• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عجب کہ جہاں محبت کی سفارت کاری اور اخلاص کی تعلق داری تھی وہاں سے دلوں میں دراڑ کے سندیسے آنے لگے ہیں۔ ڈپلومیٹک راستوں پر صرف معیشت کا راج رہ گیا ہے، وہ چاہت، وہ بلاک اور وہ اُمہ وغیرہ سب قصۂ پارینہ ہوئے۔ تو کیا ہوا؟ پاکستان تو لیڈر رہا ہے، اور ہے بھی! امت مسلمہ میں اکلوتا جوہری توانائی کا حامل۔ بھٹو کی اسلامی سربراہی کونسل کا احوال تو اہلِ بینش کو سب یاد ہے ذرا ذرا۔

وہ بھی یاد ہوگا ہمارے جغرافیائی و نظریاتی چوک ہونے کے سبب روس بھی فریفتہ تھا تو امریکہ بھی ’عاشق‘ اور پھر ہمارے ایٹمی دھماکوں اور نائن الیون نے اس قدر ممتاز کردیا کہ لوگ ہم سے ڈر ڈر کر’ پیار‘ کرنے لگے، بھارت کیا اور کیا روس اور امریکہ سب نے ایک محاذ بنالیا، رُت بدلتی ہے، ہمارہے ہاں 2002 میں پہلے نیم آمریت ہوتی ہے بعدازاں 2008 میں جمہوریت بہترین انتقام اور میثاق جمہوریت کا آفتاب طلوع ہوتا ہے۔ نیا دور اور نئے چیلنجز دہلیز پر تھے، کچھ داخلی تو کچھ خارجی۔ پٹرول اور کوکنگ آئل کی عالمی منڈی میں آسمان سے باتیں کرتی قیمتیں، ڈالر کی فلک بوس اڑان بھی تھی مگر اندرونی طور پر بجلی و گیس کے بلوں کو’’انسانی حقوق‘‘ سے آج کی طرح باہر نہیں نکلنے دیا گیا۔ آئی ایم ایف سے بھی مراسم کو معاشی سائنس کے مطابق رکھا گیا مگر ساتھ ساتھ امریکی تکلفات اور سعودی التفات کے باوجود سی پیک کے آغاز کے راستے ہموار کرنے کو فراموش نہیں کیا گیا۔ بہرحال پرویزی جمال کی ابتدا اور یہ ایک زرداری کمال تھا جس کا اعتراف مخالفینِ زرداری نے بھی کیا۔

دو بڑے لوگوں کی دو مختلف اور دو اہم باتوں کو یاد کرتے ہوئے آگے چلتے ہیں، جان ایف کینیڈی کہا کرتا تھا نامناسب داخلی پالیسیاں صرف شکست دیتی ہیں جبکہ نامناسب خارجی پالیسیاں سبوتاژ کا سبب بنتی ہیں۔ اسی طرح ولیم گلیڈ سٹون کا کہنا ہے کہ خارجی کامرانیوں کا دارومدار موجودہ اچھی حکومت پر منحصر ہوتا ہے۔ وقت گزرتا جاتا ہے، نواز شریف دور میں دھرنوں کے باوجود ترقیاتی پہیہ گھومتا رہا۔ ایک طرف پارلیمانی اپوزیشن پارلیمنٹ میں تھی دوسری طرف عمرانی اپوزیشن پاپولر رنگ و روپ میں کوچہ و بازار میں ، ان دو داخلی مزاحمتوں کے باوجود داخلی ترقیاتی شجر اور سی پیک پیڑ پھلتا اور پھولتا رہا، سعودیہ بھی یار امریکی ہیلو ہائے بھی ثمربار تھی۔ یہاں معاملہ آئیڈیل ہو نہ ہو مگر تسلی بخش بہرحال تھا۔

گویا فارن پالیسی محض ہماری خواہشات و ضروریات یا غم و غصہ سے نتیجہ خیز نہیں ہوتی، حقیقی دنیا کے معاملات و خیالات و درجات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے، اب موصوف وزرائے خارجہ داخلی انجمن میں بیٹھ کر اپوزیشن سے طعنوں کا بازار گرم کئے ہوں گے تو عالمی چیلنجز کا ادراک خاموشی سے سو ہی رہا ہوگا۔ عالمی تعلق داری میں اہداف کا حصول کُھل جا سِم سِم کے مصداق امریکہ و روس کیلئے بھی کبھی نہیں رہا بھلا ہم کیا چیز ہیں؟ چونکہ ہماری قیادت داخلی معاملات میں رعب و دبدبہ کی کنجی سے سب اداروں کے تالے کھول لیتی ہے جو کھل جا سم سم کا ڈیزائن ہے چنانچہ وہ اسی روش کو خارجی امور میں بروئے کار لائے گی تو کچھ بھی ہاتھ نہیں لگے گا۔

