کی حرکات سکنات اور گفتار ایک عجیب ”سردارانہ“ ذہنیت لئے ہوئے ہے۔ لطف کی بات تو یہ ہے کہ کسی منشور میں کالا باغ ڈیم کا ذکر نہیں۔ فوری طور پر ہنگامی بنیادوں پر چھوٹے چھوٹے ڈیم بنانے کی بات ایک مرتبہ میاں صاحب کے منہ سے نکل گئی تھی، وہ پھر سے سننے کو نہیں ملی اب تو شیر پر ٹھپہ لگانے والے بزبان فیض
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
قوم فکر نہ کرے پاکستان میں پنج سالہ لوٹ مار بازار گرم کرنے والے سے ملاقات مثبت منفی کچھ نتائج تو نکلیں گے، اور جب تک کوڑے سے میاں صاحب بجلی پیدا کریں گے ہم ان کو یہ بتاتے چلیں ساری بجلی غائب رہنے کے بعد جب صبح بجلی آئی تو لوگوں کی پُر مسرت آوازوں کی گونج نے صریر خامہ کو واقعی نوائے سروش بنا دیا مگر ٹھیک پانچ منٹ بعد جب بجلی پھر سے میکے چلی گئی تو ہم کیا سبھی شوہر اداس ہو گئے، بہرحال لوڈ شیڈنگ کا بھی اپنا ہی مزا ہے کہ میاں صاحب کو کوڑے کے ڈھیر پر کھڑا کر دیا، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ بہترین منصوبہ تو یہ ہے کہ دیا کلچر متعارف کرایا جائے اور WAPDA کا P حذف کر دیا جائے، اور واپڈا کا نام واڈا رکھ دیا جائے لوگ کچھ عرصہ تکلیف میں رہیں گے پھر عادی ہو جائیں اور طبقہ امراء کے جنریٹروں کی سریلی آواز سن کر چین کی نیند سوئیں گے۔
####
پیپلز پارٹی کے سنیٹر بابر اعوان نے فرمایا: پی پی کی شکست کے جائزہ کے لئے کمیٹی کی رپورٹ قیامت سے پانچ روز پہلے آئے گی۔
جب کسی کے پاس کہنے کو کچھ نہ رہ جائے تو وہ قیامت کو ضرور یاد کرتا ہے کیونکہ اُس پر قیامت گزر چکی ہوتی ہے، بابر کی جوانی اور شمشاد قد کو یاد کر کے کتنے ہی لوگ غالب کا یہ شعر ضرور پڑھتے ہوں گے کیوں کہ یاد رفتگاں اچھی بات ہے
ترے سرو قامت سے اک قدِ آدم
قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں
ویسے اعوان صاحب کی بات نہ صرف یہ کہ درست ہے کہ مذکورہ رپورٹ اب کبھی منظر عام پر نہیں آئے گی، مگر ان کے یہ ریمارکس اپنی جگہ قیامت ہیں کہ ”نوٹس ملیا تے ککھ نہ ہلیا“ گویا انہوں نے بھی قیامت سے پہلے قیامت بپا کر دی تھی، پیپلز پارٹی میں رہتے ہوئے ان کا پارٹی کے بارے یہ کہنا پارٹی کے مرتدین کے بیانات سے کم نہیں، بابر اعوان کی ذات میں بھی ایک طرح کی لوڈ شیڈنگ جاری ہے، وہ کبھی تو بالکل ڈِم پڑ جاتے ہیں، اور کبھی شعلہٴِ مستعجل بن جاتے ہیں، بابر اعوان مغل نہیں ورنہ وہ بھی عیش کوش ہو جاتے لیکن انہوں نے ساری زرداری کی دی ہوئی محرومیاں گلاب جامن سمجھ کر نگل لیں، اور غالب کے اس شعر نے بھی اپنی جون بدل لی،
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا
اور یہ شعر کی بدلی ہوئی شکل یوں کہ
کتنے شیریں ہیں تیری محرومیوں کے گلاب جامن
