• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میانمار کی فوج و پولیس انسانی حقوق کا احترام اور برداشت کا مظاہرہ کرے، یورپی یونین اور جی سیون کا مطالبہ

برسلز/ینگون( حافظ انیب راشد/نیوزڈیسک) یورپین یونین اور جی 7 ممالک کے وزرائے خارجہ نے میانمار میں سیکورٹی فورسز کی جانب سے کیے جانے والے تشدد کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے دوسری جانب میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔تفصیلات کے مطابق کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ، امریکہ کے وزرائے خارجہ اور یورپین خارجہ امور کے سربراہ سمیت اجلاس کے شرکاء نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہم میانمار کی سیکورٹی فورسز کی جانب سے پرامن مظاہرین پر کیے جانے والے تشدد کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ مظاہرین پر تشدد کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین سے اظہارافسوس کے بعدان ممالک کے وزرائے خارجہ نے مطالبہ کیا کہ میانمار کی فوج اور پولیس انسانی حقوق کا احترام کرے اور بین الاقوامی قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ برداشت کا مظاہرہ کرے۔انہوں نے کہا کہ غیر مسلح عوام کے خلاف اسلحے کا استعمال ناقابل قبول ہے۔ ایسے ہر شخص کو سزا ملنی چاہیے جو پر امن مظاہرین پر تشدد کا ذمہ دار ہے۔جی 7 ممالک کے وزرائے خارجہ نے میانمار میں فوج کی جانب سے کی گئی بغاوت کی بھی شدید مذمت کرتے ہوئے آنگ سان سوچی اور صدر ون مینٹ کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ جمہوریت اور آزادی کی جدوجہد میں میانمار کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔دوسری جانب امریکا اور جاپان نے بھی میانمار میں تشدد کی مذمت کی ہے۔ ادھر میانمار کی فوجی حکومت کی طرف سے سخت اقدامات کے باوجود فوجی بغاوت کے خلاف عوامی احتجاج کا سلسلہ بدستور جاری ہےاورمیانمار میں فوج کی جانب سے مظاہرین کو جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے کی دھمکیوں کے باوجود لاکھوں افراد فوج کے اقتدار پر قبضے کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ۔پیر کے روز لاکھوں افراد نے دارالحکومت نیپیدو کی سڑکوں پر احتجاج کیا۔ دارالحکومت نیپیدو میں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آبی توپوں کا استعمال کیا۔ملک میں تمام کاروبار بند رہے اور سرکاری ملازمین بھی فوج کے اقتدار پر قبضے کے خلاف احتجاج میں شامل ہو چکے ہیں۔مظاہرین نے جلد انتخابات کے وعدے کو مسترد کر دیا ہے اور وہ جمہوری طور پر منتخب رہنما آنگ سان سو چی اور نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کے دیگر رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ینگون کی سڑکوں پر نئے مظاہروں کے باعث کاروبار زندگی معطل رہا۔ یکم فروری کی فوجی بغاوت کے بعد سے ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، جب کہ ہفتے کے روز ان مظاہروں کے دوران مزید 2 افراد ہلاک ہو گئے۔ پیر کے روز ینگون میں جمع ہونے والے مظاہرین نے فوج سے مطالبہ کیا کہ وہ جمہوری رہنما آنگ سان سوچی کو فوری طور پر رہا کر دے۔ نوبل امن یافتہ سوچی یکم فروری سے فوجی کی حراست میں ہیں۔ میانمار کی فوج نے ایک تازہ بیان میں کہا ہے کہ فوج کی طرف سے ملک کا کنٹرول سنبھالنا ایک آئینی عمل ہے۔ وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ غیرقانونی مظاہروں، اشتعال انگیزی اور تشدد کے باوجود متعلقہ حکام طاقت کے بے جا استعمال سے احتراز کر رہے ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ سیکورٹی اہل کار ملکی قوانین اور بین الاقوامی معیارات کے مطابق عوامی تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش میں ہیں۔ یاد رہے کہ میانمار میں 5 دہائیوں تک فوجی جنتا کی آمریت کے بعد 2015ء میں جمہوری نظام فعال ہوا تھا۔

تازہ ترین