• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کینیڈا کی ممتاز مصنفہ مارگریٹ ایٹ ووڈ نے کہا تھا کہ ’’نو دولتیا اپنے آپ کو جتنا بھی چھپانے کی کوشش کرے وہ چھپ نہیں سکتا، اس کا ہر انداز چیخ چیخ کر اس کے نو دولتیا ہونے کی غمازی کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے زیبِ تن لباس سے بھی ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے اُس پر گوند کے ذریعے رقم چسپاں کر رکھی ہو‘‘۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاسی نظام میں ایک رواج بن گیا ہے کہ جب بھی کوئی ملکی تقدیر سنوارنے کے لئے آواز بلند کرتا ہے، اس کے خلاف طوفانِ بدتمیزی کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ اس سے بھی بڑا تشویشناک امر یہ ہے کہ ایسا ماحول وہ لوگ بناتے ہیں جن کا مقصد صرف اپنا داغدار ماضی چھپانا ہوتا ہے۔

یہ تاثر عام ہے کہ کئی دہائیوں سے چلے آ رہے بدترین نظم و نسق نے پاکستان کو اِس نہج تک پہنچا دیا ہے لیکن اِس سے بھی بڑھ کر افسوسناک امر یہ ہے کہ بہتری کے لئے آج تک کوئی راستہ تلاش کرنے کے لئے کسی نےغوروفکر نہیں کیا۔ اس سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کے موجودہ انتخابی نظام سمیت تمام شعبوں میں سنجیدہ اصلاحات متعارف کروانے کی ضرورت ہے لیکن جب بھی سنجیدہ اصلاحات لانے پر عملدرآمد کی بات کی جائے تو کچھ مفاد پرست سیاسی جماعتیں اپنی سیاست چمکانا شروع کر دیتی ہیں۔ سینیٹ کے موجودہ انتخابات کی مثال ہی سامنے رکھ لیں جس کے لئے موجودہ حکومت نے انتخابی عمل کو صاف و شفاف انداز میں کروانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ ہر سیاسی جماعت نے بھی ماضی میں اس بات کا برملا اعتراف کیا ہے کہ سینیٹ انتخابات کے لئے بھاری رقوم کے عوض ووٹوں کی خریدو فروخت ہوتی رہی ہے۔ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے بھی سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹنگ کے ذریعے کروانے کو میثاق جمہوریت کا حصہ بنایا تھا۔

ان تمام شواہد کے باوجود سیاسی جماعتیں اوپن بیلٹنگ کے حوالے سے حکومت کی مثبت تجاویز کا ساتھ دینے کی بجائے اپنے مفادات کا تحفظ کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے اس حوالے سے مشاورت کے لئے عدالتِ عظمیٰ میں درخواست دی اور صدارتی آرڈی ننس کے اجرا سمیت دیگر اقدامات اُٹھانے پر مجبور ہوئی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے مثبت اقدامات کی حمایت کی جاتی لیکن اُلٹا الزامات کا بازار گرم کر دیا گیا کہ شاید حکومت غیرجمہوری طریقہ اختیار کرکے اپنے سینیٹرز کو منتخب کروانے کے لئے راستہ ہموار کر رہی ہے۔ ایسے منفی رویے دراصل ہماری موروثی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ہم کس طرح کی سیاسی سوچ کے مالک ہیں اور اپنے ذاتی مفادات کی خاطر کس حد تک جا سکتے ہیں۔ جو سیاسی جماعتیں آج اوپن بیلٹنگ کے ذریعے سینیٹ انتخابات کے انعقاد کے لئے حکومتی کاوشوں کی مخالفت کر رہی ہیں، انہوں نے ماضی میں نہ صرف بلوچستان حکومت کے خاتمے پر احتجاج کیا تھا بلکہ پیپلزپارٹی صوبائی اسمبلی میں صرف 3ارکان کے ساتھ خیبر پختونخوا سے اپنے 2سینیٹرز منتخب کروانے اور چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی سے بھی ناخوش تھی۔

آخر پھر کیا وجہ ہے کہ بڑے پیمانے پر انتخابی غلطیوں کا باعث بننے والے قانون کو تبدیل کرنے میں کچھ سیاسی جماعتیں حکومت کی حمایت کرنے پر راضی نہیں ہو رہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ چال محض موجودہ حکومت کو غیرمستحکم اور کمزور کرنے کے لئے چلی جا رہی ہو تاکہ اسے دبائو میں لا کر کوئی سیاسی فائدہ لیا جا سکے؟ اگر موجودہ نظام کو تبدیل نہ کیا گیا تو پھر اقتدار میں جو کوئی بھی ہو گا، بدعنوانی کا بازار اسی طرح گرم رہے گا اور ضمیر فروشوں کو خرید کر مسندِاقتدار تک پہنچنے میں مدد دیتا رہے گا۔ میرے خیال میں جس طرح پیسے کے پجاری، معاشرے کی اخلاقیات اور اخلاقی ضوابط کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں، اسی طرح سیاست کے نودولتیوں نے جمہوریت کی اصل روح کو چھوڑ کر ذاتی نوعیت کے ایجنڈے کی تکمیل کی خاطر ووٹوں کی خریدوفروخت کا سہارا لے کر سیاست کو منافع بخش تجارت میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ بوسیدہ اور نفرت انگیز نظام کی حمایت کرنے والے سیاستدان نئی نسل کو گمراہ کرتے ہیں پھر یہ فتنہ دوسروں کو بھی اصولوں کو روندنے اور کرپٹ لوگوں کی صفوں میں شامل ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔

ایسی سوچ رکھنے والے حکمرانوں کے منفی طرز عمل نے آج ہمیںعالمی سطح پر بدنام کیا ہے لیکن اب یہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ایسے سیاستدانوں کی حمایت جاری رکھی جائے جو ہمیشہ اقتدار کے ایوانوں میں رہے اور ملک کو تباہ کیا یا پھر ان لوگوں کو مضبوط کیا جائے جو ملک کو ترقی وکامرانی کی راہوں پر گامزن کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں، ہمیں اپنی سوچ اور طور طریقوں کو بدلنا ہوگا اور کرپٹ سیاستدانوں کا راستہ ہمیشہ کے لئے روکنا ہوگا۔

اگر ہم واقعی پاکستان کو ترقی یافتہ دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو پھر سنجیدہ اقدامات پر عملدرآمد کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ اب ہمیں آزمائے ہوئے سیاسی لیڈروں سے جان چھڑانا ہوگی۔ اپوزیشن کو ہرگز یہ موقع نہیں ملنا چاہئے کہ وہ احتجاجی تحریک کے ذریعے لوگوں کا استحصال کرے۔ بلکہ ایسے بدعنوان اور کرپٹ مافیا سے ملک کو پاک کرنا پڑے گا۔

(صاحب تحریر وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات، سیاسی اور دفاعی تجزیہ کار اور ادارۂ علاقائی امن کے بانی ہیں)

تازہ ترین