• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں بہت حیران ہوتا رہا، اپنے ہندستانی لبرل دوستوں سے یہ سن سن کر کہ آخر کشمیریوں کی آزادی کے نعروں سے مراد کیا ہے؟ جب میں جواباً کہتا کہ اس سے وہی مراد ہے جو برصغیر کے عوام کی انگریزوں کی غلامی سے آزادی کی منشا سے تھی۔ پھر وہ بغلیں جھانکتے رہ جاتے ہیں۔ 

اس کے باوجود کہ تقسیم ہند بہت ہی خون آشام تھی اور زخم ہیں کہ بھرنے کو نہیں آتے، بھارت میں برصغیر کی تقسیم کو ابھی بھی قبول نہیں کیا گیا۔ کشمیر کی آزادی کے نعرے سے ایک اور منی تقسیم کا منظر ابھر آتا ہے اور ہمارے ہاں پاکستان میں چونکہ پارٹیشن سے مملکت خداداد وجود میں آئی تو کشمیر پارٹیشن کے غیر مکمل ایجنڈا کے طور پر ہماری قوم پرستی کا ایک ایسا مدعا بنا جس سے ’’دشمن‘‘ کے خلاف لکیر کو برقرار رکھا جاسکتا تھا۔ 

سیکولر بھارت میں تو قومی تشکیل میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی شراکت داری کہ ’’دو قومی نظریہ‘‘ کی بنیاد پر بٹوارے کی نفی کی گئی ۔

 لیکن اب ہندتوا کے ’’دو قومی نظریہ‘‘ کے معکوس سیکولر اوتار یعنی ہندو قوم پرستانہ لہر کے زمانے میں مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے قومی تشخص سے اخراج کے بعد تو کشمیر کی وادی کے مسلمانوں کی بھارتی یونین میں کوئی اسٹیک باقی نہ بچی۔ 

تو پھر پرانی کالونیل روایت ہی کام آئی اور کشمیر کی جو تاریخی شناخت آئین کے آرٹیکل 370 میں گارنٹی کی گئی تھی اسے 5 اگست 2019ء کو ختم کرتے ہوئے اور 35-A کو ہٹا کر کشمیریوں کی کشمیر میں شہریت کے استحقاق کو بھی ختم کردیا گیا کہ نسلی تطہیر کی جاسکے۔ 

دو قومی ریاستوں کے درمیان کشمیر کے علاقے پر تصادم مذہبی اور قومی شاونسٹ سیاست کا ایسا ایندھن بنا جس میں نہ صرف برصغیر کے لوگ پھنس کر رہ گئے بلکہ مظلوم کشمیری جھلس گئے ۔ 

اب مودی نے جبری الحاق کو غیر قانونی طور پر ہی سہی آئینی صورت دے کر بھارتی مقتدرہ کے کشمیر کے بٹوارے کے پرانے عملیت پسند فارمولے کو حتمی شکل دے کر جموں و کشمیر اور لداخ کو بھارتی صوبوں سے بھی کم یونین ٹیرٹری بنالیا ہے۔ 

جب چین نے اس پر سخت احتجاج کیا تو بھارتی وزیر خارجہ دوڑے دوڑے چین گئے اور یہ وضاحت کی کہ 5 اگست کو انضمام کا دائرہ اندرونی ہے اور اس کا چین کے ساتھ لداخ میں لائن آف ایکچوول کنٹرول یا پاکستان کے ساتھ لائن آف کنٹرول پہ کوئی اطلاق نہیں ہوگا۔ مطلب یہ کہ سابق پر نسلی اسٹیٹ کے جو علاقے اس کے تسلط میں ہیں وہ اس کے اور جو پاکستان اور چین کے پاس ہیں وہ ان کے۔کشمیر کی بندربانٹ کا یہ وہی پرانا فارمولہ ہے جو انڈیا بار بار پس پردہ مذاکرات میں دہراتا آیا ہے۔

کشمیر کے مسئلہ کو شروع ہی سے ہر دو اطراف نے مس ہینڈل کیا۔ پرنسلی اسٹیٹس کے حوالے سے تقسیم ہند کے فارمولے پہ جو پارٹیوں میں اتفاق ہواتھا، اس کی دونوں ریاستوں کے نمائندوں نے خلاف ورزی کی۔ 

اصولی طور پر کشمیر کا الحاق مسلم اکثریت اور علاقائی اتصال کے باعث پاکستان سے کیا جانا تھا۔ چونکہ فیصلہ ریاستوں کے والیوں نے کرنا تھا، اس لئے دونوں نئی مملکتوں کے رہنمائوں نے اس توجیہہ کو اپنے اپنے حق میں استعمال کیا۔ جھگڑا ان ریاستوں میں پیدا ہوا جہاں آبادی کی اکثریت ایک مذہب سے تھی اور حکمران دوسرے مذہب سے۔ 

لہٰذا نوابزادہ لیاقت علی خان نے حیدر آباد دکن، جوناگڑھ اور مناوادر کے مسلمان والیوں کے زور پہ ان ریاستوں کے پاکستان میں انضمام پہ ایسے مصر ہوئے کہ ہندو راجہ کی ریاست کے کشمیری مسلمانوں کی اکثریت ان کی نظر سے اوجھل ہوگئی۔ ان ریاستوں پہ تو بھارت نے قبضہ کرلیا جہاں ہندوئوں کی اکثریت تھی۔ البتہ جس اکثریتی اصول پہ اس نے ان ریاستوں پہ قبضہ کیا، اس اصول کو نہرو نے کشمیر میں توڑ دیا۔ 