پیٹ بھر کے کھا کر بھی بے مزا نہ ہوا
اب تو وقت گزر گیا، دل جس سے زندہ تھا وہ دل ہی مر گیا۔ قیامت سے پانچ دن پہلے کا مطلب اس قیامت کی طرف اشارہ ہے جس کو بھگتنے میں پانچ سال لگے اور خود بابر اعوان بھی اس میں شامل رہے، اگر یہ رپورٹ قیامت سے پانچ روز پہلے نہ آئی تو قیامت کے فوراً بعد ضرور آئے گی، وہ اچھے آدمی ہیں، کیوں کہ آخر آدم کی اولاد ہیں، اور وکیل بھی، لیکن وہ اگرچہ تنو مند ہیں لیکن پھر اُن پر غالب کا کہا صادق آتا ہے #
مضمحل ہوگئے قویٰ غالب
اب عناصر میں اعتدال کہاں
####
گلوکارہ سائرہ نسیم نے کہا ہے: معیاری گلوکاری سے شائقین کو سینما ہالوں تک لایا جا سکتا ہے۔ گلوکاری اگر جاندار ہو تو بلاشبہ لوگ سینما ہالوں کا رخ کر سکتے ہیں، آج ہمارے ہاں سینما ہالوں میں شائقین کی کساد بازاری کی ایک بڑی وجہ ہٹ گانوں کا نہ ہونا بھی ہے، ن دنوں ملکہ ترنم کے مقبول عام گانے فلموں کی زینت بنے، اور لوگ بھی فلمیں ہالوں کی زینت بنتے رہے، اصل وجہ یہ ہے کہ اب ہمارے دھن بنانے والے بھی اُس درجے کے نہ رہے کہ کسی اچھی آواز کو دلکش نغمے میں ڈھال سکیں، یہ جو لڑکے بالے گانے گاتے ہیں ان کی دھن، بول سبھی کچھ اُن کا اپنا ہوتا ہے، اور وہ تک بندی تو نہیں کہتے ہٹ اینڈ ٹرائل سے کام لیتے ہیں، اور سو گانوں میں کوئی ایسا بھی دے جاتے ہیں جو ہٹ ہو جاتا ہے، بھارت میں بھی لگ بھگ یہی حال ہے مگر ابھی ان کے پاس اچھے کمپوزر اور گیت کار و گلو کار موجود ہیں کیونکہ وہ موسیقی کی بنیاد کو نہیں چھوڑتے، جبکہ یہاں ماسوا چند ایک کے باقی سارے ”چندے آفتاب و ماہتاب“ ہیں، راحت فتح علی خان سے پاکستان میں کام نہیں لیا جا رہا جبکہ بھارت اُن سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے، عمران خان بڑے اچھے گائیک ہیں، اگر ان پر تھوڑی سی توجہ دی جائے اور ان کو پاکستانی فلموں میں کھل کر گانے کی دعوت دی جائے تو ان کی آواز میں درد بھی ہے اور طرب بھی، کومل بھی ہے کھرج بھی اور ان کا ایک گیت تو اس قدر ہمارے کلچر کا عکاس اور دلکش ہے کہ سن کر مستی سی چھا جاتی ہے، مثلاً اُن کا یہ گیت زبان زد عام ہو گیا ہے
نی جٹئی اے گڈی ساڈی لے جا
نی دور تینوں لے جاں نی اڑیئے
نی ووٹر تو میری میری میں تیرا
ایمپلی فائر فائر!
البتہ یہ بات اکثر دیکھنے میں آئی ہے کہ ہمارے بیشتر گلوکار ایک گانے کے گائیک ثابت ہوئے ہیں، بس ایک گانا چڑھ جاتا ہے پھر اس کے بعد گانا اور گانے والا دونوں بیٹھ جاتے ہیں۔ اسی طرح راحت فتح علی خان کی کلاسیکی موسیقی میں تربیت ہوئی اسی لئے اُن کے گانے میں سر، اور رسیلا پن موجود ہے
میں تینوں سمجھا واں کی
نہ تیرے باجوں لگدا جی
تو کی جانے پیارا مرا
میں کراں انتظار ترا