• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انٹرنیٹ مجرمین میں بچوں کی زندگی برباد کرنے سے قبل اپنی بہتری کیلئے مدد حاصل کریں، سارہ

لندن (پی اے) ایک خاتون، جس کے ٹیچر شوہر کو بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کی تصاویر دیکھنے پر گرفتار کیا گیا تھا، نے انٹرنیٹ مجرموں سے کہا ہے کہ وہ کسی کی زندگی برباد کرنے سے پہلے اپنی بہتری کیلئے کوئی مدد حاصل کرلیں۔ سارہ جوکہ اس کا اصل نام نہیں، نے کہا کہ  آنے والی مصیبت سے اسے یہ پتہ چلاکہ جس آدمی سے اس نے تقریباً 25 سال قبل شادی کی تھی، وہ آن لائن کیا کر رہا تھا۔ پھر اس کے بعد ایک استاد، جس کی دو بالغ بیٹیاں یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کس طرح خوفزدہ، شرمندہ، الجھن اور ناراضی محسوس کرتی ہیں جبکہ اس کے شوہر قید کی سزا سے بال بال بچ گئے ہیں۔ انہوں نے اب طلاق کے بعد دوبارہ شادی کرلی۔ انہوں نے کہا کہ اگر لوگوں کو پکڑا نہیں گیا، اگر وہ جرم کا آغاز کر رہے ہیں، تو میں واقعتاً ان سے گزارش کروں گی کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں اس کے مضمرات کے بارے میں سوچیں۔ ظاہر ہے، یہ کوئی ایسا جرم نہیں جس سے کوئی متاثر نہ ہو، ان کی خودغرضی ایسی چیز ہے جو بچوں کی زندگی کے ساتھ زیادتی کررہی ہے۔ انہیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ وہ ان کے اہل خانہ کو بھی، کس چیز سے محروم کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا میرے ​​شوہر نے اپنی بیوی کو کھو دیا، وہ اپنے بچوں کو کھو سکتا تھا، تاہم وہ کافی خوش قسمت تھا جو ایسا نہیں ہوا۔ وہ یقیناً اپنے دوستوں اور فیملی ارکان کی محبت سے محروم ہو گیا، جن کا اس کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہوگا، وہ اپنا کیریئر بھی کھو بیٹھا۔ اپنا گھر کھو گیا، وہ اپنی عزت، معاشرے میں اپنا مقام کھو بیٹھا۔ اس نے واقعی سنگین جرم کی بھاری قیمت ادا کردی ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ بہت آسانی سے جیل بھی جاسکتا تھا۔ سارہ نے بتایا کہ وہ پانچ سال قبل کام کے لئے تیار ہو رہی تھی جب چھ پولیس اہلکار صبح سویرے اس کے خاندانی گھر پہنچے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اس وقت تک کیا ہو رہا ہے جب تک کہ میرے شوہر کمرے میں نہیں آئے اور مجھے بتایا کہ وہ گھر کی تلاشی لے رہے ہیں۔ انہوں نے غیر مہذب تصاویر کے لئے کہا۔ یہ بالکل فحاشی کے دائرے سے بھی باہر تھیں۔ میرا فوری ردعمل یہ تھا کہ یہ ضرور کسی قسم کی سازش ہے، میرے شوہر اس طرح کا کام نہیں کر سکتے اور کسی نے کوئی بدنیتی پر مبنی الزام لگایا ہوگا، مگریہ سب جھوٹ تھا، میں اس پر یقین نہیں کرسکتی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا اور وہ کہتے ہی رہے، میں پیڈو فائل نہیں ہوں اور میں نے اس پر یقین کیا۔ افسران نے سارہ کے موبائل فون سمیت گھر میں موجود تمام الیکٹرانک آلات قبضے میں لے لئے اور اس کے شوہر کو مقامی پولیس اسٹیشن میں پوچھ گچھ کے لئے لے جایا گیا۔ انہوں نے کہا مجھے صرف یہ بتایا گیا تھا کہ یہ جرم کی ایک قسم ہے جس سے کنبے ٹوٹ جاتے ہیں۔ جب اس رات کے آخر میں وہ پولیس اسٹیشن پہنچی تو اسے اپنے شوہر کے ساتھ ایک کمرے میں لے جایا گیا، جہاں اس نے بتایا کہ اس نے اعتراف جرم کر لیا ہے اور اس پرچارج عائد کیا جائے گا۔یہی وہ لمحہ تھا جب میں حقیقت سے آگاہ ہو کر تباہی سے دوچار ہوئی۔ سارہ نے مزید بتایا کہ میں نے بالکل بے حس ہو کر خاموشی کے ساتھ اس کو گھر سے نکال دیا۔ وہ اس بارے میں فکر مند تھیں کہ آیا انہوں نے بچوں کے خلاف جرم کیا ہے لیکن اب وہ جانتی ہیں کہ اس کے جرم صرف آن لائن تھے، جب انہوں نے سیکڑوں، ہزاروں تصاویر ڈاؤن لوڈ کی تھیں۔ سارہ نے کہا، اس نے بتایا کہ یہ تقریباً ایک جنون بن گیا تھا۔ وہ تقریباً 10 برس سے آن لائن فحش نگاری کر رہےتھے۔ سارہ نے کہا کہ اگر ان کے شوہر نے مدد حاصل کرنے کے لئے پہلے مرحلے میں سوچا ہوتا تو ہم میں سے کوئی بھی اس صورتحال میں نہیں ہوتا۔ گذشتہ سال نیشنل کرائم ایجنسی نے متنبہ کیا تھا کہ برطانیہ میں کم از کم 300000افراد بچوں کیلئے جنسی خطرہ ہیں جبکہ خیال کیا جاتا ہے کہ کورونا وائرس وبائی مرض نے اس مسئلے کو اور بھی خراب کردیا ہے۔ جنسی استحصال کے شکار بچوں اور اپنے جرائم سے تائب ہو کر مدد کے خواہشمند افراد کے لئے کام کرنے والی چیرٹی ہیلپ لائن کے ڈائریکٹر ڈونلڈ فائنڈی لیٹر نے کہا ہے کہ برطانیہ میں لاکھوں افراد آن لائن بچوں کی جنسی تصاویر اور ویڈیوز دیکھ رہے ہیں۔ وہ مقبول تخیل کے تمام دقیانوسی کردار نہیں ہیں۔ وہ ہمارے دوست، کنبے، پڑوسی اور ساتھی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ جو بھی ہیں، انہیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ یہ عمل غیر قانونی ہے کہ اس سے بچوں کو نقصان پہنچا ہے۔ اس میں ملوث افراد کو سنگین نتائج کا انتظار ہے لیکن یہ کہ ہماری ہیلپ لائن اور ویب سائٹ گمنام اور خفیہ تعاون اور رکنے کے لئے مشورے دیتی ہے۔

تازہ ترین