اسلام آباد (طاہر خلیل)چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں 8 ووٹ مسترد ہونا غیر معمولی واقعہ نہیں قانونی جنگ ہوگی ، پریذائڈنگ افسر کا کنڈکٹ ایسے انتخابی عمل میں بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
تاہم یہ بات طے ہے کہ سینٹ رولز مین چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب اور بیلٹ پر سٹیمپ لگانے کا طریق کار درج نہیں لیکن پارلیمانی تاریخ بتائی ہے کہ فیصلے کیلئے بیلٹ پیپر پر ووٹر کی نیت دیکھی جاتی ہے سید مظفر حسین شاہ پختہ کار پارلیمنٹرین اور سیاستدان ہیں ۔
جو سندھ کے وزیر اعلیٰ اور صوبائی سپیکر بھی رہ چکے ہیں ،یوسف رضا گیلانی کے 7 ووٹ مسترد ہونے سے معاملہ ختم نہیں ہوا سینٹ لابی میں موجود اپوزیشن کے کئی رہنما صورتحال سے مایوس نہیں تھے ۔ اب یہ معاملہ عدالت میں قانونی جنگ اختیار کر ے گا۔
ماضی میں ایسی کئی نظیر یں موجود ہیں جب چیئرمین ، ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں بیلٹ پیپر پر غلط جگہ مہر لگائی گئی اور ووٹ مسترد بھی ہوئے اور درست بھی قرار دیئے گئے ، 1997 کا واقعہ ہے جب وسیم سجاد چوتھی مرتبہ چیئرمین سینٹ کا الیکشن لڑ رہے تھے۔
مقابلے میں احمد فراز مرحوم کے بھائی بیرسٹر مسعود کوثر تھے، وسیم سجاد کے 18 ووٹ مسترد ہو گئے ،اس وقت سینٹ کا ایوان 87 رکنی تھا اور اجمل خٹک پریذائڈنگ افسر تھے ، وسیم سجاد 18 ووٹ مسترد ہونے کے باوجودچیئرمین سینٹ کا الیکشن جیت گئے ۔
اس کے بعد چیئرمین کی حیثیت سے انہوں نے ڈپٹی چیئرمین کا الیکشن کرایا ، اکبر بگٹی مرحوم کے داماد ہمایوں مری ڈپٹی چیئرمین کے امید وار تھے، ان کے بھی 18 ووٹ خراب ہو گئے ، لیکن وسیم سجاد نے یہ 18 ووٹ درست قرار دے دیئے تھے اور رولنگ دی تھی کہ ووٹر کی نیت کا پتہ چل رہا تھا کہ وہ کسے ووٹ دینا چاہتے تھے۔
سینٹ سیکریٹریٹ میں یہ سارا ریکارڈ موجود ہو گا، یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ پریذائڈنگ افسر مظفر حسین شاہ کی رولنگ چیلنج ہو سکتی ہے یا نہیں ؟چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا الیکشن آئین کےآرٹیکل 69 کے تحت پارلیمنٹ کی انٹر نل پروسیڈنگ میں آتا ہے تاہم 1997 میں ہی ایک اور واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ پارلیمنٹ کی انٹرنل کارروائی بھی عدالت میں چیلنج ہو سکتی ہے۔