• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) کو اسلام آباد اور پنجاب کی حکومت ملی ہے، جبکہ پیپلز پارٹی کو سندھ اور تحریک انصاف کو سرحد کی حکومت ملی ہے، بلوچستان میں علاقائی پارٹیوں کی حکومت بن رہی ہے، قومی نقطہ نظر سے یہ صورتحال بڑی دلچسپ ہے، اب تینوں بڑی سیاسی پارٹیوں کے درمیان مقابلہ پوائنٹ سکورنگ سے زیادہ قومی اور عوامی مسائل حل کرنے کے حوالے سے ہو گا۔ جس کو کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں آئندہ پانچ سال کے لئے ”گورننس“ کا مقابلہ بین الصوبائی سطح پر شروع ہونے والا ہے، ہو سکتا ہے یہ مقابلہ صحت مند ہو اور اس سے چاروں صوبوں کے غریب عوام کی بھلائی ہو، انہیں کم از کم مساوی معاشی حقوق اور وسائل تو ملیں گے۔ گورننس بھی اب ایک نہیں، تین چار طرح کی ہو گی۔ انتظامی گورننس، اکنامک گورننس، سیاسی گورننس اور سوشل گورننس، یہ سب شعبے ہماری قومی ترقی کی راہ ہموار اور نا امیدی، ذہنی بددلی کا راستہ روکتے ہیں۔ چند روز قبل بھٹو صاحب دور کے وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن بتا رہے تھے کہ اب ہمارے عوام مایوسی سے ناامیدی کی طرف جا رہے ہیں، یہ بات ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے اس بات میں کافی وزن ہے۔ اسی سلسلہ میں تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر سوچنا ہو گا کہ ایسا کیوں ہے؟ اس کا ذمہ دار کون ہے! یہ بات باعث افسوس اور ندامت بھی ہے کہ ہنستے کھیلتے عوام سے ان کی خوشیاں چھین لی گئی ہیں۔ اس کا بدلہ تو عوام نے انتخابات میں لے لیا ہے لیکن اس پس منظر میں اصل امتحان نئے حکمرانوں کا ہے، وہ چاہے صوبے چلا رہے ہوں یا وفاق کا نظام! انہیں عوام کو ذہنی سکون اور اعتماد دینا ہو گا۔ جس سے وہ بددلی چھوڑ کر پورے جوش و جذبے سے قومی تعمیر نو میں مصروف ہو جائیں، مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف اور ان کی ٹیم کو دیکھنا ہو گا کہ صرف پنجاب نہیں، سارے پاکستان میں میگا پراجیکٹ ضرور شروع کریں، مگر اس سے پہلے ہر سطح پرسیاسی سرگرمیوں کی بحالی اور توانائی کے بحران کو مل کر ”گورننس“ کا ایک ایسا ماڈل قوم کے سامنے لائیں، جس سے عوام کا اعتماد وہ حاصل کرتے رہیں اور ہر گھر میں پھیلے ہوئے اندھیرے اور مایوسی کو دور کرنے میں مددگار ثابت ہوں، چند روز قبل میاں نواز شریف نے کہا کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد اب ہم معاشی دھماکے کریں گے۔ یہ وقت جذبات بھرے نعرے لگانے کا نہیں ہے، یہ وقت عملی طور پر کچھ ”ڈلیور“ کرنے کا ہے، ماضی میں دھماکے، ناکے، فاقے، ڈاکے اور کس کس طرح کے دھماکے نہیں کئے گئے قوم کو اس سے کیا ملا۔ ہر گھر میں غربت، بے روزگاری اور مہنگائی نے جگہ بنا لی ہے، دہشت گردی اور امن و امان کی پریشان کن صورتحال نے ملک کا کیا حال کیا۔ پاکستان کی معیشت اربوں ڈالر کی محتاج ہو گئی زرعی طور پر مضبوط ملک کا یہ حال ہو گیا کہ اب دیہات میں بھی ”غریبی“ نظر آ رہی ہے، اس لئے یہ وقت معاشی دھماکے کرنے کا نہیں، قومی توقعات کے مطابق ایک ایسا معاشی پلان (ویژن) دینے کی ضرورت ہے۔ جس سے سارے ملک کا فائدہ ہو اور صوبوں میں احساس محرومی کا عملی طور پر خاتمہ ہو۔ اس وقت ملک کے تمام اہم ترین مسائل خواہ وہ انرجی کا بحران ہو یا امن و امان کی صورتحال، معیشت کی بحالی کا ایشو ہو یا عوام کو صحت و تعلیم اور دیگر مسائل! سب کا تعلق کسی نہ کسی طرح گورننس سے ہے۔ اب جہاں گورننس اچھی ہو گی وہاں کے عوام زیادہ خوشحال اور مطمئن ہوں گے اور دوسرے صوبوں میں جب ایسا نہیں ہو گا تو وہاں کے عوام کسی بھی ردعمل کا اظہار کر سکیں گے۔ مثال کے طور پر اس وقت سب سے دلچسپ صورتحال پاکستان میں سستی بجلی کے تیار ترین منصوبے ”کالا باغ ڈیم“ کی ہے، جس کی قسمت ہمیں امید ہے کہ جاگنے والی ہے۔ کے پی کے (KPK) میں تحریک انصاف کی حکومت ہے، ان کے منشور میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر شامل ہے، وہاں ہمارے محترم بزرگ انجینئر شمس الملک بیٹھے ہیں، وہ ان کی مشاورت سے کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر مقامی عوام کو راضی کر سکتے ہیں اور انہیں بتا سکتے ہیں کہ 2010کے سیلاب سے پہلے اگر کالا باغ ڈیم ہوتا تو پھر نوشہرہ کبھی نہ ڈوبتا۔ اگر وہاں اس حوالے صورتحال میں کوئی بہتری آ جاتی ہے تو پھر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو وفاق اور پنجاب میں اس حوالے سے کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔ ویسے بھی اگر کالا باغ ڈیم بنتا ہے تو اس سے سب سے زیادہ فائدہ سندھ اور سرحد کے ساتھ ساتھ پنجاب اور بلوچستان کو ہو گا جب بجلی سستی ہو گئی تو اس سے معاشی سرگرمیوں میں مزید تیزی آئے گی اس سلسلہ میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو چاہئے کہ وہ پہلے سو دنوں میں قومی سیاسی جماعتوں کی APC بلائیں، جس میں اس ڈیم کی تعمیر کے لئے سوچ بچار کی جائے، دوسرا یہ کہ اس منصوبے کا نام میاں نواز شریف کے ایک پرانے وعدے کے مطابق ”پاکستان ڈیم“ رکھ دیا جائے، جس کا وعدہ انہوں نے پاکستان کے ایک بزرگ صحافی کے گھر 1998ء کے عرصہ میں کیا تھا۔ اگر ملک میں کالا باغ ڈیم بناؤ کی کوئی تحریک شروع ہوتی ہے تو اس سے مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی حکومتیں سندھ میں پیپلز پارٹی کو مزید کئی مشکلات سے دوچار کر سکتی ہیں۔ ایسے حالات میں پیپلز پارٹی کی قیادت بھی اس منصوبے کی حمایت پر مجبور ہو سکتی ہے۔ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں قومی اقتصادی ایشوز پر متفقہ لائحہ عمل اختیار کریں، اگر وہ ایسا نہ کر سکیں تو نہ ان کی گورننس ٹھیک ہو گی اور نہ قوم کے معاشی اور سماجی مسائل حل ہو سکیں گے۔ جس سے غیر جمہوری سوچ کو تقویت مل سکتی ہے۔ اس کا راستہ روکنے کے لئے کرپشن کا خاتمہ اور نیب آرڈیننس پر عمل درآمد حالات اور وقت کا اہم ترین تقاضا بھی بنتا جائے گا۔
تازہ ترین