• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے دنوں پنجاب یونیورسٹی میں اہلِ قلم کے ایک عشائیہ میں شریک ہوا، زیادہ تر احباب کا تعلق شعبۂ ِصحافت سے تھا۔ میں خاموش بیٹھا سب کی گفتگو سنتا رہا۔ بڑے بڑے ناموروں کے چہروں کی تحریریں پڑھتا رہا اور سوچتا رہا کہ بلندیاں پستیوں میں لڑکھڑاتی ہوئی کیسی لگتی ہیں ،اپنے خیالوں میں مگن تھا کہ نوائے سروش سنائی دی۔ ایک شعر ذہن میں لہرا گیا ،اسی وقت اُدھر سے میزبان نے کہا ’’آپ خاموش ہیں۔ آپ بھی کچھ بولئے ‘‘۔اور میں بول پڑا :ایک شعر ابھی ابھی ہوا ہے، اجازت ہو تو پیش کروں۔ کئی آوازیں آئیں۔ ’’سبحان ﷲ، بسم ﷲ‘‘۔اور میں گویا ہوا:

میں لکھنے والوں کی اک بزم میں گیا تھا مگر

کئی ضمیر فروشوں سے مل کے آیا ہوں

سناٹا چھا گیا اور میزبانِ محفل کہنے لگے ’’آپ خاموش ہی رہیں تو بہتر ہے ‘‘۔میں سینیٹ کے انتخابات میں بھی ضمیر فروشوں کے چہرے پڑھنے کی کوشش کرتا رہا ہوں۔ قومی اسمبلی کے وہ ارکان جو بک گئے۔ ان کے متعلق سوچتا رہا۔ انہیں دیکھتا رہا۔ خریدنے والوں کی آنکھوں میں کوئی شرمساری نہیں تھی۔ بکنے والوں نے چہروں پر برگزیدگی کے خول چڑھا رکھے تھے۔ یہ کاروبار سب سے ہولناک کاروبار ہے۔ یہ انسان فروشی کا کاروبار ہے، جس میں لاکھوں لوگوں کی سوچیں بیچی اور خریدی جاتی ہیں، یہ شعور فروشی کا بزنس ہے۔ وہ لوگ جو عام انتخابات میں ہر طرح کا دبائو برداشت کرکے اپنے ضمیر کی آواز پر ووٹ دیتے ہیں۔ یہ ان حریت پسندوں کے ضمیروں کا سودا ہوتا ہے۔ شعور کا سودا ہوتا ہے۔ میرے نزدیک یہ کاروبار جسم فروشی اور منشیات فروشی سے بھی زیادہ گھناؤنا ہے۔

اطلاعات کے مطابق سینیٹ انتخابات میں اربوں روپے کا کاروبار ہوا ہے۔ بلوچستان سے ایک بزنس مین جو سینیٹر بنا ہے، اس نے ایک ووٹ کی قیمت بیس کروڑ ادا کی ہے۔ قومی اسمبلی میں سولہ افراد فروخت ہوئے۔ یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر بنانا آصف علی زرداری کو خاصا مہنگا پڑا ہے۔ فروخت ہونے والے ایم این ایز کی فہرست وزیر اعظم کو فراہم کردی گئی ہے اور ثبوت بھی۔ جن لوگوں نے ووٹ ضائع کئے۔ انہیں کیا ملا، اس کا حساب کتاب بھی کیا جارہا ہے۔ یہ دونوں چیزیں پچھلے سینیٹ انتخابات میں بھی عمران خان نے حاصل کر لی تھیں اور پختون خوا کے ایم پی ایز کے خلاف کارروائی بھی کی تھی مگر یہ جتنا گھناؤنا جرم ہے اس کی سزا اتنی ہی کم ہے۔ سپریم کورٹ کو اس کی کوئی ہولناک سزا تجویز کرنی چاہئے۔ قومی اسمبلی سے تو ایسا کوئی قانون اپوزیشن پاس نہیں ہونے دے گی۔

وہ شخص جو ووٹ خرید کر سینیٹر بنا ہے۔ میرے نزدیک میڈیا کو چاہئے کہ اس کا مکمل طور پر بائیکاٹ کرے بلکہ عوام کے سامنے اسے ایک مجرم کے طور پر پیش کرے۔ یہی میڈیا کا حق ہے مگر حق ادا کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کی جو وڈیو وائرل ہوئی۔ فواد چوہدری اسےلے کر الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر دیر تک کھڑے رہے مگر انصاف گاہ سے کوئی باہر نہ نکلا۔ الیکشن کمیشن کی خاموشی معنی خیز ہے۔ ڈسکہ انتخابات میں فوری ایکشن اور پاکستان کے سب سے بڑے انتخابات میں دھاندلی سے صرف ِ نظر حیرت انگیز ہے۔ میڈیا نے بار بار اس وڈیو کو دکھایا مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ وہ وڈیو قومی اسمبلی کے ماتھے پر کلنک کے ٹیکے سے کم نہیں، اگر کوئی اسے محسوس نہ کرے کہ تو میں یہ نہیں کہتا کہ اس کا باطن مردہ خانہ بن چکا ہے جہاں ثواب اور خیر کی لاشیں پڑی ہوئی ہیں کیونکہ میں سمجھتا ہوں روح کے ویرانوں میں جتنا بھی اندھیرا ہو جائے کوئی نہ کوئی چاند کوئی نہ کوئی ستارہ کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہوتا ہے۔

مایوس آسماں نہیں اب تک زمین سے

باطل نے جس کو مارا وہ زندہ دکھائی دے

بے شک شیخ رشید نے درست کہا ’’ سینیٹ انتخابات سے واضح ہو گیا کہ اپوزیشن جماعتیں کیوں سینیٹ انتخابات سے پیسے کے لین دین اور ہارس ٹریڈنگ کو ختم نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ کیوں خفیہ بیلٹ پر بضد تھیں‘‘، نواز شریف نے بھی اُس فتح مندی پر یوسف رضا گیلانی کو مبارک باد دی ہے جس میں گھوڑوں کا بازار صاف دکھائی دے رہا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت اس خرید و فروخت کو روکنے میں کیوں ناکام ہوئی۔ کیا حکومت کو یہ علم نہیں کہ اس سے تعلق رکھنے والے کتنے ایم این ایز ایسے ہیں جو کرپشن کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، یا کررہے ہیں؟ شروع کے دنوں میں عمران خان نے خود کہا تھا کہ مجھے علم ہے کہ کون کون کرپشن کررہا ہے۔ انہوں نے اس معاملے کو دیکھتے ہوئے کچھ وزرا کو نکالا بھی تھا۔ انہیں یہ بھی علم ہے کہ ان کی اتحادی جماعتوں میں شامل لوگ کس قماش کے ہیں، اس کے باوجود ان کو کیوں نہیں پابند کیا جا سکا۔ یہ سارے سوال بڑے اہم ہیں۔ عمران خان نے یہ جو اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کیا ہے، کہیں اس میں بھی کوئی سازش تو نہیں۔ عمران خان کو اپنے اردگرد دھیان دینا چاہئے، سیاسی معاملات کے مشورے غیر سیاسی لوگوں سے نہیں کرنے چاہئیں۔ جہانگیر ترین کو واپس آنا چاہئے۔ ندیم افضل چن جیسے لوگ دور نہیں ہونے چاہئیں۔ عمران خان کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات سے پہلے ان کے اردگرد کون تھا اور اب کون ہے۔ انہیں فواد چوہدری اور فردوس عاشق اعوان کے مشوروں کی ضرورت ہے۔ کیونکہ لوہے کو لوہا ہی کاٹتا ہے۔

تازہ ترین