• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی (تجزیہ / مظہر عباس)قومی اسمبلی کی نشست این اے 75، ڈسکہ سیالکوٹ کے حتمی نتیجے کا ہنوز انتظار ہے جہاں سے 20؍ پریزائیڈنگ افسران کی پراسرار گمشدگی پر پنجاب پولیس اور انتظامیہ کی پراسرار خاموشی پر الیکشن کمیشن کا سخت بیان آیا، وہیں چاروں صوبوں میں حالیہ ضمنی انتخابات حکمران جماعت تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کے لئے خصوصاً 3؍ مارچ کو سینٹ انتخابات قبل چشم کشا اور لمحہ فکریہ ہے۔ 

اپوزیشن اور الیکشن کمیشن کے لئے بھی اس میں کچھ سبق ہیں جن سے انہیں آئندہ بلدیہ انتخابات سے قبل سیکھنا ہوگا جو سپریم کورٹ احکامات کے مطابق چند ماہ بعد ہونے جارہے ہیں۔ 

بشرطیکہ حکومت کچھ مختلف نہ سوچ رہی ہو۔ پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی دو، سندھ میں دو، پشین اور نوشہرہ میں ایک ایک نشست اپوزیشن نے جیتی۔ حکمراں جماعت کوان چھ نشستوں پر شکست کا سامنا کرنا جبکہ قومی اسمبلی کی تین نشستوں پرضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی نے ایک ایک نشست جیتی۔

 اگر ملک میں جمہوریت نے جڑ پکڑنا ہے توالیکشن کمیشن کو آزاد اور خودمختار ادارے کی حیثیت سے اپنی ساکھ قائم کرنا ہوگی۔ آزاد اور منصفانہ انتخابات کے بغیر جمہوریت بے معنی ہوگی۔

پاکستان میں عام انتخابات شاذونادر ہی سیاسی جماعتوں کو قابل قبول ہوئے۔ 

1970ء کے عام انتخابات کو چھوڑ کر انتخابات میں کھلی یا چھپی نمایاں رہی اور 2008ء کے عام انتخابات میں بڑی حد تک سنگین سوالات اٹھے۔

 اس وقت الیکشن کمیشن کو تین مارچ کے سینیٹ انتخابات سے خفیہ بیلٹ کے معاملے پر سخت دبائو کا سامنا ہے لیکن عدالت عظمی میں الیکشن کمیشن نے جرات مندانہ موقف اختیار کیا لیکن اس کا تمام تردارومدار عدالت کے فیصلے پر ہے۔ 

اس کے بیان نے این اے 75 پر انتخاب کو پہلے ہی متنازع بنادیا ہے۔ گو کہ حکمراں جماعت نے انتخابی نتیجے کے اعلان کے لئے الیکشن ک میشن پر اپنا پورا دبائو ڈالا۔

 تحریک انصاف کا دعوی ہے کہ اس نے یہ انتخاب جیتا ہے لیکن مناسب انکوائری کے بغیر انتخابی نتیجے کا اعلان آسان نہ ہوگا۔ تمام تر امکان یہی ہے کہ قومی اسمبلی کی اس نشست پر دوبارہ یا کم از کم 20؍ پولنگ اسٹیشنز پر انتخاب کرانا ہوگا۔ 

اسی طرح نوشہرہ سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر نتیجہ تحریک انصاف اور خصوصاً سابق وزیرا علی پرویز خٹک کے لئے بڑا دھچکا ہے پرویز خٹک نے انتخابی دھاندلی کے تاخیر سے الزام کےباوجود پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات کو کھول کر رکھ دیا۔ 

پی ٹی آئی اور خیبرپختون خوا حکومت نے انتخابی شکست تسلیم کیا اور ایک وزیر کو برطرف بھی کیا جو ؟؟؟؟؟ کا بھائی ہے اس نے ن لیگ کے امیدوار کی حمایت کی۔ 

مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علماء اسلام کے برے دن جاری ہیں جس کو قومی اسمبلی کی نشست پر پی ٹی آئی کے مقابلے میں شکست ہوئی۔ پارٹی کے اندرونی اختلافات اس کی ایک وجہ ہوسکتی ہے۔ 

مولانا شیرانی اور حافظ حسین احمد سمیت چار اہم رہنمائوں نے مولانا فضل الرحمن سے بغاوت کی ہے۔ 

نوشہرہ کے انتخابی نتائج کے باوجود تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا میں جڑیں مضبوط ہیں جبکہ سب سے زیادہ خسارے میں جے یو آئی رہی۔ 

این اے 45 پر تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی جو 2018ء کے عام انتخابات میں یہ نشست جے یو آئی نے جیتی تھی۔

 اپوزیشن جماعتیں بھاری تعداد میں ووٹرز کی حاضری کا کریڈٹ لے سکتی ہیں جو عام طور پر ضمنی انتخابات میں نہیں ہوتی۔ لیکن پی ڈی ایم کی مسلسل ریلیوں، جذباتی تقریروں اور غیر معمولی مہنگائی نے کورونا وائرس کے باوجود لوگوں کو ووٹ ڈالنے پر آمادہ کیا۔ 

این اے 75 کے حتمی نتیجے سے قطع نظر اب یہ واضح ہوگیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک یہاں برقرار ہے۔ دس جماعتی اتحاد کے مقابلے میں تحریک انصاف کے لئے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ 

حکمراں جماعت میں اندرونی اختلافات مزید گہرے ہوگئے ہیں جس کا اندازہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ سمیت سینیٹ کے لئے ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے سے لگایا جاسکتا ہے۔ 

اگر اسلام آباد سے حفیظ شیخ ہار جاتے ہیں تو وزیراعظم پر قومی اسمبلی کے اعتماد پر سنگین سوال اٹھے گا۔

تازہ ترین