• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

کیا اپوزیشن حکومت کو پوری مدت دینے کیلئے تیار ہے؟

سینیٹ الیکشن گزر گئے کس کس کی توقعات پوری ہوئیں اور کون اپنے اہداف حاصل کرنے میں نا کام رہا، نتائج سامنے آنے کے بعد پی ڈی ایم کی حکمت عملی کیا ہو گی، اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا، سیا سی حلقوں میں یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا عمران خان حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی، 26 مارچ کا دھرنا ہو گا اور کیا اپوزیشن اب بھی استعفوں کے فیصلے پر قائم ہے۔

الیکشن سے 72 گھنٹے پہلے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے دوران پی پی پی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری کا کہناتھا کہ ضمنی انتخابات میں حکومتی شکست کے بعد اس کے اپنے ارکان بھی ساتھ نہیں رہے،72 گھنٹے تک اپوزیشن قائدین ارکان قومی اسمبلی سے ملاقاتوں میں مصروف رہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین نے ایم کیو ایم کو پیش کش کی کہ وہ سینیٹ الیکشن میں  پی ڈی ایم کے امیدواروں کو ووٹ دیں، اس کے بدلنے میں ایم کیو ایم کے دو امیدواروں کو سینیٹ کے لیے منتخب کروا دیں گے، بظاہر تو ایم کیو ایم نے اس پیش کش کو یہ کہہ کرمسترد کر دیا کہ دو نشستوں کے لئے حکومت سے اتحاد قربان نہیں کر سکتے، سینٹ الیکشن سے 72 گھنٹے پہلے ہی پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے سربراہ آصف علی زرداری پی پی پی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری سینیٹ کے مشترکہ امیدوار یوسف رضا گیلانی نے وفاقی دارالحکومت میں ڈیرے لگا لیے تھے اور ملاقاتیں کر کے اس کی روشنی میں حکمت عملی بناتے رہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مرکزی نائب صدر مریم نواز، سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی اور سیکر ٹری جنرل احسن اقبال کے علا وہ جے یو آئی کے سیکر ٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری، اے این پی پختو نخوا کے محمود خان اچکزئی، جے ڈبلیو پی کے شاہ زین بگٹی،قومی وطن پارٹی کے آفتاب احمد خان شیر پائو اور اے این پی کے سیکر ٹری جنرل میاں افتخار حسین بھی وفاقی دارالحکومت میں موجود رہے، جس کی وجہ سے شہر اقتدار میں رونقیں ہی رونقیں تھیں، وزیر اعظم نے بھی کابینہ کا اجلاس موخر کر کے دو دن صرف اور صرف پارلیمنٹرین سے ملاقاتیں کر کے ان کے گلے شکوے دور کرنے کی کوشش کی۔ 

شیخ رشید نے وزیر اعظم کی ملاقاتوں سے قبل ہی مشیر خزانہ حفیظ شیخ کی کامیابی کا دعوہ کیا جبکہ (ن) لیگ کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی کا دعوی تھاکہ یوسف رضا گیلانی بھاری اکثریت سے جیتیں گےاور (ن) لیگ کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال 2021ء کو عمران خان سے نجات کا سال قرار دیتے رہے، سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہیٰ کی کوششوں سے پنجاب اسمبلی کے ووٹوں سے قبل ہی (ن) لیگ، پی ٹی آئی اور (ق) لیگ کے سیینٹرز کی کامیابی جمہوریت کی طرف واپسی کا عندیہ تھا، جس کے بارے میں کہا گیا کہ تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز مفاہمت کی اس کوشش سے خوش نہیں تھیں، بڑے ایوان کے دنگل میں کس کے حصے میں کیا آیا؟یہ اب خفیہ نہیں رہا، اب کیا فیصلہ ہو گا ؟اپوزیشن کی قیادت مل بیٹھ کر کیا نئی حکمت عملی طے کر ےگی ؟ 

کیا حکومت کے خلاف احتجاج پہلے کی طرح جاری رہے گایا اپوزیشن عمران خان حکومت کو اپنا دورانیہ مکمل کرنے کا موقع دے گی، ’’سیا سی گرو ‘ ‘ اس بات پر بضد ہیں کہ جب تک عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کی اندون خانہ حمایت حاصل ہے، کوئی احتجاج سرے نہیں  چڑ ھ سکتا، سخت لہجوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے، مریم نواز کو بیرون ملک جانے کی ابھی اجازت نہیں ملے گی،نواز شریف کی آخری خواہش ہو گی کہ وہ اپنی بیٹی کو اپنی زندگی میں ہی اس کی نااہلی ختم کر کے اسے قابل قبول سیا سی قائد تسلیم کرانے میں کامیاب ہو جا ئیں، سیاسی حلقوں کا کہنا ہےکہ سینیٹ الیکشن سے پہلے سیا سی سرگرمیوں میں جو حدت پیدا ہوئی تھی۔

لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہوتی جائے گی، پارلیمانی سیا ست میں نیا ٹرینڈ سیٹ ہو گا، انتشار ختم ہونے کا تاثر ملے گا، لیکن ختم ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں،سیا سی حلقوں کا کہناہےکہ پنجاب میں مفاہمتی انداز میں نشستوں کی تقسیم سے یہ تاثر بھی ابھرا ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی (ن) لیگ کے اندر بھی رابطے مضبوط بنا چکے ہیں، بعض لوگ تو اسے ڈیل قرار دیتے ہیں مگر ووٹ کو عزت دو کے فالور ماننے کے لیے تیار نہیں، بعض حلقوں کا کہنا ہےکہ مریم نواز کے خلاف سازش کا جالا بچھا یا گیا ہے وہ اس سے بچنے میں کس حد تک کامیاب رہتی ہیں، یہ بھی زیادہ دور کی بات نہیں، ماہ مارچ کے اختتام پر سازش کے بھی بے نقاب ہونے کا امکان ہے۔ 

سیاسی تجریہ نگاروں کا کہنا ہےکہ نواز شریف اور مریم نواز کو عدالت سے ملنے والی سزا کی اپیل منظوری ہونے کی صورت میں ہی (ن) لیگ سیا ست آگے بڑھے گی جبکہ مخالفین کا کہنا ہےکہ شریف خاندان اب ماضی میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے، کرپشن کے الزامات میں عدالتوں سے سزایاب ہونے کی صورت میں سیا ست سے آئوٹ ہونے کے خطرات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا، پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز کی ضمانت پر رہائی معمول کی بات ہے۔

بڑے بڑے مجرموں کو بھی عدالتوں سے ریلیف مل جاتا ہے مگر چند ہزار روپے جرمانے کی صورت میں بھی سیا سی قبلہ داغ دار ہو جا تاہے، جس سے سیاست کو رواں دواں رکھنا مشکل ہو جاتا ہے، حکمران جماعت کے ترجمان اس بات پر بضد ہے کہ35 برس تک اقتدار پر مسلط رہنے والی (ن) لیگ کے قائدین کو سیاسی انتقام نہیں بلکہ قومی لوٹ مار کے الزام میں انہی کے بنائے ہوئے نیب قانون سے جکڑا جا رہا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین