• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پروفیسر غنی اس وقت فون کیا کرتے ہیں جب ان کا موڈ خوشگوار اور کوئی دلچسپ موضوع زیرغور ہو لیکن 26 دسمبر 2007ء کو ان کی کال موصول ہوئی تو خلاف توقع دعا نہ سلام‘ آواز میں گھبراہٹ‘ گفتگو بے ربط‘ کہنے لگے چوہدری صاحب! بے نظیر کو فون کریں‘ جلدی سے‘ اسی وقت ‘ ابھی فون کریں۔ عرض کیا‘ آپ جانتے ہیں کہ میرا بے نظیر کے ساتھ کوئی رابطہ ہے نہ واسطہ‘ مگر ان کی طرف سے اصرار جاری رہا تو کہا‘ اچھا کسی دوست کو دیکھتا ہوں‘ جو بات کر سکے۔ ہاں ‘ مگر بے نظیر سے کہنا کیا ہے؟ اس کی زندگی کو شدید خطرہ ہے‘ بے نظیر کا زائچہ سامنے رکھا ہے‘ اس کے اپنے گھر میں سورج پلوٹو مقابلہ ہو رہا ہے‘ یہ خطرناک اور جان لیوا حملے کی نشاندہی کرتا ہے۔ پوچھا یہ حملہ کب تک ہو سکتا ہے؟ بولے‘ آج سے اگلے سات دن کے اندر‘ اس سے کہئے سارے پروگرام منسوخ کر دے‘ گھر میں چوکس رہے۔ عرض کیا‘ آپ تو کہتے تھے اسے اقتدار ملنے والا ہے۔ ہاں جان بچ رہی تو ملے گا ناں‘ یہ کہہ کر پروفیسر نے فون بند کر دیا۔ میرے لئے مسئلہ یہ تھا کہ ایک تو ستارہ شناسی کی کوئی سدھ بدھ نہیں کہ اس کو زیادہ سنجیدگی سے لیا جاتا‘ دوسرے بے نظیر کے ساتھ کوئی بے تکلف رابطہ بھی نہیں تھا‘ اس لئے خاموش رہا۔ اگلے دن 27دسمبر کو پورے ملک میں کہرام برپا تھا‘ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسے کے بعد بے نظیر پر قاتلانہ حملہ ہوا جس سے وہ شدید زخمی ہو گئیں‘ انہیں فوراً اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکیں۔ یہ خبر سن کر فون لاگ دیکھی تو پروفیسر غنی کا فون آئے بائیس گھنٹے ہو چکے تھے۔ یعنی ان کی طرف سے خدشے کے اظہار کو ایک دن بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ یہ حادثہ گزر گیا۔ 4مئی 2013ء ‘ ایک دفعہ پھر پروفیسر صاحب اسی لب و لہجے میں مخاطب تھے‘ اب کے بار یہ اطلاع عمران خان کے بارے میں تھی‘ کہنے لگے‘ پہلے آپ نے بڑی غلطی کی تو بے نظیر کو منع نہیں کیا‘ شاید ان کی جان بچ رہتی‘ آج بالکل ویسا ہی خطرہ عمران خان کی زندگی کو لاحق ہے‘ اس پر قاتلانہ حملے کا خطرہ ہے‘ اسے کہو احتیاط کرے‘ بہت زیادہ احتیاط‘ سارے پروگرام ختم کر کے چند دن محفوظ مقام پر گزارے‘ اس کی زندگی کو خطرہ آج سے شروع ہو چکا ہے‘ جو 13مئی تک بدستور رہے گا‘ پورے دس دن۔ اب کاہلی کی گنجائش نہیں تھی‘ اتفاقاً اگلے دن یعنی 5 مئی کو عمران خان فیصل آباد میں جلسہ کرنے والے تھے‘ راقم بروقت جلسہ گاہ میں اسٹیج پر موجود تھا‘ عمران خان سے ملاقات ہوئی‘ اسے صورتحال سے آگاہ کیا تو کپتان نے کہا‘ ہاں مجھے سیکورٹی کی طرف سے بھی ایسی وارننگ مل چکی ہے‘ اس کے بعد قمیص کے نیچے پہنی ہوئی ’’بلٹ پروف‘‘ جیکٹ دکھائی کہ میں اس سے زیادہ کیا کر سکتا ہوں‘ چند دن میں انتخاب ہونے والے ہیں‘ عوام کے سامنے آئے بغیر چارہ ہی کیا ہے ؟ دو دن کے بعد عمران خان کو حادثہ پیش آ گیا‘ وہ مشکل حالات سے گزرے مگر اللہ نے ان کو زندگی لوٹا دی‘ پروفیسر سے بات ہوئی تو اس نے کہا‘ یہ حادثہ اللہ کی رحمت تھی‘ خون بہہ گیا جان بچ رہی‘ شاید یہی خون جان کا صدقہ ہے مگر حملے کا امکان اب بھی موجود ہے جو بہت شدید ہوگا‘ بہہ جانے والا خون واقعی خان کیلئے صدقہ ہو گیا اور فوج نے زخمی عمران خان پر شوکت خانم اسپتال کے اندر ہونے والے حملے کو بروقت ناکام بنا دیا۔
چکوال سے تعلق رکھنے والے پروفیسر غنی سے ہماری دوستی کو آج اکتیس (31) برس ہونے کو آئے‘ ان میں گیارہ سال ایسے تھے جب ہم اسلام آباد گورنمنٹ ہاسٹل کے ایک ہی کمرے میں مقیم رہے‘ چوبیس گھنٹے کا ساتھ تھا‘ پروفیسر سے بہت کچھ سنا اور سیکھا۔ فلسفہ‘ شعر‘ ادب‘ یورپی فلسفہ‘ فارسی ادب‘ غالب‘ اقبال‘ ان کے پسندیدہ مضامین ہیں‘ وسیع المطالعہ‘ ابلاغ پر پورا عبور‘ بات کہنے کا سلیقہ‘ سینیٹ میں کی گئی تقریروں کی گونج میں ان کا حصہ وافر تھا۔ چکوال کا ہر دوسرا نوجوان جس نے انگریزی پڑھی وہ پروفیسر کا شاگرد ہے‘ جب اسلام آباد آئے تو اخبارات کیلئے انگریزی مضامین کا ترجمہ کیا کرتے۔ آسٹرالوجی(ستارہ شناسی ) کا شوق تھا‘ نایاب‘ کم یاب کتابیں دنیا جہان سے منگوا کر پڑھتے رہے‘ اس مضمون میں انہیں بڑی قدرت حاصل ہو گئی۔ ہوا یوں کہ ایک دن سینیٹر نور جہاں پانیزئی اور ایم این اے ریحانہ مشہدی کہنے لگیں‘ پیرصاحب پگارا کے داماد قتل ہو گئے ہیں‘ ان سے تعزیت کیلئے جانا چاہئے‘ چنانچہ ہم لوگ ان کی اسلام آباد والی رہائش گاہ پر پہنچے‘ پروفیسر بھی ہمراہ تھے‘ پیر صاحب نے تعزیت میں کوئی دلچسپی نہیں لی بلکہ آسٹرالوجی کے حوالے سے اگلے چند دن میں نواز شریف حکومت ختم ہونے کی پیش گوئی کر دی۔ ان دنوں فنانس کارپوریشنوں کا اسکینڈل زوروں پر تھا۔ میاں صاحبان اور چوہدری برادران اس اسکینڈل کی زد میں تھے‘ سلامت نکل جانے کی بظاہر کوئی راہ نہ تھی۔ پیر صاحب کی سیاسی بصیرت‘ ستارہ شناسی کی مہارت دونوں خاندانوں کی نااہلی بارے نشاندہی کر رہی تھی ‘ پیر صاحب کی پیش گوئی کے جواب میں پروفیسر بولے‘ لیکن میاں صاحب کے فلاں گھر میں ‘ انہیں ایک طاقتور اور بااثر شخصیت کی مدد مل رہی ہے‘ جو ان کو مصیبت سے نکال لے جائے گی۔ پھر وہی ہوا‘ غلام اسحق خان جو صدر پاکستان تھے‘ انہوں نے دونوں خاندانوں کے خلاف ایکشن لینے سے انکار کر دیا‘ صدر کی حمایت حاصل ہوتے ہی کالی گھٹائیں برسے بغیر گزر گئیں۔ اگلے سال جنرل آصف نواز کی اچانک وفات کے بعد صدر اور وزیراعظم کے درمیان اختلافات نے زور پکڑا تو پیر صاحب کا فون آیا‘ کہاں ہو؟ ہاسٹل میں‘ آپ کا دوست کہاں ہے؟کون سا؟ آسٹرالوجر‘ وہ اپنے دفتر گیا ہوا ہے‘ کہاں؟اخبار میں‘ اسے چھٹی دلائو اور ابھی لے کر آئو‘ چنانچہ پروفیسر صاحب کو ہمراہ لے کر ایک مرتبہ پھر پیر صاحب کی اسلام آباد والی رہائش گاہ میں حاضر تھے۔ پیر صاحب‘ زائچہ سامنے رکھے ہوئے تھے‘ کہنے لگے پروفیسر اب کہو؟ وزیراعظم آیا گھیرے میں؟ کون بچائے گا؟ اب وہی طاقت ور مارے گا جس نے پہلے بچایا تھا۔ پروفیسر نے بھی کاغذ پر لکیریں کھینچیں‘ کچھ حساب لگایا‘ اب دونوں کے مابین جو گفتگو ہوئی کچھ یوں تھی‘ ہاں پروفیسر؟ اب تو وزیراعظم کی چھٹی‘ پیر صاحب! صدر اور وزیراعظم دونوں کے ستارے یکساں خراب ہیں‘ نواز شریف تو جانے والا ہے مگر غلام اسحق خان بھی اس کے ساتھ ہی جائیں گے۔ پیر صاحب نے کہا‘ وزیراعظم اگلے تین دن میں چلا جائے گا‘ ستارے کہہ رہے ہیں اور یہی میری اطلاع بھی ہے۔ پروفیسر کا کہنا تھا کہ اس کی حکومت گئی تو عدالت بحال کر دے گی‘ بحالی کے بعد جولائی میں وہ کوئی بڑی غلطی کرے گا‘ اس کے نتیجے میں دونوں کی چھٹی ہو جائے گی۔ بعد میں یہی نتیجہ برآمد ہوا تو پیر صاحب نے ’’آسٹرالوجی‘‘ کی نایاب کتابیں اپنی لائبریری سے منگوا کر پروفیسر کو تحفہ بھیجیں۔
پروفیسر سے آخری بیٹھک پچھلے مہینے یعنی مارچ کے شروع میں ہوئی تھی‘ جس میں کالم نویس دوستوں کے علاوہ امریکہ سے آئے میاں مشتاق‘ لاہور سے خالد بھائی‘ میجر عامر‘ طارق پیرزادہ کے گھر میں جمع تھے۔ ملکی صورتحال پر ’’ستارہ شناس‘‘ کا تجزیہ پوچھا گیا تو کہنے لگے۔ 6مارچ سے کوئی چیز اندر ہی اند رپکنے لگی ہے‘ یہ معصیت خفتہ ہے‘ لغزش پوشیدہ‘ پردے میں لپٹا گناہ یا کوئی بڑی سازش جو کچھ بھی ہے‘ اپریل کے پہلے ہفتے میں سب سامنے آ جائے گا۔ پھر واقعات کا لامتناہی سلسلہ ‘ ناہموار راستے کا سفر‘ زلزلے کے جھٹکے‘ ہلتی دیواریں‘ گرتی چھتیں‘ ان حادثات کا کون شکار ہوا؟ کون بچ رہا؟ اس کا اندازہ 22اگست کے بعد ہو گا۔ مختصراً یہ سمجھ لیجئے کہ جولائی 1993ء والی صورتحال پھر لوٹ آئی ہے‘ یہ تصادم یکساں خطرے کی نشاندہی کرتا ہے۔ البتہ عمران خان کو ستمبر‘ اکتوبر میں دوبارہ وہی مقبولیت حاصل ہو جائے گی جو 30اکتوبر 2011ء کو ملی تھی۔
تازہ ترین