• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

گڈ گورننس کیلئے وزیراعلیٰ بزدار کا جارحانہ رویہ

سید یوسف رضا گیلانی اسلام آباد کی نشست جیت گئے ،لیکن پی ڈی ایم کی جانب سے جو روڈ میپ بنایا گیا ہے ،اس میں ان کا چیئرمین سینیٹ بننا اصل ہدف ہے ،سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی شخصیت کو بڑی حد تک غیر متنازعہ قرار دیا جاتا ہے ،اور سینیٹ چیئرمین کے لئے جو مرکزی حیثت ہوتی ہے ،وہ انہیں حاصل ہے ، ویسے بھی اگرسید یوسف رضا گیلانی جیسا سیاسی پس منظر رکھنے والا شخص چیئرمین سینیٹ بنتا ہے ،تو حکومت کو سیاسی طور پر خاصہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔

یہ بات اس لئے بھی ناممکن نہیں ہے کہ موجودہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو بھی سیاسی حمایت حاصل نہ ہونے کے باوجود چیئرمین سینیٹ بنادیاگیا ،جبکہ یوسف رضا گیلانی کی ذاتی کوششیں اور غیر متنازعہ شخصیت ان کی راہ ہموار کرسکتی ہے ، ،موجودہ حالات میں کہ جب پی ڈی ایم حکومت کو سیاسی طور پرزچ کرنا چاہتی ہے ،اگرسینیٹ الیکشن کے بعد چیئرمین سینیٹ کا منصب اپوزیشن کے پاس آجاتا ہے ،تو اپوزیشن کو اپنے اہداف حاصل کرنے میں بڑی حد تک کامیابی ہوسکتی ہے۔دوسری جانب پہلے مرحلہ کی کامیاب تکمیل کے بعد کہ جس میں سید یوسف رضا گیلانی نے اسلام آبا دسے سینیٹ کی سیٹ پر کامیابی حاصل کرلی ہے۔

دوسرے مرحلہ جس کے تحت انہیں سینیٹ کا چیئرمین بنوانا ہے،پی ڈی ایم کی جانب سے وہ متفقہ امیدوارہیں ،جس قسم کا اپ سیٹ اسلام آباد کی نشست پر ہوا ،اس سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ یوسف رضا گیلانی حکومتی امیدوار کو شکست دے کر چیئرمین سینیٹ بن سکتے ہیں ، یاد رہے کہ سینیٹ میں اس وقت حکومت کے اتحادی اور پی ڈی ایم کی جماعتوں کے اراکین کی تعداد میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے ،بلکہ پی ڈی ایم کو اکثریت حاصل ہے ، اس طرح کی منیجمنٹ جو سینیٹ الیکشن میں استعمال کی گئی ،کے ذریعے پی ڈی ایم فضا کو اپنے امیدوار کےحق میں موڑ سکتی ہے۔

اگر سید یوسف رضا گیلانی سینیٹ کے چیئرمین منتخب ہوجاتے ہیں ،تو وہ ملکی تاریخ کے پہلے چئیرمین سینیٹ ہوں گے ، جوعوامی سیاست کے متحرک کھلاڑی ہیں اور ضلع کونسل کے چیئرمین سے لے کر وزیر ، اسپیکر ،قائم مقام صدر اور وزیراعظم رہ چکے ہیں ،ان کے منتخب ہونے سے پی ڈی ایم کو ایک موثر پلیٹ فارم میسر آجائے گا۔دوسری جانب حکومت نے بھی سابق چیئرمین صادق سنجرانی کو اپنا امیدوار بنادیا ہے۔

جس پر غیرجانبدار سیاسی حلقوں میں چہ مگوئیاں ہورہی ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ اکثریت نہ ہونے کے باوجود حکومتی امیدوار صادق سنجرانی اگر کامیاب ہوجاتے ہیں ،تو یہ ہارس ٹریڈنگ کے ہی مرہون منت ہوں گے اور اپوزیشن کو بھی یہ موقع مل جائے گا کہ وہ سید یوسف رضا گیلانی کی اسلام آباد کی سیٹ پر کامیابی کو ہارس ٹریڈنگ قراردینے والی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناسکے،اب دیکھیں کل کیا سیاسی منظرنامہ سامنے آتا ہے ،تاہم اسلام آباد کی سیٹ پر سید یوسف رضا گیلانی کی کامیابی نے حکومت کو وہ زک پہنچائی ہے ،جو اپوزیشن کے 10 جلسے بھی نہیں کرسکے تھے۔

ادھر مسلم لیگ ن پنجاب میں تبدیلی کے لئے ایک نئی سیاسی بساط بچھانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں ، مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کی ملاقاتیں، موجودہ سیاسی تناظر میں بڑی اہمیت رکھتی ہیں ،بلاول بھٹوزرداری کی چوہدری برادران سے ملاقات کو بھی معنی خیز نظروں سے دیکھا جارہا ہے ،کیا پنجاب حکومت کا گھیرا تنگ ہورہا ہے اور کوئی نیا سیاسی تجربہ کرنے کے لئے زمین ہموار کی جارہی ہے؟ اس وقت حکومت بظاہر مستحکم نظر آتی ہے لیکن جو لہریں اٹھ رہی ہیں وہ کسی طوفان کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتی ہیں۔

تاہم پنجاب میں تبدیلی کے حوالے سے خبروں کو پی ٹی آئی کے حلقےاگرچہ محض افواہیں قرار دے رہے ہیں،ان کا کہناہے کہ عثمان بزدار عمران خان کی گڈبکس میں شامل ہیں اور وہ ان کی کارکردگی سے مایوس نہیں ہیں ،اس کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ عمران خان سے ملاقات کے بعد وزیراعلی ٰ پنجاب عثمان بزدارزیادہ پراعتماد اور متحرک نظر آرہے ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ سازشی عناصر ترقی کے سفر کو روکنے کے در پر ہیں ،مگرانہیں کامیابی نہیں ہوگی،انہوں نے عمران خان کی ہدایت کے مطابق پنجاب میں گورننس کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات بھی شروع کردیئے ہیں اور پنجاب کی بیوروکریسی کو بھی انتباہ کیا ہے کہ جو افسر نتائج نہیں دے گا۔

وہ پنجاب میں نہیں رہے گا ،گزشتہ دنوں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے افسران کی کارکردگی پر بھی انہوں برہمی کا اظہار کیا اور جنوبی پنجاب کے افسران کی میٹنگ میں ان کی سرزنش کی اور کہا کہ علیحدہ سیکرٹریٹ کامقصد مقامی عوام کو ریلیف دینا ہے ،مگرعوامی مسائل حل نہ ہونے کی شکایات سامنے آرہی ہیں ، عوام کی توقعات کے مطابق ڈلیورنہ کرنے والے افسر کوعہدے پر نہیں رہنے دیا جائے گا ،گزشتہ ہفتہ وہ نجی دورہ پر ملتان اور ڈیرہ غازی خان آئے ،تو ان کا موڈ جارحانہ ہی رہا ا،نہوں نے عوامی مسائل کے حل میںکوتاہی اور فرائض سے غفلت برتتنےکے الزامات پرڈپٹی کمشنر ملتان ، سی پی او ملتان کو عہدوں سے ہٹادیا، تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال تونسہ کے ایم ایس کو معطل کردیا۔

صحت وصفائی کی ناقص صورتحال پر تونسہ کے ایس ای اور ایس ڈی اوپبلک ہیلتھ ،ایکسیئن ہائی وے اور چیف آفیسر میونسپل کمیٹی کو معطل کردیا ،انہوں نے ملتان اور ڈیرہ غازی خان کے مختلف محکموں کے بھی اچانک وزٹ کئے اور متعلقہ حکام کو وارننگ دی کہ متعلقہ اداروں کو صحیح معنوں میں عوامی خدمت کے ادارے بنائیں ،بصورت دیگر کارروائی کے لئے تیاررہیں،کیا وزیراعلیٰ پنجاب کی یہ پالیسی ان کے خلاف حالیہ صف بندی کا توڑ ثابت ہوگی،کیا اس سے عوام کو کوئی ریلیف ملے گا۔

اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا۔تاہم ڈپٹی کمشنر ملتان اور سی پی او ملتان کو عہدوں سے جس طرح ہٹایا گیا،اس پر مقامی حلقے تعجب کا اظہار کررہے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ یہ کوئی انتظامی کارروائی نہیں ،بلکہ ان افسران کا قصورصرف یہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی ملتان میں رہائش گاہ کے سامنے مظفرگڑھ پولیس کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ،جس پر وزیراعلیٰ نے خاصی برہمی کا اظہار کیا ، ان کا کہنا تھا کہ ان کے اس اچانک دورہ کی اطلاع مظاہرین کو کیسے ہوگئی ،اور ان کوان کی رہائش گاہ تک آنے کیوں دیا گیا، حیران کن طور پرنہ تو مظفرگڑھ پولیس جس کے خلاف مظاہرہ ہوا ،ان کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی اور نہ ہی مظاہرین کی شکایت کے ازالے کے لئے کوئی اقدام کیا گیا ۔

ادھر پی ڈی ایم نے 26 مارچ کے لانگ مارچ کے لئے تیاریاں شروع کردی ہیں ،ضلعی سطح پر انتظامی کمیٹیاں تشکیل دے دی گئی ہیں ،جنہوں نے لانگ مارچ میں زیادہ سے زیادہ کارکنوں و عوام کی شمولیت کے لئے رابطوںکا آغاز کردیا ہے ، تاہم سیاسی حلقے لانگ مارچ کی تاریخ پرتعجب کا اظہار کررہے ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ لانگ مارچ 30مارچ کو اسلام آباد میں پہنچے گا ،جبکہ اپریل میں رمضان المبارک کا آغاز ہوجانا ہے ،جس کی وجہ سے اس کا دورانیہ مختصر رہے گا اور اس کے مطلوبہ نتائج شاید پی ڈی ایم حاصل نہ کرسکے ۔

تازہ ترین
تازہ ترین