• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وبائی مرض اور ماحولیاتی تبدیلی تعمیراتی شعبہ کو بدل رہے ہیں

کووِڈ۔19 وَبائی مرض نے تعمیرات کے شعبہ پر غیرمعمولی اثرات مرتب کیے ہیں۔ خاص طور پر مہمان نوازی اور تفریح کے شعبوں سے وابستہ ریئل اسٹیٹ کی قیمتوں میں شدید کمی دیکھی گئی ہے۔ریئل اسٹیٹ اثاثہ جات کی کچھ دیگر قسمیں جیسے زیادہ انسانی کثافت کی حامل مثلاً؛ اسٹوڈنٹ ہاؤسنگ اور شاپنگ مالز پر بھی کووِڈ۔19 نے انتہائی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ کووِڈ سے وابستہ پابندیوں اور لاک ڈاؤنز کے باعث ناصرف تعمیراتی سرگرمیوں میں کمی آئی ہے، بلکہ تیار عمارتوں میں گھروں اور دفاتر کے کرایہ پر حصول میں بھی خاطرخواہ کمی دیکھی گئی ہے۔

اس خراب صورتِ حال کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اب صارفین کی توجہ ایسے ریئل اسٹیٹ اثاثہ جات کی طرف جائے گی، جو ماحول دوست اور کم توانائی خرچ ہوں۔ جہاں تک رہائشی عمارتوں کا تعلق ہے تو اب لوگوں کو ایسی رہائشی سہولیات کی تلاش ہے، جہاں وہ ناصرف رہائش اختیار کرسکیں بلکہ کسی ایمرجنسی یا وبائی مرض کے نتیجے میں نافذ ہونے والے ’’ریمورٹ ورکنگ‘‘ حالات میں وہاں سے وہ بآسانی دفترکے کام بھی کرسکیں۔ 

مزید برآں، ایسی رہائشی عمارتیں ایک مؤثر اور کم خرچ ’’توانائی نظام‘‘ کی حامل بھی ہونی چاہئیں۔ایک رپورٹ کے مطابق، اٹلی جہاں گزشتہ سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران، کورونا کی پہلی لہر کے نتیجے میں ریئل اسٹیٹ کاروبار میں 22ارب یورو کی کمی آئی تھی، وہاں اعلیٰ معیار کی ریئل اسٹیٹ، جو محفوظ، مؤثر اور صحت مندانہ رہائش اور کام کی سہولیات فراہم کرتی ہے، کی طلب میں زبردست اضافہ ہواہے۔

طویل مدت میں، ریئل اسٹیٹ ایک پرکشش اثاثہ ہے، جو سرمایہ کاری پر زبردست منافع فراہم کرتا ہے، جس کا دیگر اثاثہ جاتی طبقات کی مالیت میں آنے والی اونچ نیچ سے بہت کم تعلق ہوتا ہے۔ ریئل اسٹیٹ کے کچھ خاص سیگمنٹس کی مارکیٹ زیادہ بڑھے گی، جس میں پائیداری (سسٹین ایبلٹی) ایک اہم کردار ادا کرے گی۔

اس کا ایک اہم پہلو ماحولیاتی تبدیلی بھی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر ریئل اسٹیٹ بلڈرز اور مالکان نے انسانی صحت اور زمین کو قابلِ رہائش بنائے رکھنے کے لیے پائیدار عمارتوں کی تعمیر کی طرف توجہ نہ دی تو اس کے طویل مدتی نقصانات ناقابلِ تلافی ہوں گے۔ ایسے میں ریئل اسٹیٹ کی طویل مدتی کشش کو برقرار رکھنے کے لیے ریئل اسٹیٹ بلڈرز اور مالکان کو ابھی سے ماحول دوست، کم توانائی خرچ اور رہائش کے ساتھ ساتھ گھر سے کام کرنے کے لیے موزوں عمارتوں کی تعمیر شروع کرنا ہوگی۔ بلڈرز کو غالباً اس بات کا اندازہ نہیں کہ آنے والے کچھ برسوں میں جب مکینوں کی جانب سے محفوظ اور مؤثر عمارتوں کی طلب بڑھے گی تو وہ انھیں کیا پیش کریں گے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ دنیا اس وقت نئے کورونا وائرس کے باعث جس بحران سے گزر رہی ہے، مالیاتی آپریٹرز کو دو پہلوؤں کو سامنے رکھنا ہوگا:

1- کورونا وبائی مرض کا طبعی بحران اور ماحولیاتی تبدیلی، ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں۔

2-ریئل اسٹیٹ کی پائیداری پر ان بحرانوں کا بتدریج اثر بڑھ رہا ہے۔

دنیا کی عالمگیریت کے دور میں ایسا شاذونادر ہی ہوتا ہوگا کہ ایک بحران کو باقی چیزوں سے علیحدہ کردیا جائے۔بلند ہوتے درجہ حرارت اور ماحولیاتی نقائص کے باعث ایسا ماحول پیدا ہونے کے خدشات بڑھ سکتے ہیں، جس میں جانوروں اور انسانوں کے درمیان پیتھوجینز کے پھیلاؤ کے خطرات بڑھ جائیں۔

نتیجتاً، اگر ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات نہ لیے گئے تو مستقبل میں ایسے وبائی امراض کے پھٹ پڑنے کی رفتار بڑھ جائے گی، اس صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لیے ریئل اسٹیٹ سیکٹر نے اہم کردار ادا کرنا ہے۔ایک تہائی زہریلی گیسوں کے اخراج کی ذمہ دار تعمیر شدہ یا زیرِ تعمیر عمارتیں ہیں، جبکہ دنیا کی 40فی صد توانائی یہ عمارتیں پی جاتی ہیں۔ دیگر شعبہ جات کے مقابلے میں، زہریلی گیسوں کے اخراج کے معاملے میں، ریئل اسٹیٹ کا شعبہ زیادہ ناقص کارکردگی دِکھا رہا ہے اور اب بھی ماحولیاتی تبدیلی کے بحران کو بڑھانے میں تشویش ناک کردار ادا کررہا ہے۔

ریئل اسٹیٹ کا شعبہ چونکہ حقیقی اثاثہ جات پر مشتمل ہوتا ہے، اس لیے وبائی امراض اور ماحولیاتی تبدیلی اس پر فوری اثرانداز ہوتا ہے۔ اگر حالیہ وبائی مرض کے اثرات کی بات کریں تو اکثر صحت کے مراکز اور ہسپتالوں میں اس سے پوری طرح نمٹنے کی صلاحیت سے عاری پایا گیا، رہائشی یونٹس بہت زیادہ توانائی خرچ کرتے ہیں، جبکہ شاپنگ مالز، سماجی دوری کے اصولوں پر عمل درآمد کے لیے تیار نہیں تھے۔ یہ وہ مسائل ہیں، جو طویل مدت میں صارفین کے انتخاب پر اثرانداز ہوں گے اور نتیجتاً اس کے اثرات ریئل اسٹیٹ شعبہ پر دیکھے جائیں گے۔

اس بات کے پیشِ نظر، کئی سرمایہ کار، مستقبل کے طبعی یا مارکیٹ شاکس کے اثرات سے بچنے یا انھیں کم کرنے کے لیے اپنے ریئل اسٹیٹ منصوبوں میں طویل مدتی لچک پیدا کرنے اور زہریلی گیسوں کے اخراج کو کم کرنے پر کام کررہے ہیں۔

تعمیراتی منصوبوں میں لچک سے مراد یہ ہے کہ ایک منصوبے میں موجود کمزوریوں کو سمجھا جائے اور پھر انھیں ختم کرنے کے لیے استعداد پیدا کی جائے۔ اس سلسلے میں سرمایہ کار اپنے وسائل کا ایک حصہ قابلِ تجدید توانائی کے لیے انفرا اسٹرکچر تعمیر کرنے اور ’’ریٹروفٹنگ‘‘ پر خرچ کرسکتے ہیں۔ اس سے قلیل مدت میں ان کے منافع میں کمی آسکتی ہے، تاہم طویل مدت میں ان کی یہ سرمایہ کاری ان کے رِسک کو کم کرے گی اور وہ مسابقت سے دو قدم آگے رہیں گے۔

تازہ ترین