• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطنِ عزیز میں نظام اِس قدر خراب ہو چکا ہے کہ یہاں جائز کام کروانا سب سے مشکل کام ہے۔ میرے ایک دوست کا پنجاب میں کام تھا۔ اُس نے مجھے کہا کہ آپ وزیراعظم سے کہلوائیں گے تو یہ کام ہوگا ورنہ نہیں ہوگا۔ میں نے حامی بھر لی اور صرف اتنا پوچھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کو کہلوانے سے کام ہو جائے گا؟ دوست نے کہا نہیں، وزیراعظم پرنسپل سیکرٹری کو کہیں یا پھر چیف سیکرٹری پنجاب کو۔

خیر میں وزیراعظم کے پاس گیا۔ اُن کی مہربانی ہے کہ وہ میرے ساتھ ملاقات میں کسی کو نہیں بٹھاتے، حتیٰ کہ کسی اسٹاف ممبر کو بھی نہیں بیٹھنے دیتے۔ گفتگو شروع ہوئی، زیادہ تر گفتگو بین الاقوامی امور پر ہوئی، اندرون ملک درپیش معاملات پر باتوں کا آغاز ہوا تو میں نے عرض کیا کہ آپ کی حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ عملدرآمد کا ہے، آپ احکامات صادر فرماتے ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا، عملدرآمد کے لئے ایک سخت گیر بندہ چاہئے، وہ سخت گیر آدمی آپ کے آفس میں نہیں ہے۔

اسی دوران مجھے اپنے دوست کا کام یاد آ گیا تو میں نے وزیراعظم سے کہا کہ اعظم خان کو بلوائیں۔ جواباً وزیراعظم نے کہا کہ ’’آپ بات بتائیں‘‘، میں نے دوست کا کام بتایا اور کہا کہ آپ چیف سیکرٹری پنجاب کو کہہ دیں۔

وزیراعظم نے صرف ایک بار پوچھا ’’کام جائز ہے نا؟‘‘ میں نے عرض کیا، ہاں بالکل جائز ہے۔ باتوں کا سلسلہ طویل ہوا تو اچانک ایم ایس اندر آیا اور کہنے لگا کہ ’’فلاں فلاں ملاقات کے منتظر بیٹھے ہیں‘‘، میں نے بھی سوچا کہ جب ایک صوبے کا گورنر، دو وفاقی وزیر اور ایک مشیر اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں تو مجھے جانا ہی چاہئے۔ وزیراعظم کے آفس سے نکل کر کوہسار آنے تک میرے فون پر پیغام آیا، پیغام تو خیر انگریزی میں تھا مگر میں یہاں اردو میں لکھ دیتا ہوں ’’آپ جب چاہیں لاہور آ جائیں، اعظم‘‘۔

یہ میجر اعظم سلمان کا پیغام تھا۔ میں نے دوست سے رابطہ کیا، وہ کراچی میں تھا پھر کورونا نازل ہو گیا، اسمارٹ لاک ڈائون شروع ہو گیا، دو مہینے گزر گئے، اِس دوران چیف سیکرٹری کا تبادلہ ہو گیا۔ یوں سفارش بےکار گئی۔

موجودہ حکومت کے دور میں کسی کا بھی تبادلہ کوئی انہونی بات نہیں۔ خاص کر ملک کے سب سے بڑے صوبے میں تبادلہ بائیں ہاتھ کا کھیل بن کر رہ گیا ہے۔ پنجاب کے بزداری عہد میں کئی چیف سیکرٹری بدلے گئے، کئی آئی جی آزمائے گئے مگر اصل خرابی کو دور نہ کیا گیا، پنجاب میں کام کرنے والے باقی افسران کو بھی پتہ نہیں ہوتا کہ ضلع میں ان کا آخری دن ہے یا آخری ہفتہ۔ وزیراعظم اکثر ساٹھ کی دہائی کی بیوروکریسی کی مثالیں دیتے ہیں مگر کبھی انہوں نے پنجاب کی بیوروکریسی کی بےبسی کا عالم نہیں دیکھا کہ کس طرح وزیراعلیٰ کا آفس افسران کو ٹکنے نہیں دیتا۔

اِس پالیسی نے بیوروکریسی میں عجیب بےچینی پیدا کر رکھی ہے۔ مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت میں پنجاب میں ون مین شو تھا مگر اب ملک کے سب سے بڑے صوبے کی حکومت کئی لوگ چلا رہے ہیں۔

اب چیف سیکرٹری، آئی جی اور محکموں کے سربراہوں کا کردار محدود کر دیا گیا ہے، تقرر و تبادلے بالا بالا ہی ہو رہے ہیں۔ اب کوئی بھی افسر اپنا دورانیہ پورا نہیں کر پاتا، دو تین ماہ بعد ہی اس کا تبادلہ کر دیا جاتا ہے۔ گویا عدم استحکام کی کیفیت ہے۔

ایک زمانے میں جب محمود کھوسہ چیف سیکرٹری پنجاب تھے، افسران کو دورانیہ مکمل کروایا جاتا تھا، کسی افسر کو بلاوجہ تبدیل نہیں کیا جاتا تھا، فیلڈ افسران بھی اپنا وقت پورا کرتے تھے، سیاسی بنیادوں پر تبادلے نہیں ہوتے تھے مگر اب صورتحال یکسر تبدیل ہے۔ ایوانِ وزیراعلیٰ سے ایک فون کال، اگلے لمحے افسر او ایس ڈی بنا دیا جاتا ہے۔ اب اراکینِ اسمبلی کی سفارشوں پر افسران لگائے اور ہٹائے جا رہے ہیں۔

چند روز قبل جھنگ کے ڈپٹی کمشنر محمد طاہر وٹو کو ایک ایم این اے غلام بی بی بھروانہ کے کہنے پر ہٹا دیا گیا۔ اراکینِ اسمبلی افسران کو ناجائز کاموں کا کہتے ہیں، ناجائز کام نہ کرنے پر ہٹا دیا جاتا ہے۔ اراکین کی بات تو سنی جاتی ہو گی مگر افسران کی کوئی نہیں سنتا۔

افسران اذیت کا شکار ہیں۔ مہنگائی کے دور میں آئے روز کے تبادلوں سے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ بار بار تبادلوں سے افسران تو تنگ ہوتے ہی ہیں، انہیں اپنے بچوں کے تعلیمی ادارے بھی بار بار تبدیل کروانا پڑتے ہیں، شفٹنگ کے اخراجات کا بوجھ علیحدہ، پنجاب حکومت کے اس عمل کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، عوام میں بےچینی بڑھتی جا رہی ہے۔

سیاسی لوگ کمائی کی دکانیں بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں، بعض تو اپنے ٹائوٹوں کے ذریعے افسران پر دبائو ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تازہ خبر گرم ہے کہ لیہ، مظفر گڑھ، حافظ آباد، ننکانہ اور پاکپتن کے ڈپٹی کمشنرز تبدیل کئے جا رہے ہیں۔ اویس ملک، رانا شکیل، عاصم جاوید، نعمان یوسف اور شوزب سعید پوسٹنگ کے لئے تیار ہیں۔ خیال رہے کہ میڈیا کے متحرک ہونے کے بعد سیاسی دبائو میں کام کرنا افسران کے لئے مشکل ہو گیا ہے۔ سوشل میڈیا تو معمولی باتوں کو بھی اچھال دیتا ہے، میڈیا کی بےباکی، سیاسی دبائو اور عدالتی کارروائیاں، بیوروکریسی جائے تو کہاں جائے؟ سیاسی دبائو کا تازہ شکار اوکاڑہ کے ڈپٹی کمشنر عامر عتیق ہیں۔ عامر عتیق کی دیانتداری اور اصول پسندی کا چرچا کچھ سال پہلے ہی ہو گیا تھا جب پچھلی حکومت کے دور میں ایک سیاسی خانوادے نے ان پر یہ پریشر ڈالا کہ نوہزار ایکڑ زمین ان کے نام کر دی جائے۔ اس ایماندار افسر نے انکار کیا تو دیانتداری کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ ایک اصول پسند افسر کو پانچ سال گھر بیٹھنا پڑا۔

اب پھر عامر عتیق کی دیانتداری اور اصول پسندی سیاسی دبائو کے سامنے کھڑی ہے۔ ادھر پنجاب حکومت کا یہ عالم ہے کہ جیسے سیاست دان الیکشن پر پیسہ لگاتے ہیں مبینہ طور پر ایسے ہی افسران پوسٹنگ کے لئے پیسہ خرچ کر رہے ہیں۔ بیوروکریسی کی بےبسی پر محسن نقوی کا شعر یاد آتا ہے کہ؎

دکھ ہی ایسا تھا کہ محسنؔ ہوا گم سم ورنہ

غم چھپا کر اسے ہنستے ہوئے اکثر دیکھا

تازہ ترین