• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پنجاب کی سنہری دھرتی سے صوفیوں، درویشوں، شاعروں، گلوکاروں، اچھی یا بری خوبیاں رکھنے والے دلیر جانبازوں، متوالے عاشقوں اور بر ِ صغیر کے دل کی دھڑکنیں تیز کر دینے والی البیلی رقاصاؤں نے جنم لیا ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ تاریخی اور جغرافیائی طور پر اس زرخیز خطے سے کسی قابل حکمران کا ظہور دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔ سکندرِ اعظم کے حملے سے لے کر 1947 میں ہونے والی تقسیم ِ ہند تک ، 2000 سال سے زیادہ کے عرصے میں پنجاب سے تعلق رکھنے والا صرف ایک باصلاحیت حکمران ابھرا… اور وہ مہاراجہ رنجیت سنگھ تھے۔ اُن کے علاوہ، بہت سے گورنر اور بادشاہوں کے نمائندے یہاں حکمرانی کرتے رہے ہیں لیکن اُن میں کوئی بھی صاحب ِ حیثیت، آزاد اور خود مختار حکمران نہ تھا ۔ اس دوران افغان، ترک اور مغل بادشاہ تو آتے جاتے رہے لیکن پنجاب کی مسند ِ اقتدار پر مہاراجہ کے علاوہ کوئی مقامی باشادہ رونق افروز نہ ہوا۔ اس کا مطلب ہے کہ اگرچہ پنجاب زراعت، موسیقی، شاعری اور رقص اور دیگر زریں روایات رکھتا ہے ، اور اگر ناگوار نہ گزرے تو کہہ دوں کہ دیگر محکوم قوموں کی طرح چاپلوسی کے فن میں طاق ہے، مگر اعلیٰ حکمرانی کے اوصاف پنجابی خون میں شامل نہیں ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ اہالیان ِ پنجاب حکمرانوں کی خدمت گزاری کرتے اور اطاعت بجا لاتے رہے تھے، تاہم 1947میں ہونے والی تقسیم ِ ہند نے اُن کے شانوں پر ایک قوم کی تخلیق اور اس کی راہیں متعین کرنے کی ذمہ داری ڈال دی۔ درحقیقت وہ اس کیلئے تیار نہ تھے کیونکہ تاریخ نے کبھی بھی ان کو اس طرح کی آزمائش میں نہیں ڈالا تھا۔ تاہم اس کے بعد پنجاب کے طبقہ ٴ اشرافیہ نے ہندوستان سے آنے والے مہاجرین، جن کی زبان اردو تھی ، کے ساتھ مل کر تقسیم کے نتیجے میں ہونے والے فسادات کی روک تھام کی۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔ اس طرح ایک ریاست تو تخلیق کے مراحل سے گزرگئی لیکن ایک اورمعاملہ الجھ گیا۔ اس سے پہلے جس قوم کو وطن کی تلاش تھی، وہ قوم پرستی کے جال میں پھنس گئی، تاہم یہ کوئی حیران کن معاملہ نہیں تھا کیونکہ آغازسے ہی ہر کوئی محسوس کر رہا تھا کہ اس ریاست میں سب کو مساوی حقوق حاصل نہیں ہیں۔مشرقی پاکستان کے با شندوں نے اس بات کو واضح طور پر محسوس کیا کہ اگرچہ وہ اکثریت میں ہیں ، اُن کو فیصلہ سازی کے عمل میں شریک نہیں کیا جاتا ہے۔ اسی طرح بلوچ اور پختون قوم پرست بھی ناراض ہوگئے، حالانکہ وہ برطانیہ کے خلاف کی جانے والی جدو جہد میں سب سے آگے تھے۔ اس کے بعد مذہب کے ایوانوں سے آنے والی بازگشت کی وجہ سے شہری ، جن کو ابھی تک اقلیت کہا جاتا ہے، بھی پریشانی اور دباؤ محسو س کرنے لگے۔