اب اس کا کیا کریں ،کہ معروف امریکی ماہر قانون یاد دلاتا ہے کہ عالمی جنگ دوم کے بعد سب سے بڑا عالمی جرم امریکی فارن پالیسی ہے۔ یہ ایک الگ داستان ہے کہ یو ایس اے کی بالادستی بہرحال قائم ہے اور یو ایس ایس آر محض روس رہ گیا۔ یہاں ہنری کسنجر کی بات کو بھی شامل کرتے چلیں ’’جو ملک چاہے کہ فارن پالیسی میں وہ رواداریوں اور اخلاص میں کامل ہو جائے تو اس تلاش میں وہ اکمل ہوگا نہ فاضل، اور نہ سیکورٹی ہی رہے گی! ‘‘

بھارت کی ہمارے خلاف مقبوضہ کشمیر سے لے کر اقوام متحدہ و ایران و افغانستان تک مکارانہ پالیسیاں رہیں، کہیں سفارت خانوں میں را اور کہیں را اور موساد کا سنگم وہ بھی سفارتکاری کے پلیٹ فارم پر۔ سعودیہ اور متحدہ ارب امارات تک بھارت اپنی اقتصادی صلاحیت و طاقت اور افرادی قوت کی بدولت پہنچا۔ یہ سب ہمارے لئے خارجی و اقتصادی تناظر میں اچھا نہیں ہے۔ اب اس ضمن میں۔ پاکستان کو کیا کرنا ہے سب جانتے ہیں مگر یہ سب عملی جامہ پہنانے سے دور ہیں۔ کون پہنائے گا؟ ظاہر ہے، پاکستانی خارجہ امور کے ماہرین اور حکومت عملی جامہ پہنائیں گے۔ وزیر کا علاقہ ٹیکنوکریٹس اور بیوروکریٹس ایک بارات بھی ہے امور خارجہ میں۔ کہیں قیادت، کہیں ٹیکنوکریٹ اور کہیں بیوروکریٹ کو کمال دکھانا ہے یہ ایک پورا زنجیری عمل ہے مگر کہاں ہے؟ آج ایک دوست سے قرض لیتے ہیں اور دوسرے جگری دوست کا قرض اتارتے ہیں۔ چین اور سعودیہ کے ساتھ اس طرح کا مجبوری پر مبنی لین دین بہت سوال چھوڑتا ہے سربراہ حکومت اور سربراہ امور خارجہ پر۔ کیا ایسی ناکامی ہی کی وجہ سے ماضی میں پیپلزپارٹی کو شاہ محمود قریشی کی جگہ حنا ربانی کھر کو دینی پڑی؟ حالانکہ قریشی صاحب نے پی پی پی ہی نہ چھوڑی بلکہ پیپلزپارٹی مخالف عنصر ہو گئے۔ انہیں چاہئے تو یہ کہ وہ ماضی کا سفارتی دھونا دھو دیں نہ کہ ماضی اور حال میں ان کا یکساں امیج ہی ابھرے۔ اگر حکومت سفارتی معاملات میں مودی سے سعودیہ تک اور یو اے ای سے یو این اے تک زرداری و شریف مخالفت میں الجھی رہی یعنی خارجی کو بھی داخلی الجھنوں کی طرح لیتے رہے تو اتنے برسوں میں ہم نے سقوطِ ڈھاکہ سے کیا سیکھا ؟ یہ جوجسٹس قاضی فائز عیسٰی شہادت دے رہے ہیں کہ میڈیا آزاد نہیں صرف اسے ہی نہیں بلکہ اس پر بھی غور کرنا ہے کہ پاکستانی میڈیا کو بین الاقوامی سطح پر کیسے موثر بنایا جائے کہ کشمیریت کا ادراک عالمی برادری کو بھی ہو (اپنوں کو بھی) اجی اپوزیشن کے استعفوں اور لانگ مارچوں کے بھی عالمی اثرات ہوتے ہیں سو وزارتِ خارجہ اِسے بھی سمجھے۔

المختصر، پاکستان فارن پالیسی میں روایتی رواداریوں و اخلاص کو ضرور رکھے مگر آئین پسندی، ریسرچ، معیشت اور داخلیت میں بھی اکمل ہوگا، تو سیکورٹی اور ترقی قدم چومیں گے! بہرحال سفارت کاری کو سیاسی عشق سے دور رکھنا ضروری ہے!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین