• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب امریکہ کی جانب سے یو ایس ایڈ کی اشتہاری مہم سے پاکستانیوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش لاحاصل ہے کہ امریکی عوام پاکستانی عوام کی فلاح و بہبود میں شانہ بشانہ شامل ہیں۔ سیدھی سادی سی حقیقت ہے کہ امریکہ جنوبی ایشیاء و جنوب مغربی ایشیاء کے خطوں میں اپنے گہرے مفادات رکھتا ہے ان مفادات کے حصول کے لئے اس نے خارجہ پالیسی کے ایک انسٹرومینٹ (مالی امداد) کے طور پر اب تک بڑی لے دے کر کے جو کچھ پاکستان کو دیا وہ ہمارے لئے انتہائی خسارے کا سودا رہا ہے۔ خود امریکہ نے بھی اپنے شارٹ ٹرم ٹارگٹ تو ضرور حاصل کرلئے ہیں، لیکن لانگ ٹرم قومی مفادات کے حوالے سے وہ بھی بڑے خسارے میں ہے۔ ہمارے کرپٹ اور نااہل حاکموں کو وہ دو دو ٹکے کے ترقیاتی پیکجز دے کر قابو کرتا رہا۔ پاکستان کے لیے امریکی امداد کی یہ قیمت کم تر اس طرح ہے کہ پاکستانی من حیث القوم ایک پرامن اور بین الاقوامیت کے فروغ میں اہم کردار کرنے والی قوم ہے۔ اگر امریکہ ہمیں 9/11 کے تناظر میں باہمی اعتماد اور ہماری حیثیت اور قومی مزاج کے مطابق دہشت گردی کے خلاف اپنا کردار ادا کرنے کی اجازت دیتا تو یہ انداز اس کے لئے بھی نتیجہ خیز ہوتا اور جس جان لیوا صورتحال سے ہمیں دوچار کیا گیا ہم بھی اس سے بچ رہتے۔ اب تو دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی مرضی و منشاء کے مطابق اتحادی بننے کے خسارے کا اندازہ 80 ارب ڈالر تک لگایا جارہا ہے۔ جبکہ ہزارہا معصوم اور بے گناہ شہریوں اور فوجیوں کا خون بہا علاوہ ہے۔ جس طرح چھڑی پکڑ کر امریکہ نے آج تک ہمارا کان بھی پکڑا ہوا ہے اس سے امریکہ پاکستان کے عوام سے کتنا دور ہوتا جارہا ہے؟ اس کا اندازہ لگانا امریکہ کے بس کا روگ معلوم نہیں دیتا۔ خارجی امور میں امریکہ کی بیڈ گورننس گذشتہ کم از کم پندرہ سال سے ایک ثابت شدہ کیس ہے۔ لیکن دنیا اور امریکی عوام بدقسمت ہیں کہ ابراہیم لنکن کا امریکہ اب کوئی اور امریکہ ہے جو قومی مفادات کے نام پر کسی ملک کے جمہوری فیصلے اور مسلمہ بنیادی انسانی حقوق کو جوتے تلے مسل سکتا ہے۔ عراق میں تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی، طالبان حکومت کے خاتمے کی حد تک ٹھیک تھا کہ یہ اپنی روایت مہمان داری کو نئے ڈائلس زدہ اسامہ کے حوالے پر تیار نہ ہوتے تھے، لیکن ہمارے فوری Ok Sir کے باوجود پاکستان کو جنگ میں جتنا جھونکا گیا اور ہماری ہی قیمت پر ہمارے ساتھ جو ہوئی اپنی مرضی کا اتحادی بنانے کے بعد بھی امریکہ ہم سے خوش ہے نہ ہم امریکہ سے۔ سفارت کاری کی زبان اور تقاضے کچھ اور ہیں اصلی حقیقت بالکل برعکس۔ جس طرح امریکن ہمارے شہریوں کا غیر سفارت کار امریکی قاتل اور عافیہ صدیقی بچوں سمیت پاکستانی شہریوں سے بالا بالا چھین کر لے گئے۔ اس کے بعد کیا یو ایس ایڈ کی اشتہاری مہم پاکستانی عوام کے زخموں پر مرہم رکھ سکتی ہے؟ کیا یہ درست نہیں کہ 8 سالہ اقتدار کے بعد وائٹ ہاؤس چھوڑنے سے پہلے صدر بش نے یہ اعتراف نہیں کیا تھا؟ کہ عراق پر حملہ غلط اطلاعات کی وجہ سے ہوا، جو غلطی تھی۔ غلطی کے اعتراف کے بعد اس کا مداوا بھی ہونا چاہئے؟ حد تو یہ ہے کہ ہماری طرح کی نہیں حقیقی معنوں میں خود امریکہ، مغربی یورپ اور آسٹریلیا میں نکلنے والی ملینز ریلی کی شکل میں امریکی صدر نے واضح امریکی اور بین الاقوامی رائے عامہ کو کوئی بھی اہمیت نہ دی تھی۔ ان کی غلطی سے عراق میں جو ہزارہا لوگ بے گناہ مارے گئے۔ جس طرح بغداد میں مختلف قدیم تہذیبوں کے آرٹ و ثقافت کے انمول نمونوں کی لوٹ مار ہوئی اور تہذیبی مطالعے کے مراکز، عجائب گھر تباہ کئے گئے، پھر جو بہیمانہ سلوک عراقی قیدیوں سے ابو غریب کے قید خانے میں ہوا۔ ڈرونز حملوں میں پاکستان کی خودمختاری اور بنیادی انسانی حقوق کی جو خلاف ورزی ہورہی ہے اس کے بعد بھی امریکہ اور پاکستانی بھائی بھائی ہیں؟ رہا یہ کہ بقول امریکہ ڈرونز حملے قانونی ہیں، پاکستانیوں کے نزدیک یہ ایسے ہی قانونی ہیں جیسے قاتل ریمنڈ ڈیوس کا سفارتی استثنیٰ تھا۔ ہم نے تو امریکہ کو اپنی سرزمین پر چھپے اس کے دشمن دہشت گرد پکڑ کر دینے تھے جو ہم دیتے رہے۔ امریکی صدر کے بیانات سے یہ بھی پتہ چلا کہ ہم نے اسامہ کی ہلاکت میں بھی امریکہ سے تعاون کیا، تو پھر اسے اور کیا چاہئے؟ ہم نے تو اسامہ کو امریکیوں سے تعاون کر کے بالآخر مروا دیا، لیکن ہمارے جو مجرم حاکم پاکستان کا کھربوں لوٹ کر امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں کے بینکوں میں ٹھکانے لگا چکے ہیں وہ تو بہت محفوظ ہے، خصوصاً پاکستانیوں کی پہنچ تو وہاں تک نہیں ہوسکی۔ بڑے پاپڑ بیل کر 6 کروڑ ڈالر کا پتہ چلا تھا۔ سارے ثبوت موجود تھے لیکن ہمیں لوٹی گئی اس دولت کے حقیر سے حصے کے حصول کے لئے بھی اپنے ان ہی حکمرانوں سے اجازت لینا تھی جنہوں نے غریب پاکستانیوں کا مال گورے ملکوں میں ٹھکانے لگایا، بھلا یہ بھی لوٹ مار کے مال کی واپسی کا کوئی راستہ ہے؟ سو، نہ نکلا۔
اب ہماری فضائی حدود کا کوئی احترام کررہے ہیں اور نہ اس کی کھلم کھلا خلاف ورزی پر ہمارے حاکم کچھ کر پا رہے ہیں۔ باوجود اس کے کہ ہم ڈرونز حملوں پر ایک متفقہ قومی موٴقف کی تشکیل میں پہلے ہی کامیاب ہو چکے ہیں جس کی تائید نئی اور روایتی دونوں سیاسی قوتیں کررہی ہیں۔ جو پاکستانی پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد بھی ہے اور اب ہماری خارجہ پالیسی کا فوری ہدف بھی۔ لیکن اس سب کو امریکہ پامال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور کررہا ہے۔ ہم اپنے دفاع کی صلاحیت سے محروم ہیں سو نہیں کر پا رہے۔ حیرت ہے کہ امریکہ سے پھر بھی سوال اٹھتے ہیں کہ سمجھ نہیں آتی کہ پاکستانی امریکہ سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ شاید امریکیوں کو یقین ہے کہ یو ایس ایڈ کے جتنے دلدادہ ہمارے حکمراں رہے عوام بھی اتنے ہی ہیں۔ امریکیوں کو اس ضمن میں 50 اور 60 کی دھائی سے 2000 کے پاکستان میں لانا بہت محال ہے۔ جب پاکستانی بیدار ہو چکے ہیں۔ ویسے بھی حقائق کھلے کھلے ہیں کہ امریکہ کا اتحادی بن کرتباہی ہماری ہوئی اور بین الاقوامی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر کے سول نیوکلیئرانرجی کا سودا بھارت سے ہوا، جسے پاکستان کی طرح اجازت نہ ملی کہ وہ ایران سے پائپ لائن کے سہ فریقی معاہدے کا فریق بنے۔ لگتا ہے امریکہ کے تکبر یا وہاں حکومت پر اثر انداز ہونے والے جنگی مافیا نے واشنگٹن کی یہ یاداشت بھی چھین لی کہ اسے کس طرح ویت نام سے شرمندہ ہونا پڑا اور ماضی کا بغلگیر ایران اس سے کتنا دور ہوگیا۔ کیا یہ عالمی کردار کی ادائیگی میں امریکہ کا سفارتی ڈیزاسٹر نہیں؟ یا اس نے بھی ہمارے لاپرواہ اور کرپٹ حکمرانوں کا یہ مستقل رویہ اختیار کر لیا کہ ”سب چلتا ہے“ وقت آئے گا کہ امریکی عوام سب نہیں چلنے دیں گے۔
یہ کہانی تو امریکہ کی ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم خود کہاں کھڑے ہیں؟ اب جبکہ سارے صوبے حکومت اور اپوزیشن، میاں نوازشریف، عمران خان، آصف زرداری اور ایم کیو ایم مولانا فضل الرحمن، سید منور حسن جب ڈرونز حملوں پر ایک ہی موقف رکھتے ہیں تو کیا اس پر کوئی واضح پالیسی نہیں آنی چاہئے؟ بنیادی انسانی حقوق کا سوال اٹھانا بے حد ضروری ہے۔ یہ ثابت کرنا کہ ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی خلاف قانون ہے۔ امریکی عوام سے پوچھنا کہ تمہارے حکمران تمہارے اور ہمارے درمیان تعلقات کا سمندر کیوں حائل کررہے ہیں؟ سفارتی محاذ کھولنا۔ کرپشن اور عیاشیاں ختم کر کے سادہ گورننس کلچر اختیار کرنا۔ کھربوں لوٹنے والوں کا لوٹے مال کی واپسی تک سخت احتساب، صنعت کاروں اور بزنس کمیونٹی سے حساب کتاب کے مطابق ٹیکس کی وصولی کو یقینی بنا کر اپنی قومی معیشت کو خودمختار بنانا وقت اور ملک کی مکمل آشکار ضروریات ہیں۔ جو دوست ہمیں بحران سے نکالنے کے لئے باوقار تعاون دینے پر آمادہ ہیں، وہ تعاون بلاخوف حاصل کر کے اور اس کے بہتر استعمال سے ہم واقعی بحران سے نکلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ لیکن سب سے بڑھ کر اپنی اصلاح اور عزم، دیانت اور عوامی سوچ او احساسات کا احترام ہے۔ یہ ہی کچھ وہ پالیسیاں بنانے کو ممکن بنائے گا جو نئے اور روشن پاکستان کے لئے مطلوب ہیں۔ اس ساماں وقت کے خلاف جو جائے گا یا اس کے حصول میں بے ایمانی یا خوف کا مظاہرہ کرے گا اس سے استدعا ہے کہ وہ پاکستان کا پیچھا چھوڑ دے۔ اگر عوام جاگ گئے ہیں تو انہیں جاگنے دیں۔ امریکہ تو عالمی طاقت ہے، ہماری سیاسی قوتیں اور حکمراں اب پاکستان کو ”سب چلتا ہے“ کی ذہنیت سے نہیں چلا سکیں گے۔ یقین کریں کچھ ہو جائے گا۔
تازہ ترین