بانی ِ پاکستان محمد علی جناح  نے آزادی سے چند دن پہلے دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ سیاست میں مذہب کی کوئی جگہ نہیں ہے، لیکن پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد کچھ ایسے حالات پیدا ہونے لگے جن میں مذہبی جذبات کا اظہارسیاسی اور معاشی نظریات، جن میں ہم بہت پیچھے رہ گئے تھے، پر غالب آنے لگا۔ بھارتی حملے کے کچھ حقیقی کچھ غیر حقیقی خوف کی وجہ سے پیدا ہونے والے عدم تحفظ کے احساس پر قابو پانے کے لئے امریکہ کے ساتھ معاہدے کئے گئے اوراس ریاست ، جس میں مسلمان اکثریت میں تھے چنانچہ یہاں اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہئے تھا اور نہ ہی اسے مصنوعی سہاروں سے تحفظ دینے کی ضرورت تھی، میں ”اسلام خطرے میں ہے“ کے نعرے سے عقل و منطق سے مخالف سمت جانے والی راہ تراشی گئی ۔ ناکامیوں کے سارے منظر نامے میں رنگ بھرنے کے لئے نظریہ ٴ پاکستان کی آبیاری سے تصویر کو فائنل ٹچ دیا گیا۔ اس کے بعد پھر چراغوں میں روشنی کی کیا حاجت تھی؟
بلوچوں کو انڈیا سے کوئی خطرہ نہ تھا اور اُن کے لئے کشمیر ایک دور افتادہ معاملہ تھا۔ سندھ میں ہندو بڑی تعداد میں آباد تھے، چنانچہ اُن کو ہندومت سے کوئی تکلیف نہ تھی، اسی طرح پختونوں کو بھی انڈیا کے ساتھ کوئی فکری مسئلہ نہ تھا اگرچہ وہ کٹّر مذہبی نظریات کے حامل تھے۔ سوات اور قبائلی علاقوں میں آباد سکھ اور ہندو خاندان اپنے ہمسائے مسلمانوں کے ساتھ بے فکری کی زندگی گزار رہے تھے۔ وہ وہاں ہر لحاظ سے محفوظ تھے۔ تاہم پنجابی اور بھارت سے ہجرت کرآنے والے افراد کے لئے یہ معاملہ ایسا نہ تھا کیونکہ وہ تقسیم ہند کے فسادات کی اذیت کو جھیل چکے تھے، چنانچہ اُنھوں نے نفسیاتی طور پر ، جو بعد میں ایک اہم سیاسی ہتھیار بن گئی، بھارتی خوف اور عدم تحفظ کے احساس کا پرچار کیا۔ چونکہ دفاعی اداروں کے اعلیٰ افسران کا تعلق زیادہ تر انہی دو طبقوں سے تھا، چنانچہ یہی خوف دفاعی نظریات کی ٹکسال بن گیا اور حب الوطنی کا پیمانہ ٹھہرا۔
یہ بات تعجب خیز ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو، جو اپنی نسل کے سب سے لبرل اور ذہین شخص تھے، نے کسی بھی رہنما سے زیادہ بھارتی خطرے کو بھڑکایا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بھارت مخالف نعرے لگا کر پنجابی ذہن کو اپنی طرف متوجہ کر نا چاہتے تھے۔ اس میں اُن کو کامیابی بھی نصیب ہوئی ،تاہم جب حالات نے پلٹا کھایا اوراُن کے خلاف 1977 کی تحریک شروع ہوگئی تو یہ پنجاب، جس نے اُنہیں اقتدار تک پہنچایا تھا، کی سڑکیں تھیں جہاں سے اُن کی مخالفت میں آوازیں بلند ہونے لگیں۔ جب جنرل ضیا ء الحق کو بھٹوصاحب کے خلاف اتحادیوں کی ضرورت پیش آئی تو ایک مرتبہ پھر پنجاب نے فوجی حکمران کو مایوس نہ کیا۔ جب صدر غلام اسحاق خان اور آئی ایس آئی محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایک خاص حد سے آگے نہیں نکلنے دینا چاہتے تھے تو وہ اُن کی پہلی مدت ِ حکومت کے دوران ایک پنجابی نوجوان ، محمد نواز شریف ، کو سامنے لے کر آئے۔ اُن ایام میں ہمسایہ ملک میں کئے جانے والے جہاد کے زیادہ تر چمپیئن بھی سرزمین ِ پنجا ب سے تعلق رکھتے تھے۔
اسے پانچ دریاؤں کی سرزمین، تجھ میں کس چیز کی کمی ہے؟تیری دھرتی سے ہی گرو نانک، بلے شاہ، شاہ حسین، وارث شاہ، اقبال، فیض، منیر نیازی، استاد بڑے غلام علی، محمد رفیع، کے ایل سہگل اور نورجہاں نے جنم لیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پنجاب کے عظیم سپوت سرگنگا رام کو بھی فراموش نہ کریں کیونکہ سخاوت اور انسانی فلاح کے کام کرنے میں اُن کا بھی کوئی ثانی نہیں، اور پھر بھگت سنگھ شہید اور اُن کے ساتھی بھی دھرتی اور آزادی کے لئے جاں نثار کرنے میں کسی سے کم نہیں۔ تاہم اسی دوران درخشاں ستاروں کی یہ رشک ِکہکشاں دھرتی مذہبی انتہا پسندی اور دائیں بازو کے نظریات کی بھی آماجگاہ رہی ہے۔
آج کے پاکستان پر پنجاب کی اچھی یا بری چھاپ بہت گہری ہے۔ یہ ملک جن راہوں پر گامزن ہے ، وہ پنجاب کی ہی متعین کردہ ہیں۔ دوسری طرف بھارتی پنجاب کو یہ استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ وہ بھارت کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے ، چنانچہ اُسے فیصلہ کن قوت حاصل نہیں ہے جبکہ پاکستانی پنجاب ملک کے سفید و سیاہ کا مالک ہے ، تاہم وصف ِ حکمرانی سے محروم ہونے اور حکمران بننے کی وجہ سے سماجی طور پر دقیانوسی نظریات کا فروغ، ذہنی پسماندگی، فکری طور پر تنگ نظری، مفافقت،سرکاری تعلیمی نظام کی تباہی اور قومی ترجیحات کو قومی سلامتی کے تقاضوں کی بھینٹ چڑھانے کا عمل پنجاب کا طرہ ٴ امتیاز بن گیا۔ اس تمام پیش منظر میں مہاراجہ رنجیت سنگھ ایک نابغہ ٴ عصر حکمران تھا۔ اُس جیسا حکمران پھر کبھی اس دھرتی کو نصیب نہ ہوا۔ ہمارا آج کا پنجاب مہاراجہ کے پنجاب سے مختلف ہے۔ اُس کی فوج میں ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے سپاہی پائے جاتے تھے۔ مہاراجہ کی فوج میں مسلمانوں کے دستے بھی تھے اور فوج کے توپ خانے کا انچارج میاں غوثا تھا ۔ اسی طرح اُس کا وزیر اعظم لاہورکے فقیر خانہ خاندان کا ایک شخص تھا۔ اُس کی محبوب بیوی گل بہار بیگم تھی۔
پی ایم ایل (ن) کو پنجاب اور اسلام آباد میں دو مرتبہ حکومت ملی ہے مگر دونوں مرتبہ حالات مختلف تھے۔ پہلی مرتبہ نواز شریف کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں تھی۔ دوسری مرتبہ اگرچہ اُن کو بھاری مینڈیٹ ملا لیکن وہ غیر یقینی پن کا شکارتھے ۔ تاہم اس مرتبہ وہ سمجھداراور تجربہ کار سیاست دان دکھائی دیتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ اس مرتبہ کچھ مختلف انداز ِ حکمرانی پیش کر سکتے ہیں… وہ حکمرانی جس کو اہل ِ پنجاب کے لئے مثال قرار دیا جا سکے۔ کیا وہ پنجاب اور پاکستان کے لئے ایک نئی تاریخ لکھ سکیں گے؟لاہور کے شیروں کو مہاراجہ رنجیت سنگھ ، جن کو پنجاب کا اصل شیر قرار دیا جا سکتا ہے، کی مثال یاد رکھنی چاہیے کہ اُنھوں نے افغان مسئلے سے کیسے نمٹا۔ یہ مہاراجہ ہی تھے جنھوں نے افغانوں کو شکست دے کر پشاور پر قبضہ کیا اور اُسے سکھ ریاست میں شامل کیا۔ چنانچہ اگر پشاور اور اس کے مضافاتی علاقے آج پاکستان کا حصہ ہیں تو یہ سکھ فوج کی فتوحات کا ہی نتیجہ ہے۔ تاہم وقت کی گرد آلود آندھی نے ہمیں اپنی تاریخ سے بھی اجنبی کر دیا ہے۔ آج جب نواز شریف اور عمران خان طالبان سے مذاکرات کی بات کررہے ہیں تو اُنہیں، اس سے پہلے کہ وہ معاملات کو مزید خراب کریں، مہاراجہ کی ”افغان پالیسی “ یاد رکھنی چاہیے۔
کیا آج ہم اپنی سمت درست کر سکتے ہیں؟اس سرزمین پر گزشتہ 2000 برسوں میں دو آزاد ریاستیں وجود میں آچکی ہیں… ایک مہاراجہ کے دور کا لاہور اور دوسری آج کا پاکستان۔ کیا وقت نے ہمیں تلافی کا موقع نہیں دے دیا؟اس کے لئے گیند آج پنجاب کے حکمرانوں کے کورٹ میں ہے۔ اگر وہ اپنے عظیم پیش رو مہاراجہ رنجیت سنگھ سے نصف خوبیوں کے بھی مالک ہوئے تو پاکستان کا بیڑہ پار ہو جائے گا۔ ہم تاریخ کا ایک نیا باب لکھنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
تازہ ترین