• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مقصود کا یہ سوال مجھے تڑپا گیا کہ آپ کے گھر میں اگر بجلی نہ ہو توآپ جنریٹرز چلا لیتے ہوں گے۔ ذرا سوچیے ہمارے بارے میں کہ دن بھر دھوپ میں 12 گھنٹے ڈیوٹی کر کے جب ہم گھر جاتے ہیں تو ساری رات بغیر بجلی کے تڑپتے گزرتی ہے۔ صورتحال ہے بھی کچھ ایسے ہی، واقعی میں مقصود جیسے لوگوں کے تڑپنے کو صحیح طور پر محسوس نہیں کر سکتا۔ مقصود ہمارے دفتر میں ڈرائیور ہے، سارا دن رپورٹرز کو فیلڈ میں رپورٹنگ پر لے جانے کے دوران اگر اسے کچھ گھنٹے فرصت کے ملتے ہیں تو اسے تپتی دوپہروں میں درخت کے نیچے بیٹھ کر گزارنے پڑتے ہیں۔ فیلڈ میں جب رپورٹر کسی کا انٹرویو کرنے چلے جائیں تو اسے باہر گاڑی میں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ میں نے مقصود سے پوچھا کہ تم کس طرح کے گھر میں رہتے ہو، کہنے لگا، دو کمروں کے گھر میں اپنی بیوی، تین بچوں اور والدین کے ساتھ رہتا ہوں۔ ان کے گھر میں لوڈشیڈنگ کا کوئی شیڈول نہیں ہے، لیکن 18 گھنٹے تو بجلی ہر صورت میں نہیں ملتی۔ رات کو تپتے بستروں میں بغیر بتی کے کس کرب میں گزرتے ہیں اس کا بقول اس کا اندازہ شاید نواز شریف، زرداری، عمران خان کو نہیں۔ میں خود جیساکہ پہلے لکھ چکا کہ اس کرب کااندازہ نہیں لگا سکتا۔ میں تو صرف اخبارات کے سروے اور مختلف اکانومسٹ حضرات کے دیئے ہوئے اعداد و شمار کو پڑھ کر یہ امید لگا سکتا ہوں کہ اگر 3 بلین روپے روزانہ دیئے جائیں تو شاید لوڈ شیڈنگ کچھ کم ہو سکے۔ لیکن یہ تین بلین آئیں گے کہاں سے؟ اس کا جواب تو شاید نواز شریف صاحب کے پاس بھی نہ ہو، انہوں نے اپنے بڑے ووٹ بنک سے یہ وعدہ تو کر لیا کہ وہ دو برس میں اس ملک کو لوڈ شیڈنگ سے نجات دلا دیں گے لیکن اب جب عنان حکومت ان کے ہاتھ آیا ہی چاہتی ہے شاید ان کے ہاتھ پاؤں یہ سوچ کر پھولنے لگے ہیں کہ 3 ارب روپے روز صرف بجلی کی مد میں دینے کے لئے آئیں گے کہاں سے؟ انہوں نے اگرچہ یہ بتا دیا کہ سرکلر ڈیٹ سے بچنے کے لئے اس وقت فوری طور پر 500 ارب روپے دینے کی ضرورت ہے لیکن اس سے جو انتظام ہو گا وہ بھی سراسر عارضی ہو گا۔ صورتحال ہماری کچھ اس طرح ہے کہ اس وقت ہمیں چار پاور پلانٹس کے ٹرپ ہو جانے کی وجہ سے 1377میگاواٹ بجلی کا اضافی شارٹ فال برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ گدو، اْچ، حبیب اللہ اور اینگرو کے پلانٹس کے ٹرپ ہو جانے کی وجہ سے ہے۔ اس کے علاوہ اس وقت آئی پی پیز کے پلانٹس سے 7687 میگاواٹ والے پلانٹس ہمیں صرف 5024میگاواٹ بجلی دے رہے ہیں اور تھرمل طریقے سے پیدا ہونے والی بجلی بھی ہمیں 3580 کے بجائے صرف 1305 میگاواٹ مل رہی ہے۔ یہ تمام ہماری ضرورت سے کہیں کم ہے، گرمیوں میں جب ہمارا ٹمپریچر بڑھ کر 47 ڈگری سینٹی گریڈ پر جا پہنچا تو ہماری ضرورت بھی کہیں بڑھ گئی ہے۔ لاہور اس وقت باقی پاکستان کی طرح ابل رہا ہے، اس مئی میں لاہور میں گرمی کے تیس سالہ ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بجلی کی کمی کے بھی۔ ا یسے میں جب ہماری تمام تر توجہ انرجی کے بحران کو حل کرنے کی طرف ہونی چاہئے تھی ہم راجہ رینٹل جیسے لوگوں کے ہتھے چڑھ گئے جنہوں نے اس بحران سے شاید اپنے لئے کمیشنوں کے تو ڈھیر لگا دیئے لیکن مسئلے کے حل کے لئے کچھ نہ کیا۔ ایسے میں جب ہر سطح پر ہمیں صاف شفاف نظام چاہیے۔ ہمیں بجلی پیدا کرنے والے ا داروں سے لے کر ان کی ڈسٹری بیوشن کرنے والے اداروں میں اوپر سے نیچے تک راشی اور بدنظم افسران کی بہتات نظر آتی ہے۔ یہ راشی افسران شہری علاقوں میں رشوت کی بدولت لوڈشیڈنگ کے نظام کو صحیح طور پر نہیں چلاتے۔ سرکلر ڈیٹ جیسا عفریت جو ہمیں ہر آن ڈسنے کو بیٹھا ہے، کسی طور حل ہونے میں نہیں آتا۔ اگر آج 500 ارب دے بھی دیئے جائیں تو لوڈشیڈنگ صرف چند دن کے لئے روکنے کا انتظام ہو پائے گا۔ چند دن بعد یہ جن پھر سامنے آن کھڑا ہو گا۔ LESCO جیسے ادارے بجلی کی چوری نہیں روک سکیں گے، بل وصول نہیں ہوں گے اور آخر کار سارا بوجھ یا تو ان چند صارفین پر پڑے گا جو بل باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں اور یا حکومت پر۔ بل دینے والے لوگ بل دینے کے باوجود کس عذاب کا شکار ہیں، یہ مجھے گلبرگ کے علاقے سے بلال کے ایک خط سے پتہ چلا، وہ فرماتے ہیں کہ ان کے گھر کے باہر کھمبے پر ایک پرندوں کا گھونسلہ تھا جس میں رات گئے آگ بھڑک اٹھی، اس آگ نے 12گھروں کے کنکشن والی تار کو جلا دیا۔ فوری طور پر لوکل LESCO کے دفتر اطلاع دی گئی، جب 5 گھنٹے کے بعد عملہ انسپکشن کے لئے آیا تو یہ کہہ کر چلا گیا کہ ان کے پاس فی الحال اسے ٹھیک کرنے کے انتظام نہیں ہے۔ ساری رات ان 12 گھروں نے تڑپ کر گزاری، ا گلی صبح جب یہ دفتر پہنچے تو بجلی والوں نے بتایا کہ افسران کی مرضی کے بغیر Rapid سروس والے بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ افسران سے رابطے کرنے پر پتا چلا کہ سب نے اپنے فون بند کر رکھے ہیں۔ ا علی افسر جاوید آزاد سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ موصوف سرکاری دورے پر چائنا میں ہیں۔ ایسے میں دوپہر ہو گئی، 12بجے کے قریب لائن سپرنٹنڈنٹ صاحب تشریف لائے، انہوں نے عملے کو اضافی تار وغیرہ دی اور یوں ان گھروں کی بتی 3 بجے کے قریب ٹھیک ہوئی۔ یہ LESCO گلبرگ کی Rapid سروس کا حال ہے۔ اگر یہ Rapid سروس اپنا کام 17 گھنٹے میں کرتی ہے تو باقی علاقوں کا کیا حال ہو گا؟ عام آدمی اس وقت حکومت کی تبدیلی اور نئی حکومت کے وعدوں پر اعتبار کئے خاموش بیٹھا ہے لیکن اگر اس کی یہ امید مایوسی میں بدلنے لگی تو خود سوچیے کیا ہو گا؟ کیا ہمیں پھر سے بجلی پیدا کرنے والے دفاتر پر حملے اور چوکوں میں لگی آگ کے نظارے دیکھنے کو ملیں گے۔ کیا فیصل آباد کے بے روز گار مزدور جو فیکٹریوں کی بندش سے تنگ آ کر باہر نکلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، خاموش رہ پائیں گے؟ آنے والی حکومت کو شاید اپنے آنے سے پہلے ہی ان کا حل سوچنا ہے، ڈرائیور مقصود تو شاید صبر کرلے گا، باقی لوگ نہیں کر پائیں گے۔
تازہ ترین