• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیاس چوہدری جنگ کیلئے برسہا برس رپورٹنگ کرتے رہے، انہوں نے اپنے تجربات اور یادوں کو کتابی صورت میں پرویا ہے، کتاب کا عنوان ’’سپریم کورٹ سے‘‘ ہے۔ جو مصنف کے رپورٹر ہونے کو واضح کرتا ہے۔ یہ کتاب بھی نظام کی خرابیوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ مثلاً 2007میں پی آئی اے نے 84فضائی میزبانوں کو گرائونڈ کرنے کا فیصلہ کیا، ان ایئر ہوسٹسز کے بارے میں کہا گیا کہ یہ اب پُرکشش نہیں رہیں۔ فیصلے کے خلاف ناہید اور نیئر یحییٰ سندھ ہائیکورٹ چلی گئیں، کورٹ نے پی آئی اے کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی، ایئر ہوسٹسز کی طرف سے شیخ ریاض الحق جبکہ پی آئی اے کی طرف سے عظمیٰ بشیر اور شاہد انور باجوہ پیش ہوئے۔ جسٹس نواز عباسی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سماعت کی اور حکم دیا کہ ’’40سال سے زائد عمر کی ایئر ہوسٹسز کو ڈس مس کیا جائے گا جبکہ پچاس سال سے زائد عمر کی ایئر ہوسٹسز پر فیصلے کا اطلاق نہیں ہوگا‘‘ اس فیصلے کی وجہ سے آج تک ہم نانی دادی بنی ایئر ہوسٹسز دیکھ رہے ہیں۔

چھ مئی 2000کو الیاس چوہدری کی خبر پر جنگ اخبار نے اثاثے چھپانے کے حوالے سے سرخی جمائی۔ مئی 2000میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق شریف خاندان نے دس ارب روپے کے قرضے لئے، ان کے مجموعی اثاثے بیس ارب ہیں، انہوں نے تین سال میں پانچ ارب 68کروڑ روپے بیرونِ ملک بھجوائے۔ 30مئی 2000کو بارہ اکتوبر 1999سے متعلق سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ اخبار میں شائع ہوا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ’’فوجی کارروائی کے وقت ملک میں جمہوریت نہیں، چند امیروں کی حکومت تھی۔ کرپشن از خود فوجی اقدام اٹھانے کا جواز ہے، جنرل پرویز مشرف کا اقدام ایک زندہ حقیقت تھی جسے 12مئی کے فیصلے کے بعد قانونی جواز حاصل ہو گیا۔ سابقہ حکومت نے عدلیہ کی تضحیک کی، اس کے اقدامات سے معیشت تباہ ہوئی، ججوں کا حلف کسی بھی قسم کا ہو، عدلیہ کا اختیار کم یا ختم نہیں ہوتا۔ سابق وزیراعظم منصوبے میں کامیاب ہو جاتے تو فوجی گروپوں میں لڑائی چھڑ جاتی‘‘۔

