• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احتجاج، دھرنے، ہڑتال، بائیکاٹ آخر کس لئے اور کس کے خلاف؟

احتجاج، دھرنے، ہڑتال، بائیکاٹ آخر کس لئے اور کس کے خلاف؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات سمجھ میں نہیں آرہے۔ کیا یہ سب کچھ کسی "تعمیری مقاصد" کے حصول کے لئے ہوتے ہیں یا یہ "تخریبی مقاصد" کے لئے ہوتے ہیں۔ ہمارا ملک ابھی تک ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں شمار ہوتا ہے ۔جہاں معاشی، سیاسی اور سماجی مسائل بے شمار ہیں۔ اب یہ آئے دن کے دھرنے، احتجاجی تحریکیں مزید مسائل میں اضافہ کا سبب بن رہی ہیں۔ سونے پہ سہاگہ کورونا نے پوری دنیا کی معیشت کو اپنی لپیٹ میں لے کر رکھا ہے ایسے میں یہ احتجاج اور دھرنے ملک میں سماجی ناسور پھیلانے کا کام کررہے ہیں۔ یہ معاشرے کے ہر شعبے میں عام ہوتا جارہا ہے۔ چاہے وہ اہم شعبہ ہو یا کم اہم شعبہ، کوئی بھی اس سے بچا ہوا نہیں ہے۔ سب سے پہلے بات کرتے ہیں پارلیمان یعنی قانون ساز ادارے کی جہاں ہر وقت اختلاف کے نام پر بھرپور احتجاج ہوتا رہتا ہے، لیکن پھر بھی ہر "چیز" منظور ہوجاتی ہے۔ یہ احتجاج میڈیا کوریج تو حاصل کر لیتے ہیں، ٹاک شوز کے ٹاپکس تو بنتے ہیں۔ لیکن ان کا حاصل ( end result ) کبھی کچھ نہیں ہوتا۔ عموما کچھ احتجاج کس خاص توجہ طلب مسئلہ پر عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے کئے جاتے ہیں۔ ایسے میں بہت سے فیصلے اور امور انتہائی خاموشی سے انجام دے دیئے جاتے ہیں۔ اسی طرح کچھ عرصہ پہلے کورٹ نے بلند عمارتوں (high rise buildings ) کی تعمیر پر پابندی لگائی۔ کیونکہ صرف گھر تعمیر کرنا نہیں ہوتا اس کے ساتھ بنیادی ڈھانچے ( infrastructure ) کی فراہمی سب سے اہم ہے، جس میں بجلی، گیس، پانی، صاف اور گندے پانی کی نکاسی (sewrage system)، سڑکوں اور کار پارکنگ کی سہولیات کی فراہمی شامل ہیں۔ لیکن تعمیرات کو جب چھ منزل تک محدود کیا گیا تو شہر کی "اہم سڑک" کو "چند افراد" نے بلاک کرکے احتجاج کیا جسکی زبردست میڈیا کوریج ہوئی اور پھر اس فیصلہ پر نظرثانی کی گئی۔ یوں کئی منزلہ عمارتوں کی تعمیر زور پکڑ گئی اور ساتھ ہی ساتھ اس سے ہونے والے عوامی مشکلات میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ لیکن عوام کو بحیثیت قوم اپنے مسائل کے حل کے لیے احتجاج کرنا نہیں آتا۔اسی لیے مسائل کھڑے کرنے والے لیے "راوی چین لکھ" رہا ہے۔۔۔۔۔ یوٹیلٹی اسٹورز جس کا مقصد غریب عوام کو سستی اشیاء خوردونوش فراہم کرنا تھا دوکانداروں کا آلہءکاربن کر بن گیا ہے۔ جب اس "سفید ہاتھی" کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے نجی کاری کرنے کا ایکشن لیا گیا تو ایسا زبردست دھرنا اور احتجاج کیا گیا کہ جس میں یہ تاثر دیا گیا کہ یوٹیلٹی اسٹورز کے ملازمین کو کسی سازش کے تحت بےروزگار کیا جارہا ہے۔ یوں ان یوٹیلٹی اسٹورز کی کاردگی کو ایک طرف رکھتے ہوئے انسانی حقوق کی بنیاد پر اسے نجکاری کرنے والی فہرست سے نکال دیا گیا۔ لیکن غریب لوگوں کو "سبسڈی کی بنیاد پر کم قیمت" پر اشیاء ضروریات زندگی کی فراہمی ممکن نہ ہوسکی۔اب ذرا سب سے اہم شعبہ "تعلیم" کی بات ہوجائے۔ جہاں اب احتجاج ادھرنے عام ہوتے جارہے ہیں۔ خاص طور پر یونیورسٹی کے لیول پر۔ کورونا میں انسانوں کے بیمار ہونے اور لقمہ اجل بن جانے کے امکانات بہت بڑھ گئے ہیں۔ لیکن یہ بات کہیں ذکر نہیں ہوئی کہ انسانی دماغ پر اس کے کوئی اثرات مرتب ہوئے ہیں یا سٹوڈنٹس کے کتاب پڑھنے سےکوئی صحت کا مسئلہ پیدا ہوا ہے ۔ پوری دنیا میں ہر جگہہ تعلیم آن لائن (virtual) ہورہی ہے اور امتحانات بھی لئے جارہے ہیں لیکن کہیں بھی امتحانات سے پہلے اسٹوڈنٹس احتجاج کرتے نظر نہیں آئے لیکن ہمارے ہاں بھی یہ شعبہ محفوظ نہ رہ سکا۔ اسٹوڈنٹس کی طرف سے یہ احتجاج اور دھرنا کہ چونکہ پڑھایا آن لائن کلاسوں کے ذریعے پے اسی لئے امتحانات بھی آن لائن ہونا چاہئے ۔ چلیں اگر ان کی بات کو مان بھی لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان آن لائن امتحانات دینے کی خواہش کی پیچھے کیا مقصد کارفرما ہے۔ کیا انہیں آن لائن کلاسوں کے ذریعے لیکچرز سمجھ نہیں آئے یا انھوں نے سمجھنا نہیں چاہا؟ کیونکہ یہاں مسئلہ دونوں ( اساتذہ اور طلبہ ) کی نیت کوجانچنا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ یونیورسٹی کی سطح پہ استاد بطور کورس انچارج اپنی ذمہ داری ادا کرتا ہے۔ وہ کورس کا مواد فراہم کردیتا ہے۔ جس میں کتابوں کی فراہمی، کورس آوٹ لائنز شامل ہوتے ہیں۔ ایسے میں کچھ ذمہ داری اسٹوڈنٹس کی بھی ہے یا نہیں؟ یا وہ اب یونیورسٹی انتظامیہ کے Clients ہیں؟ جنہیں ہر حال میں مطمئین کرنا یونیورسٹی انتظامیہ کی "اہم ذمہ داری" ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے طلبہ کورونا کا بہانا بنا پڑھائی سے منہ موڑنا ہے۔ ذرا غور کیجئے بغیر پڑھے اور سمجھے یہ یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس ڈگری لیکر مارکیٹ میں نوکری تلاش کرنے جائیں گے تو انہیں کہاں نوکری ملے گی اور اگر مل بھی گئی تو ان کی کاردگی کیا ہوگی؟لیکن دھرنا ،احتجاج اور بائیکاٹ ہر "غلط قدم کو درست قرار" دینے کا واحد ذریعہ ہے۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین