سینیٹ الیکشن اختتام پذیر ہوئے تاہم اپنے پیچھے تناؤ، کشیدگی ،بے اعتباری اورعدم استحکام چھوڑگئے۔ سینیٹ الیکشن کا نقصان حکومت کو ہوا۔ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے باوجود عدم اعتماد کی تلواروزیراعظم کے سرپرلٹک رہی ہے جبکہ اتحادی خصوصتاً جی ڈی اے حکومت سے زیادہ خوش نظرنہیں آرہی جس کا انہوںنے اظہاربھی کیا ہے۔ الیکشن نتائج کے مطابق اپوزیشن اتحاد کے 7 اراکین نے وفاداریاں تبدیل کیں۔ پیپلزپارٹی کو اپنے اراکین کے ووٹوں سے جنرل نشست پر 6جبکہ خواتین اور ٹیکنوکریٹ کی نشست پر 7 ووٹ زائد ملے جس پر اپوزیشن کی اتحادی جماعتوں کو تشویش ہے۔
ذرائع کے مطابق تینوں اتحادی جماعتوں کی الیکشن حکمت عملی کے تحت جی ڈی اے کے امیدوار سیدصدرالدین شاہ راشدی کو 21 ووٹ ملنا تھے، جی ڈی اے کے 14 اراکین کے علاوہ پی ٹی آئی کے 7 ارکان اسمبلی نے سید صدرالدین شاہ راشدی کو ووٹ دیناتھے تاہم انہیں صرف 15ووٹ ہی مل سکے اور ان کے ساتھ 6ارکان نے ہاتھ کردیا۔ ذرائع کے مطابق صورتحال پرپریشانی کا شکار پی ٹی آئی نے باغی ارکان سندھ اسمبلی کی تلاش کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس حوالے سے دونوں جماعتوں کے گزشتہ روزعلیحدہ علیحدہ اجلاس بھی ہوئے۔
جبکہ جی ڈی اے کے ایم پی ایز حسنین مرزا ، شہریار خان مہر، نصرت سحر عباسی ، نند کمار گوکلانی ، عارف مصطفی جتوئی ، ڈاکٹر رفیق بانبھن نے سندھ اسمبلی میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےکہا کہ ہماری مدد سے سندھ اسمبلی کی اپوزیشن نے سیٹیں حاصل کی وزیر اعظم سے مطالبہ کرتے ہے کہ انکوائری کرائی جائے اسلام آباد کی طرح یہاں پر بھی انکوائری ہوکہ وہ چھ احسان فراموش ضمیر فروش ایم پی ایز کون تھے ،ان کو ظاہر کیا جائے ،وزیر اعظم انکوائری کررہے ہیں۔
الیکشن کمیشن سے بھی مطالبہ ہے کہ دھاندلی کا نوٹس لیں،راتوں رات وہ ایم پی اے کیسے بیمار ہوئے،ایک ایم پی اے کا ووٹ دوسرے ایم پی اے نے کاسٹ کیا کہاں گئی الیکشن کمیشن؟پرسوں تک ایک طاقتور وزیر بلکل صحتمند تھے بیلٹ پیپر دیتے ہوئے وہ اندھا ہوگیا اور اس کا بھی ووٹ کسی اور نے کاسٹ کیا الیکشن کمیشن میں پٹیشن داخل کریں گے، اگر ضرورت پڑی تو دھاندلی کے خلاف کورٹ میں بھی جائیں گے۔
شہریارمہر نے کہا کہ ہمارے 14 ایم پی ایز کے ووٹوں سے ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کی سیٹیں نکل سکیں ،عمران خان اپنی صفوں سے غداروں کا صفایاکریں،ہم عمران خان کے ساتھ ہیں،کالی بھیڑوں کو پکڑیں، ہم نے پروف کے ساتھ وزیر اعظم کو درخواست بھیج دی ہے،نصرت سحر عباسی نے کہا کہ بے ضمیروں کے نام سامنے آئیںگے تو میڈیا کو بتادیں گے،وزیر اعلی سرپرائز کی بات کررہے تھے ان کو جی ڈی اے نے بے نقاب کیا ہے،جی ڈی اے نے بڑی تکلیفیں دیکھی ہیں مگر ہم پیر صاحب پگارا کے ساتھ ہیں،جی ڈی اے کے 14 ممبروں سے ایک بھی نہیں بکا،ملک کی بہتری کے لیے قربانیاں دیتے رہیں گے۔
دوسری جانب 12 مارچ کا معرکہ سر کرنے کے لیے حکومتی اوراپوزیشن جماعتیں پورازور لگارہی ہیں حکومت صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ برقرار رکھناچاہتی ہے جبکہ اطلاعات ہیں کہ ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ ایم کیو ایم نے مانگ لیا ہے۔ جس پر ایم کیو ایم کو تنقید کا نشانہ بھی بنایاجارہا ہے کہاجارہا ہے کہ سینیٹ انتخاب،اعتماد کے ووٹ اور چیئرمین سینیٹ کے ووٹ کے عوض ایم کیو ایم کو اپنے بنیادی مطالبات پر زور دینا چاہیئے تھا جن کی بنیاد پر وہ حکومت کا حصہ بنے تھے جن میں ایم کیو ایم کے دفاتر کی واپسی، لاپتہ کارکنوں کی بازیابی، کراچی کے مسئلے ، ترقیاتی فنڈز ، کارکنوں پر سے مبینہ جھوٹے مقدمات کا خاتمہ، مردم شماری کا انعقاد ،حیدرآباد یونیورسٹی کا قیام جیسے بنیادی مطالبات شامل تھے۔
سینیٹ چیئرمین کے لیے پی ڈی ایم کی طرف سے یوسف رضا گیلانی چیئرمین کے امیدوار ہوں گےجوسیاسی جماعتوں سے رابطےبھی شروع کرچکے ہیں جبکہ صادق سنجرانی نے چیئرمین سینیٹ بننے کے لیے بھاگ دوڑ تیز کردی، صادق سنجرانی نے ایم کیوایم کے کنوینرخالدمقبول صدیقی سے ملاقات کی جس میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال، امین الحق،خالدمگسی، منظورکاکڑ اور کہدہ بابر بھی شریک تھے۔ملاقات میں ملکی مجموعی سیاسی صورتحال اور چیئرمین سینیٹ کے انتخابات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
چیئرمین سینیٹ نے ملاقات میں حمایت بھی مانگی، مسلم لیگ(ق) نے چیئرمین سینیٹ کے لیے صادق سنجرانی کی حمایت کا اعلان کردیا۔پیپلز پارٹی کے نومنتخب سینیٹر یوسف رضاگیلانی سے متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیوایم) کے وفد کی ملاقات ہوئی۔ ملاقات کے دوران سینیٹ الیکشن سے متعلق اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔یوسف رضا گیلانی نے کہاہے کہ متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم) سے چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں تعاون مانگتے ہیں، ہماراوفد صوبائی سطح پر ایم کیو ایم سے مل چکا ہے، آئین اور قانون کے لیے ایم کیو ایم سے تعاون کی درخواست کی ہے، ایم کیو ایم سے گزارش ہے کہ پی ڈی ایم کا ساتھ دے، ایم کیو ایم کے کنوینرخالدمقبول کا کہنا تھا کہ خوش نصیبی ہے کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ہمارے پاس آئے، رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں حتمی نتیجے پر پہنچیں گے۔
سینیٹ چیئرمین کے انتخاب کے بعد پی ڈی ایم لانگ مارچ کا فیصلہ کرے گی جس کے لیے جے یو آئی اور پی پی پی نے یوسی، وارڈ کی سطح پر تیاریاں شروع کردی ہے یہ اطلاعات بھی ہے کہ پی ڈی ایم کے صدر مولانافضل الرحمن اور پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کراچی سے مارچ کی قیادت کریں گے ادھر جماعت اسلامی نے حقوق کراچی کے عنوان سے کراچی کے مسائل کے حل کے لیے مسلسل جدوجہد کا سلسلہ شروع کررکھا ہے جماعت اسلامی اس ضمن میں 14 مارچ کو قائدآباد سے گورنرہاؤس تک احتجاجی مارچ کرے گی مارچ کو کامیاب بنانے کے لیے جماعت اسلامی نے رابطے بھی شروع کردیئے ہیں۔
ادھر وفاقی وزیر فیصل واڈا نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 249 کی نشست خالی کردی ہے وہ سندھ سے سینیٹر منتخب ہوچکے ہیں پی ٹی آئی کو الیکشن کمیشن سے 2018کے الیکشن میں دوہری شخصیت چھپانے کے الزام میں فیصل واڈا کونااہلی کا خطرہ تھا اس لیے انہیں سینیٹ کا ٹکٹ دیا گیا ہے تاہم قانونی ماہرین کے مطابق جھوٹ کہنے پر وہ آئین کے آرٹیکل 63,62پر پورا نہیں اترتے لہٰذا نااہلی کی تلوار اب بھی ان پر لٹکی ہوئی ہے ۔اس نشست سے شہبازشریف نے فیصل واڈا کے خلاف الیکشن لڑا تھا اور انہوں نے 34 ہزار 624، فیصل واڈا نے 35 ہزار 344 ووٹ لیے تھے۔ ن لیگ نے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کواس حلقے سے ٹکٹ جاری کیا ہے۔