خواتین و حضرات! میرے نزدیک پاکستان میں جمہوریت کبھی نہیں رہی کیونکہ پاکستان کے نام نہاد جمہوری ادوار میں بھی جمہوریت کہیں نظر نہیں آئی۔ پاکستان میں جمہوریت خاک نظر آتی؟ پاکستان کی تو کسی بھی سیاسی جماعت میں جمہوریت نہیں۔ اگر جمہوریت کی کچھ رمق ہے تو وہ جماعت اسلامی میں ہے۔ باقی سب جماعتوں میں ملوکیت ہے، خاندانی بادشاہتوں کا رواج ہے، وراثتی سیاست ہے، نامزدگیوں کا گورکھ دھندہ ہے۔ پاکستان میں انتخابی حلقے خاندانی اجارہ داریوں کے عکاس ہیں، جہاں سے دادا منتخب ہوتا تھا، آج وہاں سے پوتا جیتتا ہے۔ جمہوریت اکثریت کی حکمرانی کا نام ہے مگر پاکستان میں تو اکثریت کبھی حکمران رہی نہیں بلکہ یہاں تو ہمیشہ اقلیت کی حکومت رہی ہے۔ پاکستان میں ایک فیصد طبقہ حکمرانی کرتا ہے اور 99فیصد طبقہ 73برسوں سے نہ صرف محکوم ہے بلکہ محروم بھی ہے۔ انگریزوں کے غلام ایک فیصد طبقے نے پاکستان کے اقتدار کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ انہوں نے ہمارے لباس اور زبان کی توہین کی ہے۔ کہنے کو پاکستان کی قومی زبان اردو ہے مگر پاکستان کے سرکاری دفاتر میں حکم نامے انگریزی میں دیے جاتے ہیں، مقابلے کا امتحان بھی اردو میں نہیں ہوتا، شاید ایسا اس لئے ہے کہ کہیں ملک کے محروم طبقات کے افراد افسر شاہی کا حصہ نہ بن جائیں۔ افسر شاہی بھی اسی ایک فیصد طبقے سے ہے۔ جس عدالت نے اردو کو سرکاری زبان بنانے کا فیصلہ دیا تھا وہاں سے ابھی تک فیصلے انگریزی میں جاری ہو رہے ہیں، یہ پتہ نہیں کس کی توہین ہو رہی ہے؟ پاکستان میں کہنے کی حد تک قومی لباس شلوار قمیص ہے مگر یہاں حکمران طبقہ مغربی لباس پہن کر فخر محسوس کرتا ہے، بابو تو پہنتے ہی پینٹ کوٹ ہیں۔ اگر کوئی غلطی سے شلوار قمیص پہن لے تو اسے عدالت میں بےعزت کیا جاتا ہے مگر جج صاحبان بھی کیا کریں کہ عدالتوں میں پیچھے کھڑے خدام نے شیروانی اور جناح کیپ پہن رکھی ہوتی ہے۔ جس طرح شیروانی اور جناح کیپ کی توہین کی گئی، اسی طرح پگڑی کی بھی توہین کی گئی۔

پاکستان پر حکمرانی کرنے والے ایک فیصد طبقے نے کبھی ملک کا نہیں سوچا، ہمیشہ اپنا سوچا، اپنی جائیدادوں میں اضافہ کیا، ملک خسارے کا شکار ہوتا رہا، اس طبقے نے معاشرے سے دیانتداری کے عنصر کو غائب کر دیا۔ اب ہر طرف کرپشن اور بددیانتی کا دور دورہ ہے، میرٹ کہیں نہیں۔ جعلی ڈگریوں والے تعلیم یافتہ پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ آج کل اسلام آباد میں سرکاری ملازمین مظاہرے کر رہے ہیں، وکلا اور عدالتوں میں بھی جنگ جاری ہے، ایسا لگتا ہے کہ منصوبہ ساز نے اسلام آباد کو چن لیا ہے۔ جب سیاسی جماعتوں کی تحریک کامیاب نہیں ہوتی تو پھر انہیں ایک ایسی تحریک دے دی جاتی ہے جسے روکنا حکومت کے اختیار سے باہر ہو جاتا ہے جیسے پرویز مشرف کے خلاف عدلیہ بحالی تحریک تھی۔ پاکستان میں تحریکیں چلوائی جاتی ہیں، تحریکیں بنا کر دی جاتی ہیں، یہاں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں، یہاں کھوکھلا نظام ہے اور اس نظام سے خیر کی کوئی توقع نہیں کیونکہ اس نظام میں تو لاہور میں گریڈ ڈی لینے والا میٹرک پاس اٹھارہویں گریڈ میں پہنچ جاتا ہے اور 19ویں گریڈ کے حصول کی تگ و دو میں لگ جاتا ہے۔ لاہور کے ثقافتی ادارے میں ایڈہاک ازم کی بنیاد پر گریڈ سولہ، سترہ میں ڈیڑھ درجن افراد بھرتی کئے گئے۔ ان کی مدتِ ملازمت ختم ہوئے ڈیڑھ دو سال ہو گئے ہیں مگر تنخواہ مل رہی ہے۔ ایک مشورہ بھی مل رہا ہے کہ آپ مستقل ہونے کے لئے کورٹ کا رُخ کریں، سرکاری وکیل چپ رہے گا یوں آپ ریگولرائز ہو جائیں گے۔ ’’حلال سرٹیفکیٹ‘‘ بھی مل جائے گا۔ کسی ایک ادارے میں نہیں ہر ادارے میں لوٹ مار مچی ہوئی ہے۔ یہ تمام ناانصافیاں جمہوریت کا حسین چہرہ نہیں بلکہ چہرے پر بدنما داغ ہیں۔ بقول عباس تابشؔ

اپنی مٹی کا گنہگار نہیں ہو سکتا

تلخ ہو سکتا ہوں غدار نہیں ہو سکتا

تازہ ترین