• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانوی کے اخبار ’’ڈیلی میل‘‘ نے 19جولائی 2019کو شائع ہونے والے اپنے آرٹیکل میں مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں زلزلہ متاثرین کیلئے برطانیہ سے ملنے والی امداد میں سے خطیر رقم خورد برد کرکے منی لانڈرنگ کے ذریعے لندن منتقل کی۔ آرٹیکل میں نیب کی تحقیقات اور وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کا بیان بھی شامل تھا جس میں انہوں نے شہباز شریف اور اُن کی فیملی پر الزام عائد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زلزلہ متاثرین کیلئے وصول کی گئی 550ملین پائونڈ برطانوی امداد میں سے 10لاکھ پائونڈ اپنے داماد علی عمران کو دیے، یہ رقم پہلے برمنگھم بھجوائی گئی اور بعد ازاں اِس رقم کو لندن میں شریف فیملی کے بینک اکائونٹ میں منتقل کیا گیا۔

ڈیلی میل کا مذکورہ آرٹیکل منظر عام پر آنے کے بعد پی ٹی آئی حکومت کے مشیر احتساب شہزاد اکبر اور حکومتی وزرا مختلف چینلز پر شریف فیملی کی کردار کشی کرتے نظر آئے تاہم شہباز شریف اور اُن کے صاحبزادے سلمان شہباز نے ڈیلی میل کے آرٹیکل کو مسترد کرتے ہوئے اِسے عمران خان کی سرپرستی میں ہونے والی سیاسی انتقامی کارروائی کا حصہ اور شریف فیملی کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیا۔ آرٹیکل کی اشاعت کے فوراً بعد برطانیہ کے سرکاری ادارے ڈپارٹمنٹ فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ (DFID) نے زلزلہ زدگان کی امدادی رقم خورد برد کرنے سے متعلق ڈیلی میل کے الزامات کو بےبنیاد اور من گھڑت قرار دے کر اِسے مسترد کردیا اور اپنے وضاحتی بیان میں کہا کہ زلزلہ متاثرین کو دی جانے والی رقوم میں کوئی کرپشن نہیں ہوئی۔ بعد ازاں شہباز شریف نے برطانوی اخبار ڈیلی میل اور صحافی ڈیوڈ روز کے خلاف لندن ہائیکورٹ میں ہتک عزت کا دعویٰ داخل کیا جس پر لندن ہائیکورٹ نے ڈیلی میل اور ڈیوڈ روز کو نوٹس جاری کئے اور گزشتہ دنوں لندن ہائیکورٹ کے جج نے شہباز شریف کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’’برطانوی قوانین کے مطابق شہباز شریف اور اُن کی فیملی پر عائد کئے جانے والے الزامات ہتک عزت کے ’’انتہائی درجے‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں جو ناقابل برداشت ہیں‘‘۔ معزز جج نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’’آرٹیکل پڑھنے سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ شہباز شریف کرپشن اور منی لانڈرنگ کے قصور وار ہیں لیکن اِس کے کوئی ثبوت و شواہد پیش نہیں کئے گئے لہٰذا ڈیلی میل کو مفروضوں پر مبنی سنی سنائی باتوں کے بجائے شہباز شریف پر لگائے گئے الزامات ثابت کرنا ہوں گے۔‘‘ اس موقع پر عدالت میں موجود ڈیلی میل کے وکلا نے مقدمے کی سماعت کے دوران کرپشن، کمیشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات سے پسپائی اختیار کی اور موقف اختیار کیا کہ ڈیلی میل نے شہباز شریف پر منی لانڈرنگ کا الزام براہ راست نہیں لگایا بلکہ شہباز شریف پر لگائے گئے الزامات حکومت پاکستان کے مفروضوں پر مبنی تھے۔ شہباز شریف کے وکلا نے اپنے دلائل میں کہا کہ ڈیلی میل کا آرٹیکل ثبوت و شواہد کے بغیر مکمل طور پر بے بنیاد الزامات پر مبنی تھا جس میں شہباز شریف اور اُن کی فیملی پر کرپشن کے بےبنیاد الزامات لگائے گئے۔

ایسی اطلاعات ہیں کہ پلانٹڈ خبر دینے والے ڈیلی میل کے صحافی ڈیوڈ روز کو آرٹیکل شائع کرنے سے پہلے پاکستان مدعو کیا گیا جس نےمبینہ طور پر مشیر احتساب کے علاوہ بنی گالہ میں وزیراعظم سے بھی ملاقات کی جبکہ ڈیوڈ روز کو حکومت پاکستان کی رپورٹس تک رسائی بھی دی گئی۔ ڈیوڈ روز نے شہزاد اکبر کے اس بیان کو بھی اپنے آرٹیکل میں شامل کیا جس میں شہزاد اکبر نے دعویٰ کیا تھا کہ بڑے پیمانے پر برطانیہ کی جانے والی منی لانڈرنگ کے شواہد جمع کئے گئے ہیں۔ بعد ازاں ڈیلی میل نے شہباز شریف کے خلاف آرٹیکل شائع کرکے انتہائی قدم اٹھایا جس سے حکومت کو وقتی طور پر (ن) لیگ کو بدنام کرنے کا موقع تو ضرور ہاتھ آگیا مگر برطانوی عدالت کے فیصلے کے بعد شہزاد اکبر اور دیگر حکومتی وزرا شرمندگی چھپانے کیلئے اپنے دفاع میں بے بنیاد وضاحتیں دیتے نظر آئے۔ اس بات کا امکان ہے کہ لندن ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد شہباز شریف، ڈیلی میل اور اخبار کے صحافی پر لاکھوں پائونڈ جرمانے کا دعویٰ کرسکتے ہیں جو اخبار کو ادا کرنا پڑے گا یا برطانوی عدالت سے باہر سیٹلمنٹ کرنا پڑے گی جبکہ دوسری طرف ڈیلی میل کے صحافی ڈیوڈ روز کو نہ صرف اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے بلکہ ڈیلی میل کی عالمی سطح پر ساکھ بھی شدید متاثر ہوگی۔

کہاوت مشہور ہے کہ ’’جھوٹ اتنا بولو کہ جھوٹ پر بھی سچ کا گمان ہونے لگے‘‘۔ حکومت شاید اِسی مقولے پر شروع دن سے عمل پیرا ہے۔ اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ برسراقتدار آنے کے بعد پی ٹی آئی کی یہ حکمتِ عملی رہی ہے کہ اپنی ناقص کارکردگی اور ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے اپوزیشن کو کرپٹ قرار دے کر اُس کی کردار کشی کی جائے مگر اپوزیشن پر لگائے گئے یکے بعد دیگرے الزامات کی حقیقت کھل کر سامنے آرہی ہے اور اب تک اپوزیشن پر کوئی کرپشن ثابت نہیں ہو سکی جبکہ حال ہی میں حکومت کو براڈشیٹ کیس میں جرمانہ ادا کرکے خفت اور شرمندگی اٹھانا پڑی۔ اس پورے واقعہ کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہم انصاف کی تلاش میں اپنی عدالتوں کے بجائے برطانوی عدالتوں کا سہارا لیتے ہیں جہاں سے ہمیں انصاف ملنے کی توقع ہوتی ہے لیکن اگر ہماری عدالتیں بھی کسی دبائو کے بغیر میرٹ پر فیصلے کریں تو شاید عوام کا عدلیہ پر اعتبار بحال ہوجائے اور کسی شہباز شریف یا اُن کی فیملی کو اپنی سچائی ثابت کرنے کیلئے برطانوی عدالت کا سہارا نہ لینا پڑے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین