• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مہنگائی اور مصائب کی ماری اس دنیا میں،جہاں بھوک اور بیروزگاری بڑھتی جا رہی ہے، اسی دنیا میں اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق لوگ سالانہ ایک ارب ٹن کھانا ضائع کرتے ہیں، گھروں میں مجموعی طور پر سالانہ اوسطاً 74 کلو کھانا ضائع کیا جاتا ہے۔ ریستورانوں اور دکانوں سے پھینکے جانے والے کھانے کی شرح 17فیصد ہے۔عالمی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں ایک تہائی خوراک کھائی ہی نہیں جاتی۔ کھانا زندگی کیلئے نا گزیر ہےچنانچہ اس کا زیاں زندگی اور انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے۔ اس کے باوجود یہ انتہائی المناک صورتحال ہے کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق روزانہ تقریباً 80کروڑ 50لاکھ نفوس بھوکے پیٹ سونے پر مجبور ہیں اسی دنیا میں غذائی اجناس کی پیداوار کا ایک تہائی حصہ کبھی کھانے کی میز تک پہنچ ہی نہیں پاتا جس میں پھل، سبزیاں، گوشت، ڈیری مصنوعات، سمندری خوراک اور دیگر اناج وغیرہ شامل ہیں۔ درد ناک امر یہ ہے کہ اگر ضائع ہونے والی تمام خوراک کو انسان کے استعمال میں لائے جانے کے موثر اقدامات کیے جائیں تو دنیا میں ایک شخص بھی بھوکا نہ سوئے اور کوئی بچہ غذائی قلت کا شکار نہ ہو۔ چونکا دینے والی حقیقت یہ بھی ہے کہ ضائع ہونے والی خوراک کی قیمت لگ بھگ ایک ٹریلین ڈالر تک جا پہنچتی ہے۔ کھانے کے ضیاع سے پیدا ہونے والی گرین ہاؤس گیسز کئی ملکوں کے مجموعی کاربن اخراج سے زیادہ ہیں لہٰذا یہ صرف سماجی یا انسانی ہی نہیں ایک سنگین ماحولیاتی مسئلہ بھی ہے۔ دریں حالات دنیا کو درپیش اہم چیلنج یہ ہے کہ غذا کی پیداوار میں اضافے پہلے سے دستیاب غذا کے ضیاع کو کم کرتے ہوئے اس کی زیادہ سے زیادہ افراد تک فراہمی یقینی بنائی جائے۔ اس ضمن میں دنیا بھرمیں آگاہی مہم چلائی جانی چاہئے اور ممکن ہو تو کھانا ،پانی اور ایسی دیگر چیزیں جو حیات انسانی کیلئے لازم ہیں ،ضائع کرنے کو ہر ملک جرم قرار دے۔

تازہ ترین