اس لئے بھی کہ ایک طرف تو مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت سے الحاق نامے پہ دستخط کردئیے اور دوسری طرف شیرکشمیر شیخ عبدﷲ کی سیکولر نیشنل کانفرنس نے بھارت کے ساتھ کشمیر کی خود مختار حیثیت کے حصول کو پاکستان سے الحاق پر فوقیت دی۔ یوں ایک عمرانی معاہدہ آرٹیکل 370کی صورت میں ہوا جسے نہرو اور شیخ عبدﷲ کے مابین 24 جولائی 1952ء میں تحریری صورت دی گئی۔ 

یہی وہ دور تھا جب ایک مضبوط سیاسی بنیاد پر نہرو نے کشمیر کے تنازعہ کے حل کے لیے اقوام متحدہ سے رجوع کیا اور اس کی سکیورٹی کونسل کی درجن بھر قراردادوں کو آج بھی ہم لہراتے نہیں تھکتے اور یو این کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے پاکستان ان قراردادوں سے بھاگتا رہا کہ اسے پہلے کشمیر جنگ میں فتح کیے ہوئے علاقے خالی کرنا پڑتے اور نیشنل کانفرنس اور کانگریس کو اتحاد کے باعث استصواب رائے میں شکست ہوسکتی تھی ۔ 

لیکن جلد ہی شیخ عبدﷲ اور نہرو میں چپقلش ہوگئی اور 1953ء میں شیخ عبدﷲ نے کشمیر کے تنازعہ کے حل کے لیے بھارت اور پاکستان میں تصفیے کا مطالبہ کردیا۔ شیخ عبدﷲ کو بر طرف کر کے لمبے عرصے تک جیل بھیج دیا گیا اور ان کی جگہ بخشی غلام محمد کی کٹھ پتلی حکومت مسلط کردی گئی اور 1975ء تک دہلی کے نامزد وزرائے اعظم کشمیر پہ مسلط رہے۔ یہی وہ وقت تھا جب پاکستان استصوابِ رائے کا حامی ہوگیا اور بھارت مخالف۔

کشمیر کے مسئلہ کے حل کے کئی مواقع آئے جو ضائع ہوگئے۔ پہلے پہل لارڈ مائونٹ بیٹن نے لاہور کے گورنر ہائوس میں کشمیر پہ نہرو اور پاٹیل کی تجویز پیش کی کہ پاکستان حیدر آباد دکن اور جوناگڑھ پہ دعویٰ ختم کرے اور کشمیر لے لے، جسے لیاقت علی خان نے رد کردیا۔ پھر ایوب خان کے زمانے میں سنجیدہ کوششیں ہوئیں اور بھٹو صاحب نے بھارتی وزیر خارجہ سورن سنگھ سے بات چیت کے چھ رائونڈ کیے جو ناکام رہے۔

اس دوران 1965ء اور 1971ء کی جنگیں ہوئیں اور ہم کشمیر لیتے لیتے مشرقی پاکستان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ پھر شملہ معاہدہ ہوا جس میں شکست کے باوجود بھٹو صاحب کشمیر پہ دو طرفہ مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے کا موقف منوا سکے لیکن جھگڑا ختم نہ ہوا۔ 

اس کے بعد سب سے سنجیدہ کوشش وزیراعظم واجپائی اور وزیراعظم نواز شریف کے مابین ہوئی اور لاہور اعلامیہ جاری ہوا۔ دونوں نے کشمیر کے مسئلے کو ایک سال میں حل کرنے پر اتفاق کیا تھا لیکن پھر کارگل ہوگیا۔ 

جنرل مشرف نے پہلے تو پس پردہ ڈپلومیسی کے ذریعہ واجپائی کی حکومت سے کشمیر پہ بات کرنے کی بجائے کمانڈو ایکشن کرنے کی کوشش میں آگرہ سمٹ کو خود ہی ناکام کردیا لیکن اس سے سیکھ کر در پر دہ ڈپلومیسی بی جے پی اور پھر کانگریس کی حکومت میں کافی آگے بڑھ گئی اور ایک چار نکاتی فارمولے پہ وزیراعظم من موہن سنگھ اور صدر مشرف میں اتفاق ہوگیا۔

 اس سے پہلے کہ اس پر دستخط ہوتے جنرل مشرف کے خلاف کالے کوٹ والوں کی تحریک نے اس موقع پر پانی پھیر دیا۔پھر 2008ء میں ممبئی میں دہشتگردی ہوگئی اور صدر زرداری ایسی کوششوں میں ناکام ہوگئے۔ پھر مودی اچانک جاتی امرا پہنچ گئے اور پھر سے بات شروع ہونے والی تھی کہ پٹھان کوٹ ہوگیا تاہم، معاملہ سنبھال لیا گیا لیکن پھر اُڑی ہوگیا اور اس کے بعد بارہ مولا اور بعدازاں بھارتی ہوائی حملہ۔

اب جو اسٹیٹس کو بنا ہے وہ توڑنا محال ہے لیکن کشمیریوں کی جمہوری مزاحمت جاری ہے۔ بہتر ہوگا کہ کشمیر کو اب ایک انسانی، جمہوری اور حق خود ارادیت کے سوال کے طور پر لیا جائے جس کی تشفی کیے بغیر بھارت بھی جمہوریہ رہنے سے رہا۔ 

بھارت اور پاکستان کے لیے بہتر ہے کہ وہ کشمیریوں کو آزادانہ سانس لینے دیں اور اپنے اپنے عوام کو غربت سے نکالنے پر توجہ دیں۔ 

عمران خان کو داد دئیے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ وہ پہلے وزیراعظم ہیں جن کے منہ سے پہلی بار کشمیریوں کی آزادی کے آپشن کی بات نکلی۔

تازہ ترین